مصر؛ غزہ امن معاہدے پر دستخط ہوگئے
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ امن منصوبے پر باضابطہ دستخط ہوگئے جو خطے میں جاری برسوں کے تصادم اور خونریزی کے بعد ایک اہم سفارتی موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثوں کے ذریعے طے پانے والے معاہدے پر امیرِ قطر کے علاوہ مصری اور امریکی صدور نے ایک پُروقار تقریب میں دستخط کردیئے۔
خیال رہے کہ اس معاہدے کا مقصد نہ صرف جنگ بندی کو مستقل شکل دینا ہے بلکہ غزہ میں تعمیرِ نو، سیاسی استحکام اور انسانی امداد کے مستقل نظام کو یقینی بنانا بھی ہے۔
BREAKING: US President Trump signs Gaza peace plan: "It's going to hold up.
امریکی صدر نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا جس پر چند روز قبل ہی حماس اور اسرائیل نے اتفاق کرتے ہوئے سیزفائر پر متفق ہوگئے تھے۔
آج جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت حماس نے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جب کہ اسرائیل جیل سے بھی فلسطینیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔
اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے موقع پر امریکی صدر بھی اسرائیل میں ہی موجود تھے جہاں سے وہ مصر پہنچے اور امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی۔
معاہدے پر دستخط کی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت فلسطینی وفود اور مختلف ممالک کے سفارتکار بھی موجود تھے جب کہ متعدد عالمی رہنماؤں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: معاہدے پر
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی کے بعد امارات اور اسرائیل کے امن ریلوے منصوبے پر کام تیز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں ایک اور بڑی پیش رفت سامنے آگئی ہے جہاں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے مبینہ طور پر امن ریلوے کے نام سے جاری ریلوے راہداری منصوبے کی تعمیر پر غیر معمولی تیزی سے کام شروع کردیا ہے، اس منصوبے کو خطے میں تجارتی راستوں کے نئے دور کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ راہداری دراصل ایک بڑے اسٹریٹیجک ریلوے نیٹ ورک کا حصہ ہے جس میں نہ صرف ریل کی پٹڑیاں شامل ہوں گی بلکہ ساتھ ساتھ مواصلاتی کیبلز، پائپ لائنز اور توانائی کی ترسیلی لائنوں کا وسیع انفراسٹرکچر بھی بچھایا جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ متعدد مقامات پر انفراسٹرکچر فائنل مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جبکہ کئی حصے مکمل بھی کرلیے گئے ہیں، منصوبے کی رفتار بڑھانے کی ایک بڑی وجہ بحیرہ احمر میں حوثی لڑاکوں کے حملے ہیں، جن کی وجہ سے اسرائیل آنے والے تجارتی جہازوں کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے اسرائیل نے بھارت، عرب ریاستوں اور یورپ تک ایک متبادل زمینی و بحری راستہ ترتیب دیا ہے۔
اس نئے روٹ کے مطابق بھارتی بندرگاہ مندرا سے سامان پہلے متحدہ عرب امارات پہنچے گا، جہاں سے اسے سعودی عرب اور اردن کے راستے ٹرکوں کے ذریعے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ منتقل کیا جائے گا، بعد ازاں یہ اشیا یورپی اور امریکی منڈیوں تک برآمد ہوں گی۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرِ ٹرانسپورٹ میری ریگیو ایک خفیہ دورے پر ابوظہبی پہنچیں جہاں اسرائیلی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے تکنیکی ماہرین نے بھی منصوبے کا براہِ راست جائزہ لیا۔ اسرائیلی میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ فرانس اور ترکیہ ایک متبادل تجارتی راہداری تشکیل دینے پر غور کر رہے ہیں جو اردن سے شام اور پھر لبنان کی بندرگاہ تک جائے گی۔ اگر یہ راستہ فعال ہوگیا تو اسرائیل خطے کی بڑی معاشی دوڑ سے باہر ہوسکتا ہے۔
امارات، سعودی عرب اور بھارت پہلے ہی اس منصوبے پر عملی پیشرفت کر چکے ہیں جبکہ اسرائیل نے غزہ جنگ کے دوران سفارتی روابط منجمد کرکے اپنے لیے مشکلات بڑھا دی تھیں۔ اب اسرائیل دوبارہ اس منصوبے میں جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ راہداری اس کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔
دونوں ملکوں نے ٹرانزٹ اور کنیکٹیویٹی امور کی نگرانی کے لیے ایک مشترکہ انتظامی ادارہ قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے، تاہم اس کی پیش رفت خفیہ رکھی جارہی ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جلدی خراب ہونے والی اشیا چند گھنٹوں میں اسرائیل پہنچ سکیں گی بشرطیکہ سعودی عرب اور امارات رستہ کھلا رکھیں۔