نیتن یاہو کی جنگ بندی پر مشروط آمادگی، مذاکرات کے لیے قطری دعوت قبول
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
نیتن یاہو کی جنگ بندی پر مشروط آمادگی، مذاکرات کے لیے قطری دعوت قبول WhatsAppFacebookTwitter 0 6 July, 2025 سب نیوز
اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر تیار ہیں، جس کے لیے اسرائیل کا ایک وفد قطر بھیجا جائے گا۔
عالمی میڈیا کے مطابق حماس کی جانب سے فوری مذاکرات کی پیشکش کے بعد اسرائیل کا یہ ردعمل سامنے آیا ہے، تاہم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے مسودے میں حماس کی طرف سے تجویز کی گئی تبدیلیاں اسرائیل کےلیے قابلِ قبول نہیں۔
نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ قطر کی جانب سے فراہم کی گئی تجاویز اور حماس کی تبدیلیوں سے گزشتہ شب اسرائیل کو آگاہ کیا گیا تھا، تاہم ان میں سے کئی نکات پر اسرائیل کو اعتراضات ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد نیتن یاہو نے قطری دعوت پر مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ یرغمالیوں کی واپسی کےلیے انہی شرائط پر بات آگے بڑھائی جاسکے جن پر اسرائیل پہلے ہی اتفاق کرچکا ہے۔
قطر اور امریکا کی کوششوں سے یہ مذاکرات ایسے موقع پر متوقع ہیں جب 21 ماہ بعد پہلی بار اسرائیل کی قیادت نے اس تنازع کے خاتمے کے لیے نرمی دکھائی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹر ہمدہ سلحوٹ کے مطابق اب تک نیتن یاہو پر صرف اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلِ خانہ اور یورپی اتحادیوں کی جانب سے دباؤ تھا، لیکن اس بار دباؤ کا اصل منبع براہِ راست امریکا ہے، جس کا اثر نیتن یاہو کی حالیہ مشاورتوں سے ظاہر ہورہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم آئندہ رات اپنی کابینہ اور سیکیورٹی حکام کے ساتھ مزید مشاورت کے بعد واشنگٹن روانہ ہوں گے، جہاں وہ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی پر تبادلہ خیال کریں گے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ابتدائی طور پر 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز پر اصولی آمادگی ظاہر کی ہے جس پر فوری طور پر بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔
گزشتہ موقف کے برعکس جب نیتن یاہو کا اصرار تھا کہ جنگ بندی کی کوئی تجویز اس وقت تک قبول نہیں کی جاسکتی جب تک حماس کا مکمل خاتمہ نہ ہو اور یرغمالیوں کی رہائی یقینی نہ بنا لی جائے، اب وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کیسے اپنے سکیورٹی اہداف حاصل کر سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق آئندہ چند دنوں میں قطری ثالثی میں جنگ بندی پر عملی مذاکرات کا آغاز متوقع ہے، جس سے غزہ میں جاری خونریزی کے خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرراولپنڈی میں 250 بوسیدہ عمارتیں خطرناک قرار، میٹرو پولیٹن کا فوری انخلا کا حکم جرمنی چین تعلقات کی ترقی کی رفتار بہتر ہے، جرمن چانسلر امن کا راستہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے ، طاقت حقیقی امن نہیں لا سکتی، چینی وزیر خارجہ چین اور فرانس کو جامع تعلقات اور متحد ہونے کی ضرورت ہے، چینی وزیر خارجہ حماس کی غزہ جنگ بندی معاہدے پر تجاویز موصول؛ مشاورت بھی شروع؛ اسرائیل غزہ جنگ بندی معاہدہ آئندہ ہفتے ہونے کا امکان، حماس کی جانب سے مثبت پیشرفت اسرائیلی حکومت اور فوج آمنے سامنے، نیتن یاہو اپنے آرمی چیف پر چلا اٹھےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
حماس کی غزہ جنگ بندی معاہدے پر تجاویز موصول؛ مشاورت بھی شروع؛ اسرائیل
اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ بندی سے متعلق حماس کا جواب موصول ہوگیا ہے جس کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ انھیں حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق ایک مجوزہ معاہدے کی تجاویز موصول ہوئی ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ حماس کی تجاویز باضابطہ طور پر ثالثوں کے ذریعے اسرائیل تک پہنچائی گئیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اسرائیلی حکومت کے متعلقہ ادارے حماس کی تجاویز پر غور اور مشاورت میں مصروف ہیں تاکہ آئندہ کے لائحہ عمل کا تعین کیا جا سکے۔
یاد رہے گزشتہ روز حماس نے امریکی صدر ٹرمپ کی غزہ جنگ بندی تجاویز پر اپنا جواب ثالثوں کے پاس جمع کرایا تھا۔
معاہدے سے واقف ایک فلسطینی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ حماس کا جواب مثبت ہے جس سے فوری جنگ بندی کی امید کا امکان قوی ہوگیا۔
حماس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ معاہدے میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی، اور اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی جیسے نکات شامل ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یہ عندیہ دے چکے ہیں غزہ جنگ بندی معاہدہ اگلے ہفتے تک طے پا جائے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بھی چند روز میں امریکی دورے پر پہنچیں گے۔
خیال رہے کہ یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ نے خطے میں انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر دونوں فریقین اس معاہدے پر متفق ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف یرغمالیوں کی رہائی کی راہ ہموار کرے گا بلکہ جنگ بندی کی جانب بھی ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔