ایران: ایک ماہ میں دو لاکھ تیس ہزار افغان مہاجرین کی واپسی
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2025ء) تہران کی جانب سے افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے مقرر کردہ مہلت ختم ہونے سے قبل ایران سے افغان شہریوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے مطابق صرف جون کے مہینے میں دو لاکھ 33 ہزار 941 افغان پناہ گزین ایران سے افغانستان واپس گئے، جن میں اکثریت کو جبری طور پر نکالا گیا۔
آئی او ایم کے ترجمان آواند عزیز آغا نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یکم سے 28 جون کے دوران واپس جانے والوں میں سے صرف 21 فیصد افراد رضاکارانہ طور پر واپس لوٹے، باقی تمام کو زبردستی واپس بھیجا گیا۔ 21 سے 28 جون کے درمیان ایک ہی ہفتے میں ایک لاکھ 31 ہزار 912 افراد کی واپسی ریکارڈ کی گئی۔
(جاری ہے)
اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران بعض دنوں میں روزانہ 30 ہزار افراد ایران سے افغانستان واپس بھیجے گئے۔
ایران نے غیر دستاویزی افغان شہریوں کو چھ جولائی تک ملک چھوڑنے کی مہلت دی ہے، جس کے پیش نظر حالیہ ہفتوں میں افغانستان واپس جانے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 'باوقار واپسی‘اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ واپسیوں میں انفرادی کے بجائے خاندانی واپسیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم افغانستان واپس جانے والوں کے پاس نہ تو اثاثے ہیں اور نہ ہی روزگار کے مواقع کیونکہ ملک شدید غربت اور بے روزگاری کا شکار ہے۔
طالبان انتظامیہ نے ہمسایہ ممالک سے ''باوقار واپسی‘‘ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایران کے سفیر سے ملاقات میں افغان مہاجرین کی مرحلہ وار اور مربوط واپسی کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان سے بھی گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے اور اب ایران سے بھی اس انخلا نے کابل انتظامیہ کے لیے مزید مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔
اقوام متحدہ اور امدادی تنظیمیں بھی شدید مالی قلت کا شکار ہیں۔ ایران سے افغان مہاجرین کی ملک بدریوں میں اضافہ کیوں؟واپس آنے والے افغان شہریوں نے ایران میں سخت گیر پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی جبری ملک بدریوں کی شکایت کی ہے۔ اے ایف پی سے بات کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ایران اور اسرائیل کے حالیہ تنازع کو واپسی کی وجہ قرار نہیں دیا، تاہم اقوام متحدہ کے افغانستان مشن (UNAMA) نے کہا ہے کہ علاقائی عدم استحکام اور ایران کی بدلتی ہوئی پالیسیوں نے افغانوں کی واپسی کے رجحان کو تیز کر دیا ہے، جس سے افغانستان کا انسانی و ترقیاتی ڈھانچہ دباؤ کا شکار ہے۔
ایران میں پیدا ہونے اور پہلی بار اپنے آبائی ملک افغانستان لوٹنے والے 28 سالہ سمیع اللہ احمدی، کابل پہنچنے کے بعد کے حالات سے بے خبر ہیں، تاہم واپسی کے فیصلے پر وہ پُرعزم نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا، ''میں وہیں (ایران) پیدا ہوا۔ لیکن افغانوں کے لیے حالات ایسے ہیں کہ چاہے آپ کتنے بھی اچھے ہوں یا آپ کے پاس درست دستاویزات ہوں، آپ کے ساتھ عزت کا سلوک نہیں کیا جاتا۔‘‘
شکور رحیم، اے ایف پی کے ساتھ
ادارت: عاطف توقیر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغان مہاجرین کی افغانستان واپس ایران سے افغان اقوام متحدہ کی واپسی واپسی کے کے لیے
پڑھیں:
پانچ میں سے ایک افغان بھوک کا شکار ہے، اقوام متحدہ کا انتباہ
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جون2025ء)ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی)نے متنبہ کیا ہے کہ ہر پانچ میں سے ایک افغان بھوک کا شکار ہے، ڈبلیو ایف پی نے افغانستان میں خوراک کی عدم تحفظ کی خرابی کو روکنے کے لیے فوری امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے افغانستان میں خوراک کی عدم تحفظ کے بگڑتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے خاص طور پر سرحدی علاقوں میں انسانی امداد کی فوری ضرورت پر زور دیا۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ روزانہ ہزاروں افغان خاندان ایران سے افغانستان واپس جانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ جبری واپسی افغان-ایرانی سرحد کے ساتھ کام کرنے والی مقامی کمیونٹیز اور انسانی ہمدردی کے اداروں پر بہت زیادہ دبا ڈال رہی ہے۔(جاری ہے)
فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ پروگرام سرحدی گزرگاہوں پر ہنگامی امداد فراہم کر رہا ہے لیکن پروگرام نے متنبہ کیا کہ مسلسل مدد اضافی فنڈنگ حاصل کرنے پر منحصر ہے۔فی الحال پروگرام کو افغانستان میں امدادی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کم از کم 25 ملین ڈالر کی فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اگست 2021 میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے افغانستان مشکل معاشی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق 24.4 ملین لوگ، جو افغانستان کی تقریبا 60 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں، بنیادی ضروریات کے لیے انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔