’’ اس آدھے گھنٹے کی بارش نے تو دل ہی دہلا کر رکھ دیا تھا۔ خوف آ رہا تھا، حالاں کہ یہ تو اوپر والے کی رحمت ہے، لیکن کیا کریں کہ ہمارے شہر میں زیادہ دیر بارش ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ یہاں کسی کوکیا پڑی ہے، سب کراچی کو لوٹ کر کھا رہے ہیں۔‘‘
’’بلکہ پورے ملک کو کھایا جا رہا ہے۔ ارے ہم کو ہی چن لیتے، کم ازکم ہم پورے شہر کے حالات سے تو واقف ہیں (قہقہہ) میں تو سڑکیں پہلے بنواتی، ارے بہت فنڈز ہیں۔ پیسے کم نہیں ہیں۔‘‘
’’پہلے ہی بجلی، گیس سے پریشان ہیں ہم۔ مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے۔‘‘
دو نوکری سے لوٹنے والی خواتین کی عام سی گفتگو، لیکن بڑی گہری اور شاید کسی حد تک سچی بھی، ہم ایک طویل عرصے سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی مالی حالت کمزور ہے لیکن اس کمزوری کے راستوں سے ہم گزرتے ہی رہے ہیں اور ہر بار ایک نیا راستہ دکھ ، اذیت اور آنسوؤں کے پتھروں سے اٹا نظر آتا ہے۔ آج سے کچھ دن پہلے سوات میں بچوں، بڑوں اور جوانوں کی ایک ساتھ موت دیکھ کر پاکستان میں خوف و غم کی لہر اٹھی تھی۔ سب ہی چیخ اٹھے تھے، کنارے کے اس پارکھڑے ویڈیوز بناتے لوگوں پر بھی خوب تنقید ہوئی، ایک کے بعد ایک بیان تکلیف دہ اور قہرکا ساتھ۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کبھی یہ اذیت کم ہو سکے گی؟
ہم بڑے بڑے عہد کرنے والوں کو دیکھ چکے ہیں، ایک کے بعد ایک ناموں کی تختیاں بدلتی جاتی ہیں لیکن سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرے کندھے تک ذمے داریوں اور الجھنوں کے پوٹ کو دھکیلتے دھکیلتے ہم اس پوٹ کو چٹکی سے پکڑکر دریا برد ہی تو کر دیتے ہیں کہ ہم اسی قابل ہیں۔ برف جیسے جذبات رکھنے والے۔
ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، جوش بھی ہے، عقل بھی ہے لیکن عہدہ ملتے ہی سب دھندلا پڑ جاتا ہے۔ ابھی چند برسوں پہلے کی بات ہے، بارش نے جو شور بپا کیا تھا، نالوں میں طغیانی اور سڑکیں دریا بن گئی تھیں۔ تب بھی محلوں سے گزرنے والے نالوں نے بھی کئی جانوں کو نگلا تھا۔ ایک عرصے تک سفید اور پیلی حفاظتی پٹیوں نے ایک حفاظتی جنگلوں کے ساتھ کچھ سڑکوں کا محاصرہ کر رکھا تھا اور پھر سب کچھ بیٹھتا گیا۔گرد بیٹھ گئی اور وقت گزرگیا۔ نالوں میں کچرا بھرتا گیا، ان کو بھرنے کا کام اگر عوام اور سرکاری اداروں کے عہدیداران کرتے ہیں تو ان کی طرف سے غفلت برتنے کا کام بھی عوام اور سرکاری ادارے ہی کرتے ہیں یہاں تک کہ نشئی اور مخصوص مافیا والے ناموں اور اس کے ارد گرد کی حفاظتی منڈیروں سے لوہا، سریا تک کھینچ لیتے ہیں اور کون ہے ان نشے میں ڈوبے لوگوں کو روکنے والا۔ اگر انڈیا ہمارا دشمن ہے تو یہ نشئی اور خاص مافیا کیا ہمارے دوست ہیں؟
بات پھر کسی اور جانب چل نکلی ہے۔ غفلت برتنے میں ہم سب آگے آگے رہتے ہیں کہ یہ میرا شہر ہی نہیں ہے، میں تو یہاں کھانے کمانے آیا ہوں، مجھے اس سے کیا، میرا شہر تو دورکہیں ہے۔ وہ دور سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہوتا ہے، بس کہانی چلتی رہتی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں بھی سنا تھا کہ خزانہ بھر کر فنڈز ملے تھے پھر سب کہاں گئے؟ اب اس سال بھی سنا تو ہے کہ پیسہ بہت ہے، ملک بھر کا حال یہی ہے۔ ایک سیاح خاندان سیر و تفریح کے لیے نکلتا ہے، اپنا پیسہ خرچ کرتا ہے لیکن جب دریا کے بیچ پھنس جاتا ہے تو بس دہائیاں دیتا ہی رہ جاتا ہے۔ ریسکیو والا آیا بھی تو غریب کے پاس ایک رسی بھی نہ تھی بچانے کے واسطے۔ خود ملاحظہ کر لیں، پچھلے دنوں کی ویڈیو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پندرہ منٹ نہیں تو ایک آدھ گھنٹے میں ہی ریسکیو کے لیے ہیلی کاپٹر آنا تھا، ایک دو نہیں اٹھارہ انیس انسانوں کی جان کا معاملہ تھا۔ پر جناب! کہاں، ہم ایک دوسرے کو اپنی غربت کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ کیا متعلقہ ڈسٹرکٹ میں واقعی فوری طور پر ایسا کچھ بھی نہ تھا، یا صوبے میں؟ کیا واقعی عوام کی جان فوری طور پر بچانے کے لیے ہمارے خالی خزانے منہ چڑا رہے ہیں؟
ابھی چند دنوں پہلے ہی کی خبر ہے، جب خیبرپختونخوا میں گزشتہ اور حالیہ سال کے دوران اربوں روپے کی بے ضابطگیوں اور کرپشن کا سنگین انکشاف سامنے آیا ہے۔ 147 ارب اٹھارہ کروڑ روپوں کی بے ضابطگی۔ خدا کا خوف۔۔۔۔صرف یہی نہیں، دوسرے چھوٹے صوبے کے متعلق بھی ایسی ہی کرپشن کی رپورٹ نظر سے گزری۔ ٹن بلین ٹری سونامی پروگرام بلوچستان کے حوالے سے 16 ارب 80 کروڑ روپوں کی بے قاعدگیاں۔ ہمارے چھوٹے صوبے کرپشن کے حوالوں سے کچھ پیچھے نہیں، اب بڑوں کو کیا کہیں۔ کسی نے کہا جناب! چھوٹوں کی بات نہ کریں، یہاں فنڈز تو بہت ہوتے ہیں پر کام زیرو فی صد بھی نہیں ہوتے۔ یہ ساری خبریں، سارے دعوے بے بنیاد، سب رپورٹیں جھوٹی ہیں اور حقیقت جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ اب بس بھی کرو، فرعونیت کا یہ گندا کھیل۔
بات بہت مختصر اور مکمل ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو اتنی عزت اور اہمیت دی ہی نہیں کہ جس کا وہ حق دار ہے۔ شروع سے لے کر آج تک ہم عوام کے خزانے کو فرد واحد کا خزانہ سمجھ کر صرف اپنا بینک بیلنس بڑھاتے رہے۔ جب عوام ہر روز اونچے نیچے گڑھوں سے بھرپور سڑک پر جھولتے رکشاؤں میں سفر کرتی ہے تو خاص کر بزرگ خواتین کے اذیت بھرے چہرے دیکھنے کے ہوتے ہیں۔ بہت سے کراہ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ عام سی باتیں ہیں جو روزمرہ میں شامل ہیں۔ سڑکوں پر ٹارگٹ پورا کرتے چوکس لوگ، جب اونچے عہدے ملتے ہیں تو زمین پر چلتے پھرتے لوگ نظر آنا ہی بند ہو جاتے ہیں۔
چھوٹے صوبے تو چھوٹے ہیں پر کارنامے بڑے بڑے۔ کوہستان کے حوالے سے بھی خبریں ابھر رہی ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے مختص فنڈ کی کہانی۔ اب تحقیقات کرائیں نہ کرائیں، حکم دیں نہ دیں، جو جانیں گزرگئیں وہ واپس نہیں آ سکتیں، لیکن بدعنوانی اور بددیانتی کے باعث جو کچھ بڑے سے لے کر چھوٹے صوبے، ضلعوں اور محلوں میں ہو رہا ہے کیا اس کے رک جانے یا لگام کی بھی کوئی سچائی ہے؟ کوئی خبر ہے۔ کہیں کوئی قریب والا رہائشی یا دور دیار رہنے والا اپنے فرائض کو اپنا ملک اپنی عزت سمجھ کر انجام دے رہا ہے؟
ہم مسلمان ہیں، ابھی حال ہی میں انڈیا کو دھول چٹائی ہے۔ جیوے جیوے۔۔۔۔ اور یہ ہی کافی ہے۔ حال ہی میں جاپان کے بارے میں ایک رپورٹ دیکھنے کو ملی وہ غیر مسلم ہیں لیکن ان کی جین میں صفائی کا عنصر نمایاں ہے، وہ ذمے دار ہیں، اپنے گھر، اسکول،کالجز، دفاتر یہاں تک کہ سڑکیں، گزرگاہیں اور اسٹیڈیم، پارکوں کو بھی اپنا سمجھتے ہیں، اور اس کی صفائی ستھرائی میں عار محسوس نہیں کرتے۔ وہ ان کا اپنا ملک جاپان ہے، جسے دھول بنانے کے واسطے ایٹم بم برسائے گئے تھے، لیکن اس قوم کے عزم کی داد دینا پڑتی ہے وہ مٹی ہو کر بھی پھر ابھرے اور سونا بن کر چھا رہے ہیں۔
ہم نشئیوں کو پال رہے ہیں، جو ادھر اُدھر سڑکوں کے کنارے پلوں کے نیچے، نالوں میں اور ایوانوں میں ہمارے ملک کے سریے لوہے نکال کر ردی کے مول بیچ رہے ہیں۔ ہم کب اپنے آپ کو پہچانیں گے، اب جاگ بھی جائیں بہت ہوگیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چھوٹے صوبے ہیں اور ہی نہیں رہے ہیں ہیں کہ کے بعد
پڑھیں:
چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 ستمبر2025ء)سابق امریکی صدر باراک اوباما نے ٹرننگ پوائنٹ کے بانی چارلی کرک کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے اگرچہ مقتول کے سیاسی نظریات سے ان کا گہرا اختلاف تھا، مگر امریکی عوام کو ان آرا پر کھل کر تنقید کا حق حاصل ہے۔ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر کرک کو نہیں جانتے تھے، تاہم ان کے نقطہ نظر سے واقف تھے۔ اوباما نے مزید کہا: میرا خیال ہے کہ وہ نظریات غلط تھے، لیکن جو واقعہ پیش آیا وہ ایک افسوس ناک المیہ ہے، میں ان کے خاندان سے تعزیت کرتا ہوں۔اوباما نے کرک کے ان خیالات کو بھی مسترد کیا جن میں انہوں نے 1964 کے سول رائٹس ایکٹ کو غلط قرار دیتے ہوئے خواتین اور اقلیتوں کی صلاحیتوں پر شکوک کا اظہار کیا تھا، یا مارٹن لوتھر کنگ جیسے تاریخی رہنماں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔(جاری ہے)
سابق امریکی صدر اوباما نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ قتل کے واقعے کو ملک میں تقسیم بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اس المیے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے کرک کے خیالات پر بحث کو دبانی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اوباما نے مزید کہا: جب امریکی حکومت کا وزن انتہا پسند آرا کا پشتی بان بن جائے تو یہ ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔سابق امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ موجودہ وائٹ ہاس سے جاری اشتعال انگیز بیانیہ امریکی سیاست میں ایک انتہائی خطرناک موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ سیاسی مخالفین کو دشمن قرار دے کر نشانہ بنانا جمہوری اقدار کے لیے نقصان دہ ہے۔ اوباما نے زور دیا کہ اختلافِ رائے اور تشدد پر اکسانے کے درمیان واضح فرق قائم رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔