سدرہ بی بی قتل کیس میں بڑی پیشرفت: گرفتار 2 ملزمان کی ضمانت منظور، فوری رہائی کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
راولپنڈی میں غیرت نام پر 17 سالہ سدرہ بی بی قتل کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے جب کہ عدالت نے گرفتار 2 ملزمان کی ضمانت منظور کرکے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
گورکن راشد محمود ریکارڈ کیپر قبرستان سیف الرحمان کی ضمانتیں منظور کی گئیں، دونوں ملزمان کو 2 ۔ دو لاکھ روپے مالیت کے ضمانتی مچلکے جمع کرانیکا حکم دیا گیا۔
ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جج جسٹس وحید خان نے ضمانتیں منظور کیں، سترہ سالہ سدرہ بی بی کو طلاق کے بعد پسند کی دوسری شادی پر جرگے کے حکم پر قتل کیا گیا۔
تھانہ پیرودھائی نے 12 جولائی کو مقدمہ درج کیا تھا، مقتولہ کا والد، بھائی، سسر، پہلا شوہر، چچا اور جرگہ سربراہ سمیت 12 ملزم تاحال جیل میں ہیں۔
ضمانتی مچلکے ٹرائل کورٹ ایڈیشنل سیشن جج عدالت جمع کرانے ہوں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
راولپنڈی: توہین ازواج مطہرات کیس میں ہائی کورٹ نے ملزمہ کو بری کر دیا
راولپنڈی کی ہائی کورٹ نے توہین ازواج مطہرات کے مشہور کیس میں ملزمہ انیقہ عتیق کی سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے ججز صداقت علی خان اور وحید خان نے مختصر فیصلے میں کہا کہ ملزمہ کی سزا تکنیکی بنیادوں پر کالعدم قرار دی جاتی ہے، کیونکہ اس کیس میں کئی اہم شواہد حاصل نہیں کیے گئے تھے۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ:
ملزمہ کے موبائل فون کا فرانزک نہیں کرایا گیا، اور یہ بھی واضح نہیں کہ موبائل واقعی ملزمہ کی ملکیت تھا یا نہیں۔
مدعی حسنات فاروق کے موبائل کا فرانزک بھی نہیں کیا گیا۔
ملزمہ اور مدعی کے درمیان کوئی رشتہ یا قانونی تعلق ثابت نہیں ہوا، کیونکہ ملزمہ نامحرم تھی۔
ملزمہ کے وکیل ذوالفقار ملوکہ نے کہا کہ مقدمہ جھوٹا اور خود ساختہ تھا اور خاتون کو پھنسانے کے لیے بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملزمہ کے خلاف واٹس ایپ پر بھی کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔
فیصلے کے بعد مدعی کے وکیل نے کہا کہ مدعی اور ملزمہ پب جی گیم کھیلتے دوست بنے تھے، اور عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
یہ مقدمہ 2020ء میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے درج کیا تھا، اور ابتدائی طور پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے 2022ء میں ملزمہ کو سزائے موت اور پراپرٹی ضبط کرنے کی سزا سنائی تھی۔ ملزمہ پچھلے تین سال سے اڈیالہ جیل کی کال کوٹھڑی میں قید تھی۔
اس فیصلے کے بعد عدالت نے قانونی تقاضوں اور ثبوتوں کی کمی کو بنیاد بنا کر انصاف کو یقینی بنایا اور ملزمہ کو بری کر دیا۔