اسرائیلی حکومت نے غزہ میں جاری جنگ بندی کے مذاکرات کےلیے اپنی مذاکراتی ٹیم کو قطر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ساتھ ہی حماس کی شرائط مسترد کردی ہیں۔

یہ وفد امریکا اور قطر کی تجویز کردہ جنگ بندی کے معاہدے پر بات چیت کے لیے دوحا جارہا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ حماس کی طرف سے قطری تجویز میں تبدیلی کی درخواست کو ’’قابل قبول نہیں سمجھا جاتا‘‘۔

عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے سخت گیر اتحادیوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ غزہ میں حماس اور دیگر مسلح گروپوں کی فوجی طاقت ختم کیے بغیر جنگ بندی نہیں کریں گے۔

یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے جنگ بندی کےلیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے، لیکن اسرائیل کا موقف ہے کہ وہ حماس کی فوجی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کیے بغیر کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔

قطر اور امریکا کے درمیان ہونے والی مذاکرات میں اسرائیلی وفد کا رویہ واضح کرے گا کہ آیا جنگ بندی کے لیے کوئی مشترکہ زمین دستیاب ہوسکتی ہے یا نہیں۔ مبصرین کے مطابق اگرچہ مذاکرات کا عمل جاری ہے، لیکن فریقین کے درمیان بنیادی اختلافات اب بھی موجود ہیں جو کسی فوری حل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنگ بندی کے حماس کی

پڑھیں:

غزہ کے اسرائیل نواز غنڈے

شاید آپ کو یاد ہو کہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ قبل غزہ شہر اور خان یونس میں اچانک حماس مخالف جلوس نکلے۔ان میں شامل چند سو افراد غزہ کے موجودہ مصائب کا ذمے دار حماس کو قرار دے رہے تھے۔ان جلوسوں میں متعدد مقامی مسلح باشندے بھی تھے۔ جب کہ اسرائیلی فوجی دستے کچھ ہی فاصلے سے یہ خلافِ معمول تماشا اطمینان سے دیکھ رہے تھے۔

اس ’’ تماشے ‘‘ کے چند روز بعد وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں ان اخباری اطلاعات کی تصدیق کی گئی کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں حماس مخالف گروہوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔

 نیتن یاہو نے اپنے ایک وڈیو بیان میں کہا کہ ’’ ہم سیکیورٹی حکام سے مشاورت کے بعد غزہ میں حماس مخالف گروہوں کو اسلحہ دے رہے ہیں۔اس میں غلط کیا ہے ؟ بلکہ اس حکمتِ عملی سے اسرائیلی فوجیوں کی جانیں بچانے میں مدد مل رہی ہے۔مگر اس حکمتِ عملی کی منفی تشہیر کرنے والے دراصل حماس کی پروپیگنڈہ مدد کر رہے ہیں ‘‘۔

نیتن یاہو کا اشارہ سابق وزیر ِدفاع ایوگیدور لبرمین کی جانب تھا جن کا دعویٰ ہے کہ رفاہ شہر میں ’’ پاپولر فورس ملیشیا ‘‘ نامی ایک جرائم پیشہ گروہ جس کی سربراہی یاسر ابو شباب نامی ایک پینتیس سالہ شخص کر رہا ہے۔اسے اسرائیلی ادارے اسلحہ دے رہے ہیں۔اس گروہ میں سو کے لگ بھگ مسلح لوگ ہیں۔

بقول لبرمین شباب گروپ جنگ سے قبل نہ صرف سرحد پار مصر سے غزہ میں منشیات ، اسلحہ اور اشیائے خورونوش اسمگل کرتا رہا ہے بلکہ جنگ کے بعد امدادی ٹرکوں اور خوراک کے گوداموں کی لوٹ مار میں بھی ملوث ہے۔یہ کھلا راز اسرائیلی اداروں سے بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں تک ہر متعلقہ فریق کے علم میں ہے۔ اسرائیلی فوج کے کنٹرول والے علاقوں میں ابو شباب اور اس کے گروہ کی سرگرمیاں سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں۔

ایک وڈیو میں یاسر ابو شباب رفاہ کے کچھ لٹے پٹے لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ ’’ آپ اپنے گھروں میں واپس آ جائیں۔ہم آپ کو تحفظ بھی دیں گے اور ادویات و خوراک بھی پہنچائیں گے ‘‘۔

ان وڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد یاسر ابو شباب کے ترابین قبیلے اور کنبے نے اس سے اعلانِ لاتعلقی کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی خفیہ اداروں کے ساتھ یاسر کے تعاون کی خبریں سننے کے بعد ہمارا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔نہ ہی اس کے انجام کی پرواہ ہے۔اس کی ہلاکت کی صورت میں ہم کسی پر خوں بہا کا دعویٰ نہیں کریں گے۔

حماس نے یاسر ابو شباب کو دس دن کا الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ یا تو حماس کی قائم کردہ عدالت میں پیش ہو جائے ورنہ اپنی سلامتی کا خود زمہ دار ہوگا۔

مقبوضہ فلسطین میں انسانی امداد سے متعلق اقوامِ متحدہ کے رابطہ کار جوناتھن وٹھال کا کہنا ہے کہ غزہ کے جرائم پیشہ گروہ اسرائیلی فوج کے زیرِ انتظام سرحدی کراسنگ کارم شلوم سے گذرنے والے امدادی ٹرکوں کے اغوا اور لوٹ مار میں ملوث ہیں اور وہ یہ امداد غزہ کے مصیبت زدگان کو من مانی قیمت پر فراہم کرتے ہیں۔حالانکہ یہ امداد مستحقین کے لیے مفت ہے۔یہ واردات گزشتہ ایک برس سے ہو رہی ہے۔

اسرائیل حماس مخالف گروہوں کی کیوں مدد کر رہا ہے ؟ کچھ اسرائیلی عسکری ماہرین کے بقول حکمتِ عملی یہ ہے کہ یا تو اسرائیل پورے غزہ کو براہِ راست اپنے فوجی انتظام میں رکھے یا پھر حماس کو ختم کر کے مشترکہ انتظام مصر اور معاہدہِ براہیمی میں شامل متحدہ عرب امارات کو سونپ دے یا پھر بتدریج محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دے اور اتھارٹی اسرائیل نواز مقامی گروہوں کی مدد سے نظام چلائے ۔کیونکہ اسرائیل کو براہ راست طویل المیعاد فوجی قبضہ عسکری اور سفارتی اعتبار سے مہنگا پڑ سکتا ہے۔

 فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کے عام لوگوں کی اکثریت ناپسند کرتی ہے لہٰذا اسرائیل کی کوشش ہے کہ متوازی مقامی گروہوں کو اتنا منظم و مسلح کردیا جائے کہ وہ حماس کو بھی غزہ سے دور رکھیں اور اسرائیلی کی مٹھی میں بھی رہیں۔

ان مبصرین کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے بیشتر علاقے سے حماس کا انتظامی کنٹرول ختم کر دیا ہے۔اس خلا کو جرائم پیشہ گروہ پر کر رہے ہیں۔ ماضی میں حماس ان گروہوں سے سختی سے نمٹتی رہی ہے اور بہت سے مخبروں کو ہلاک بھی کیا گیا ہے۔ تاہم اب ان گروہوں کو خود کو نمایاں اور موثر ہونے کا موقع نظر آ رہا ہے۔

حماس مخالف گروہوں میں رفاہ کے ترابین قبیلے اور ابو رشا خاندان کے علاوہ غزہ شہر اور آس پاس دغماش خاندان نمایاں ہے۔دغماش خاندان کے سربراہ کو اسرائیل سے روابط کے الزام میں گزشتہ برس ہلاک کر دیا گیا۔غزہ شہر میں الکشق خاندان کی بھی حماس سے لگتی ہے اور اسرائیلیوں سے بھی اس کے جزوقتی روابط بتائے جاتے ہیں۔خان یونس کے علاقے میں ابو طیر برادری کی وجہ شہرت اسمگلنگ ہے۔وہاں کا شاوش خاندان بھی دیگر گروہوں کے ساتھ مل کے دھندہ کرتا ہے۔جب کہ غزہ شہر کے مضافات میں برکا خاندان کا شمار فلسطینی اتھارٹی کے حامیوں میں ہوتا ہے لہٰذا حماس سے اس کی بھی نہیں بنتی۔

اسرائیل کی طویل المیعاد غزہ حکمتِ عملی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے سبب ( جس کی اسے کبھی بھی پرواہ نہیں رہی ) غزہ سے فوجی قبضہ ڈھیلا کرنا بھی پڑ جائے اور حماس دوبارہ سے غزہ کی پٹی پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کی کوشش کرے تو خانہ جنگی کی کیفیت برقرار رہے۔اسرائیل کی یہ حکمتِ عملی نئی نہیں ہے۔

جب پینتیس برس پہلے تک اسے یاسرعرفات کی تنظیم الفتح سب سے بڑی دھشت گرد تنظیم نظر آتی تھی تو اس نے غزہ میں حماس کے قدم جمنے سے کوئی تعرض نہیں کیا تاکہ فلسطینی آپس میں ہی نظریاتی اعتبار سے گتھم گتھا رہیں۔جب اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے کی شرط پر انیس سو چورانوے میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور اتھارٹی کو عارضی طور پر دو ریاستی حل کا لالی پاپ تھما دیا گیا تو اسرائیل کو حماس کی شکل میں سب سے بڑا حریف دکھائی دیا جس نے فلسطینی اتھارٹی کے برعکس اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔

اب حماس کو غزہ سے باہر رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے مقامی حریفوں کے سر پر ہاتھ رکھا جائے اور ان میں سے بھی اگر کوئی آگے چل کے ذرا سا بھی سر اٹھائے تو کچل دیا جائے۔یہ وہ مجرب خاندانی نسخہ ہے جو سامراجی حکیم صدیوں سے برتتے آ رہے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے  bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو کی جنگ بندی پر مشروط آمادگی، مذاکرات کے لیے قطری دعوت قبول
  • معاہدہ اگر باعزت نہیں ہوا تو پھر حتمی جنگ ہوگی، حماس کمانڈر کا دوٹوک پیغام
  • اسرائیل کو حماس کی جنگ بندی تجاویز موصول، جائزہ شروع
  • حماس کی غزہ جنگ بندی معاہدے پر تجاویز موصول؛ مشاورت بھی شروع؛ اسرائیل
  • حماس جنگ بندی مذاکرات پر تیار، غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 18 افراد شہید
  • غزہ کے اسرائیل نواز غنڈے
  • غزہ، مستقل جنگ بندی آخر کب؟
  • غزہ: 60 روزہ جنگ بندی
  • غزہ میں جنگ بندی پر حماس کا جواب 24 گھنٹے میں آجائے گا؛ ڈونلڈ ٹرمپ