سپریم کورٹ: افغان شہریوں کو شہریت دینے سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
سپریم کورٹ نے پاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے افغان شہریوں کو پاکستان اوریجن کارڈ (POC) اور شہریت دینے سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
یہ معاملہ جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جمعرات کو سنا۔
ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل زیرِ سماعتسماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسداللہ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ
’ہم نے پشاور ہائیکورٹ کے یکم دسمبر 2023 کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔‘
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے قرار دیا تھا کہ اگر کوئی افغان شہری کسی پاکستانی خاتون سے شادی کرے تو اسے پاکستان اوریجن کارڈ جاری کیا جائے۔ ہمیں پی او سی کارڈ کے اجرا پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ہائیکورٹ نے یہ بھی کہہ دیا کہ ایسے افغان شہریوں کو پاکستانی شہریت دی جائے، جو قانونی طور پر درست نہیں۔
117 درخواست گزار، مزید بھی سامنے آسکتے ہیںجسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ شہریت کس بنیاد پر دی جا سکتی ہے اور کتنے درخواست گزار ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کُل 117 درخواست گزار ہیں۔
اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں جو سامنے آگئے ہیں، مزید بھی بہت سے ہوں گے۔
’دروازہ پھلانگ کر یا دیوار؟‘، ویزا کی شرط پر تبصرہنادرا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ
’پاکستانی خاتون سے شادی کرنے والے افغان شہریوں کے لیے ویلڈ ویزا (Valid Visa) ہونا لازمی شرط ہے۔‘
جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ’یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی شخص ملک میں دروازہ پھلانگ کر آیا ہے یا دیوار پھلانگ کر۔‘
توہینِ عدالت کی درخواستوں کا ذکرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بعض افراد توہین عدالت کی درخواستیں بھی دائر کر رہے ہیں۔
عدالت نے ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کیے اور کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پشاور ہائیکورٹ افغان شہریوں ہائیکورٹ کے کے فیصلے
پڑھیں:
سپریم کورٹ: زیادتی کے کیس میں ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
سپریم کورٹ نے ایک زیادتی کیس میں ملزم کی سزا میں کمی کرتے ہوئے 20 سال قیدِ بامشقت کی سزا کو 5 سال کر دیا۔ جسٹس شہزاد احمد نے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ واقعے کا مقدمہ 7 ماہ بعد درج کیا گیا، متاثرہ خاتون نے واقعے کے وقت مزاحمت نہیں کی، اور طبی معائنے میں تشدد یا مزاحمت کے نشانات سامنے نہیں آئے۔ ان کے مطابق اس بنیاد پر یہ کیس زبردستی زیادتی کے زمرے میں نہیں آتا۔
جسٹس صلاح الدین نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ متاثرہ خاتون کی عمر تقریباً 24 سال تھی اور واقعے کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا، جس کی تصدیق ڈی این اے رپورٹ سے ہوئی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جنسی جرائم کے مقدمات میں تاخیر غیر معمولی نہیں، کیونکہ معاشرتی دباؤ اور خوف کی وجہ سے متاثرہ خاتون رپورٹ درج کروانے میں وقت لے سکتی ہے۔ اسلحے کی موجودگی میں مزاحمت نہ ہونا فطری عمل ہو سکتا ہے، اور 7 ماہ بعد کیے جانے والے طبی معائنے سے مزاحمت کے نشانات ظاہر نہیں ہو سکتے۔ جسٹس صلاح الدین نے زور دیا کہ زیادتی ثابت نہ ہونے سے خودبخود رضا مندی ثابت نہیں ہوتی اور صرف سزا کم کرنے کے لیے جرم کی دفعہ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
یاد رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو 20 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی، اور لاہور ہائی کورٹ نے پہلے یہ فیصلہ برقرار رکھا تھا۔