سال 2025 کی آخری ملک گیر انسدادِ پولیو مہم کا افتتاح
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
وفاقی وزیرمصطفی کمال نے سال 2025 کی آخری ملک گیر انسدادِ پولیو مہم کاافتتاح کردیا۔
تفصیلات کے مطابق مصطفی کمال نے پولیو مہم تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یم ملک سے پولیو کے کیسزکم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہییں۔ ملک میں نناوے فیصد بچوں کوپولیو ہے۔
اس سال پانچ کروڑ 54لاکھ بچوں کوپولیوسے بچائو کے قطرے پلائیں گے۔ گذشتہ سال پولیو کے74کیسزتھے اس سال 30کیسز رپورٹ ہوئے۔ آدھے سے زیادہ پاکستان میں پولیو وائرس موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہشاور،کراچی اورلاہورمیں پولیو وائرس موجود ہے۔ بچوں کو وائرس سے بچانے کیلئے مہم میں قطرے ضرور پلائیں۔ وفاقی حکومت ملک بھرسے وائرس کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تیس پولیو کیسزمیں سے 19کیسز خیبرپختونخواہ سے ہیں۔ سولہ کیسز سائوتھ خیبرپختونخواہ میں سامنے آئے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پیدائشی شہریت غلاموں کے بچوں کیلئے تھی، امیروں کیلئے نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم کی شہریت کی شِق اُس تاریخی دور سے جڑی ہے، جب خانۂ جنگی کے بعد سابق غلاموں کو مکمل قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس قانون کا مقصد امیر غیر ملکیوں کے لیے شہریت کا راستہ کھولنا کبھی نہیں تھا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا میں پیدائش کی بنیاد پر شہریت کا مسئلہ ایک بار پھر سیاسی اور قانونی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ گفتگو میں مؤقف اپنایا ہے کہ یہ آئینی حق بنیادی طور پر غلامی کے خاتمے کے بعد سابق غلاموں کے بچوں کے لیے تھا، نہ کہ اُن افراد کے لیے جو محض امریکا میں بچے کی پیدائش کے ذریعے اپنے خاندان کو شہریت دلوانا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ موجودہ حالات میں امریکا لاکھوں ایسے افراد کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رکھتا، جنہیں وہ "برّتھ رائٹ سٹیزن شپ" کے ذریعے یہاں کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم کی شہریت کی شِق اُس تاریخی دور سے جڑی ہے، جب خانۂ جنگی کے بعد سابق غلاموں کو مکمل قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس قانون کا مقصد امیر غیر ملکیوں کے لیے شہریت کا راستہ کھولنا کبھی نہیں تھا۔
واضح رہے کہ جنوری 2025ء میں جاری کیے گئے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے امریکی حکومت نے ایسے بچوں کی شہریت کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جو غیر قانونی طور پر امریکا میں موجود یا مختصر مدت کے لیے وزٹ پر آئے والدین سے امریکا میں پیدا ہوں۔ یہ پالیسی ماضی پر لاگو نہیں ہوتی، اس اقدام کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا اور مختلف وفاقی عدالتوں نے اس کے نفاذ پر عارضی پابندیاں عائد کیں۔ بعد ازاں امریکی عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے کو باضابطہ سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے، جس کا فیصلہ آئندہ سال متوقع ہے۔