Express News:
2025-07-06@03:39:15 GMT

میرا ملک میری عزت

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

’’ اس آدھے گھنٹے کی بارش نے تو دل ہی دہلا کر رکھ دیا تھا۔ خوف آ رہا تھا، حالاں کہ یہ تو اوپر والے کی رحمت ہے، لیکن کیا کریں کہ ہمارے شہر  میں زیادہ دیر بارش ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔‘‘

’’ یہاں کسی کوکیا پڑی ہے، سب کراچی کو لوٹ کر کھا رہے ہیں۔‘‘

’’بلکہ پورے ملک کو کھایا جا رہا ہے۔ ارے ہم کو ہی چن لیتے، کم ازکم ہم پورے شہر کے حالات سے تو واقف ہیں (قہقہہ) میں تو سڑکیں پہلے بنواتی، ارے بہت فنڈز ہیں۔ پیسے کم نہیں ہیں۔‘‘

’’پہلے ہی بجلی، گیس سے پریشان ہیں ہم۔ مہنگائی نے کمر توڑ رکھی ہے۔‘‘

دو نوکری سے لوٹنے والی خواتین کی عام سی گفتگو، لیکن بڑی گہری اور شاید کسی حد تک سچی بھی، ہم ایک طویل عرصے سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی مالی حالت کمزور ہے لیکن اس کمزوری کے راستوں سے ہم گزرتے ہی رہے ہیں اور ہر بار ایک نیا راستہ دکھ ، اذیت اور آنسوؤں کے پتھروں سے اٹا نظر آتا ہے۔ آج سے کچھ دن پہلے سوات میں بچوں، بڑوں اور جوانوں کی ایک ساتھ موت دیکھ کر پاکستان میں خوف و غم کی لہر اٹھی تھی۔ سب ہی چیخ اٹھے تھے، کنارے کے اس پارکھڑے ویڈیوز بناتے لوگوں پر بھی خوب تنقید ہوئی، ایک کے بعد ایک بیان تکلیف دہ اور قہرکا ساتھ۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کبھی یہ اذیت کم ہو سکے گی؟

ہم بڑے بڑے عہد کرنے والوں کو دیکھ چکے ہیں، ایک کے بعد ایک ناموں کی تختیاں بدلتی جاتی ہیں لیکن سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرے کندھے تک ذمے داریوں اور الجھنوں کے پوٹ کو دھکیلتے دھکیلتے ہم اس پوٹ کو چٹکی سے پکڑکر دریا برد ہی تو کر دیتے ہیں کہ ہم اسی قابل ہیں۔ برف جیسے جذبات رکھنے والے۔

ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، جوش بھی ہے، عقل بھی ہے لیکن عہدہ ملتے ہی سب دھندلا پڑ جاتا ہے۔ ابھی چند برسوں پہلے کی بات ہے، بارش نے جو شور بپا کیا تھا، نالوں میں طغیانی اور سڑکیں دریا بن گئی تھیں۔ تب بھی محلوں سے گزرنے والے نالوں نے بھی کئی جانوں کو نگلا تھا۔ ایک عرصے تک سفید اور پیلی حفاظتی پٹیوں نے ایک حفاظتی جنگلوں کے ساتھ کچھ سڑکوں کا محاصرہ کر رکھا تھا اور پھر سب کچھ بیٹھتا گیا۔گرد بیٹھ گئی اور وقت گزرگیا۔ نالوں میں کچرا بھرتا گیا، ان کو بھرنے کا کام اگر عوام اور سرکاری اداروں کے عہدیداران کرتے ہیں تو ان کی طرف سے غفلت برتنے کا کام بھی عوام اور سرکاری ادارے ہی کرتے ہیں یہاں تک کہ نشئی اور مخصوص مافیا والے ناموں اور اس کے ارد گرد کی حفاظتی منڈیروں سے لوہا، سریا تک کھینچ لیتے ہیں اور کون ہے ان نشے میں ڈوبے لوگوں کو روکنے والا۔ اگر انڈیا ہمارا دشمن ہے تو یہ نشئی اور خاص مافیا کیا ہمارے دوست ہیں؟

بات پھر کسی اور جانب  چل نکلی ہے۔ غفلت برتنے میں ہم سب آگے آگے رہتے ہیں کہ یہ میرا شہر ہی نہیں ہے، میں تو یہاں کھانے کمانے آیا ہوں، مجھے اس سے کیا، میرا شہر تو دورکہیں ہے۔ وہ دور سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہوتا ہے، بس کہانی چلتی رہتی ہے۔

پچھلے چند برسوں میں بھی سنا تھا کہ خزانہ بھر کر فنڈز ملے تھے پھر سب کہاں گئے؟ اب اس سال بھی سنا تو ہے کہ پیسہ بہت ہے، ملک بھر کا حال یہی ہے۔ ایک سیاح خاندان سیر و تفریح کے لیے نکلتا ہے، اپنا پیسہ خرچ کرتا ہے لیکن جب دریا کے بیچ پھنس جاتا ہے تو بس دہائیاں دیتا ہی رہ جاتا ہے۔ ریسکیو والا آیا بھی تو غریب کے پاس ایک رسی بھی نہ تھی بچانے کے واسطے۔ خود ملاحظہ کر لیں، پچھلے دنوں کی ویڈیو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پندرہ منٹ نہیں تو ایک آدھ گھنٹے میں ہی ریسکیو کے لیے ہیلی کاپٹر آنا تھا، ایک دو نہیں اٹھارہ انیس انسانوں کی جان کا معاملہ تھا۔ پر جناب! کہاں، ہم ایک دوسرے کو اپنی غربت کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ کیا متعلقہ ڈسٹرکٹ میں واقعی فوری طور پر ایسا کچھ بھی نہ تھا، یا صوبے میں؟ کیا واقعی عوام کی جان فوری طور پر بچانے کے لیے ہمارے خالی خزانے منہ چڑا رہے ہیں؟

ابھی چند دنوں پہلے ہی کی خبر ہے، جب خیبرپختونخوا میں گزشتہ اور حالیہ سال کے دوران اربوں روپے کی بے ضابطگیوں اور کرپشن کا سنگین انکشاف سامنے آیا ہے۔ 147 ارب اٹھارہ کروڑ روپوں کی بے ضابطگی۔ خدا کا خوف۔۔۔۔صرف یہی نہیں، دوسرے چھوٹے صوبے کے متعلق بھی ایسی ہی کرپشن کی رپورٹ نظر سے گزری۔ ٹن بلین ٹری سونامی پروگرام بلوچستان کے حوالے سے 16 ارب 80 کروڑ روپوں کی بے قاعدگیاں۔ ہمارے چھوٹے صوبے کرپشن کے حوالوں سے کچھ پیچھے نہیں، اب بڑوں کو کیا کہیں۔ کسی نے کہا جناب! چھوٹوں کی بات نہ کریں، یہاں فنڈز تو بہت ہوتے ہیں پر کام زیرو فی صد بھی نہیں ہوتے۔ یہ ساری خبریں، سارے دعوے بے بنیاد، سب رپورٹیں جھوٹی ہیں اور حقیقت جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ اب بس بھی کرو، فرعونیت کا یہ گندا کھیل۔

بات بہت مختصر اور مکمل ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو اتنی عزت اور اہمیت دی ہی نہیں کہ جس کا وہ حق دار ہے۔ شروع سے لے کر آج تک ہم عوام کے خزانے کو فرد واحد کا خزانہ سمجھ کر صرف اپنا بینک بیلنس بڑھاتے رہے۔ جب عوام ہر روز اونچے نیچے گڑھوں سے بھرپور سڑک پر جھولتے رکشاؤں میں سفر کرتی ہے تو خاص کر بزرگ خواتین کے اذیت بھرے چہرے دیکھنے کے ہوتے ہیں۔ بہت سے کراہ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ عام سی باتیں ہیں جو روزمرہ میں شامل ہیں۔ سڑکوں پر ٹارگٹ پورا کرتے چوکس لوگ، جب اونچے عہدے ملتے ہیں تو زمین پر چلتے پھرتے لوگ نظر آنا ہی بند ہو جاتے ہیں۔

چھوٹے صوبے تو چھوٹے ہیں پر کارنامے بڑے بڑے۔ کوہستان کے حوالے سے بھی خبریں ابھر رہی ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے مختص فنڈ کی کہانی۔ اب تحقیقات کرائیں نہ کرائیں، حکم دیں نہ دیں، جو جانیں گزرگئیں وہ واپس نہیں آ سکتیں، لیکن بدعنوانی اور بددیانتی کے باعث جو کچھ بڑے سے لے کر چھوٹے صوبے، ضلعوں اور محلوں میں ہو رہا ہے کیا اس کے رک جانے یا لگام کی بھی کوئی سچائی ہے؟ کوئی خبر ہے۔ کہیں کوئی قریب والا رہائشی یا دور دیار رہنے والا اپنے فرائض کو اپنا ملک اپنی عزت سمجھ کر انجام دے رہا ہے؟

ہم مسلمان ہیں، ابھی حال ہی میں انڈیا کو دھول چٹائی ہے۔ جیوے جیوے۔۔۔۔ اور یہ ہی کافی ہے۔ حال ہی میں جاپان کے بارے میں ایک رپورٹ دیکھنے کو ملی وہ غیر مسلم ہیں لیکن ان کی جین میں صفائی کا عنصر نمایاں ہے، وہ ذمے دار ہیں، اپنے گھر، اسکول،کالجز، دفاتر یہاں تک کہ سڑکیں، گزرگاہیں اور اسٹیڈیم، پارکوں کو بھی اپنا سمجھتے ہیں، اور اس کی صفائی ستھرائی میں عار محسوس نہیں کرتے۔ وہ ان کا اپنا ملک جاپان ہے، جسے دھول بنانے کے واسطے ایٹم بم برسائے گئے تھے، لیکن اس قوم کے عزم کی داد دینا پڑتی ہے وہ مٹی ہو کر بھی پھر ابھرے اور سونا بن کر چھا رہے ہیں۔

ہم نشئیوں کو پال رہے ہیں، جو ادھر اُدھر سڑکوں کے کنارے پلوں کے نیچے، نالوں میں اور ایوانوں میں ہمارے ملک کے سریے لوہے نکال کر ردی کے مول بیچ رہے ہیں۔ ہم کب اپنے آپ کو پہچانیں گے، اب جاگ بھی جائیں بہت ہوگیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چھوٹے صوبے ہیں اور ہی نہیں رہے ہیں ہیں کہ کے بعد

پڑھیں:

شوہر نے دوسری شادی کی لیکن پھر لوٹ آئے؛ سینیئر اداکارہ نے ’صبر آزما‘ داستان سنادی

سینیئر اداکارہ سلمیٰ ظفر نے اپنی ازدواجی زندگی کے حوالے سے ایک سبق آموز اور حیران کن انکشاف کیا ہے۔

ڈراما سیریلز نمک حرام، مشک، قرضِ جان اور زیبائش میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی سینیئر اداکارہ سلمیٰ ظفر نے نجی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں اپنی زندگی کے ان گوشوں سے پردہ اُٹھایا جو اب تک سامنے نہیں آئے تھے۔

سلمیٰ ظفر نے بتایا کہ محبت میں دھوکا ملا لیکن پھر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ جب کسی کی طرف سے وہی محبت نہ ملے جو آپ دے رہے ہوں، تو دل ٹوٹتا ہے، لیکن میں نے ہار نہیں مانی۔ میں منتظر کھڑی رہی کہ وہ شخص لوٹ آئے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ شادی کے 18 سال بعد میرے شوہر نے دوسری شادی کرلی۔ تب میں نے یہی سوچا کہ جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کی ہر خوبی اور خامی کے ساتھ محبت کرتے ہیں حتیٰ کہ اس کے ناپسندیدہ فیصلوں کے ساتھ بھی۔

اداکارہ سلمیٰ ظفر نے کہا کہ محبت میں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، بس پھر میں نے اپنے شوہر کا انتظار کیا اور وہ بعد میں اُس خاتون کو طلاق دیکر واپس میرے پاس لوٹ آئے۔

سلمیٰ ظفر نے کہا کہ میں نے کبھی اُن دوسری خاتون کے لیے بددعا نہیں کی، نہ ہی برا بھلا اور کہا اور نہ ہی ان خاتون کے طلاق ہونے سے میرا کوئی تعلق ہے۔ میں نے بس صبر کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • شہبازشریف بیوروکریٹک حکومت چلاتے ہیں لیکن کل ناکام ہوئے تو ناکام سیاستدان ہوں گے: سہیل وڑائچ
  • پاکستان اور معاہدہ ابراہیمی
  • تنہائی کا کرب
  • شوہر نے دوسری شادی کی لیکن پھر لوٹ آئے؛ سینیئر اداکارہ نے ’صبر آزما‘ داستان سنادی
  • گورنر خیبرپختونخوا کی میری حکومت گرانے کی حیثیت نہیں، علی امین گنڈاپور
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ: 9 مئی کے کیس میں سزا یافتہ چاروں افراد بری
  • گورنر خیبر پختونخوا کی میری حکومت گرانے کی حیثیت نہیں، علی امین گنڈاپور
  • گورنر خیبرپختونخوا کی میری حکومت گرانے کی حیثیت نہیں: علی امین گنڈاپور
  • ’کیک پر لکھ دینا چھیپا صاحب کی طرف سے تحفہ ہے لیکن یہ مت بتانا میں نے دیا ہے‘