پاک افغان تعلقات جنگ سے ٹھیک ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ پاک افغان تعلقات کی بہتری فوری طور پر نا ممکن ہا تا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں ہونے والے ممذاکرات ترکی میں نا کامی سے دوچار ہو چکے ہیں ۔ٹی ٹی پی اس پورے معاملے کا مرکزی مسئلہ ہے، اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔
اس ان مذکرات میں ایک نئی بات یہ بھی ہے پاکستان پر ٹی ٹی پی کے نئے حملے شروع ہو گئے اور شاید بھارت کے کہنے پر وانا اور اسلام آباد پر بھی حملے کیے گئے ہیں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اپنے افغان ہم منصب ملا محمد یعقوب سے 19 اکتوبر 2025 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے اختتام پر مصافحہ کر رہے ہیں 30 اکتوبر کو ایک امید کی کرن اس وقت نمودار ہوئی جب افغانستان اور پاکستان نے استنبول میں ایک تین نکاتی اعلامیے پر اتفاق کیا، جس کے تحت دونوں ممالک چھ نومبر کو دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ کئی ہفتوں کی غیر معمولی کشیدگی کے بعد طے پائے گئے معاہدے کے نفاذ کے طریقہ کار پر غور کیا جا سکے۔
اس پوری صورتحا کے بعد فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ امن کے قیام کو یقینی بنانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے ایک نگرانی اور جائزہ لینے کا نظام قائم کیا جائے گا۔ تاہم یہ مذاکرات بھی بےنتیجہ ختم ہو گئے، جس کے بعد حالات ایک بار پھر بےیقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔
اس سے پہلے پاکستان نے کابل اور افغانستان کے دیگر حصوں میں فضائی حملے کیے جن میں تحریکِ طالبانِ پاکستان اور حافظ گل بہادر گروپ کے رہنماو ¿ں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جو پاکستان میں سرحد پار دہشت گردی میں ملوث رہی ہیں۔جب طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف عدم کارروائی اور افغان سرزمین پر ان کی موجودگی کو تسلیم نہ کرنے پر پاکستان کی صبر کا پیالہ لبریز ہو گیا تو پاکستان نے کابل میں ضرب لگانے کا بےمثال اقدام اٹھایا۔
طالبان حکومت کے خلاف پاکستانی جارحانہ موقف اور یہ دھمکیاں کہ اگر ٹی ٹی پی کا مسئلہ اطمینان بخش طور پر حل نہ ہوا تو کھلی جنگ کا اعلان بھی کیا جائے گا، پالیسی ساز حلقوں میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہیں۔افغانستان کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان حکومت کو یہ واضح اشارہ بھیج دیا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حفاظت اور حمایت کرے گی تو اسے قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ پاکستان اب مزید حملے برداشت نہیں کرے گا، بلکہ جلد اور مناسب انداز میں جواب دے گا۔ان تمام حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ امکان کم ہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان اپنے تعلقات کو کابل پر فضائی حملے سے پہلے والی سطح پر واپس لا سکیں، خواہ دونوں ممالک 30 اکتوبر کے سمجھوتے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر اتفاق بھی کر لیں۔
سرحدی کشیدگی کے دوران، افغانستان پاکستان سرحد کے تمام گزرگاہیں بند رہتی ہیں، جس سے تجارت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نتیجہ خواہ مثبت ہو یا منفی، اگر طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات نہ کیے تو کشیدگی برقرار رہنے کا امکان ہے۔پاکستان طالبان حکومت کے لیے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی اور حمایت کی قیمت بڑھاتا رہے گا۔
تسلسل سے جاری حالیہ کشیدگی کے دوران افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو صورت حال سامنے آئی ہے، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کے حوالے سے کشیدگی اور مذاکرات کابل، اسلام آباد اور بیجنگ میں ہو چکے ہیں۔ تاہم، ان سب کے باوجود طالبان کے ٹی ٹی پی سے متعلق سٹریٹجک مو ¿قف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اکتوبر میں دیکھی گئی کشیدگی اور دوحہ و استنبول میں ہونے والی بات چیت کے درمیان واحد فرق یہ ہے کہ اگر پہلے حالات سلگ رہے تھے تو اب وہ بھڑک اٹھے ہیں۔
اس لیے ترک اور قطری سفارت کاری حالات کا درجہ حرارت تو کم کر سکتی ہے، لیکن وقت کو کابل پر فضائی حملے سے پہلے والی صورت حال تک واپس نہیں لے جا سکتی۔اب ایک مرتبہ بھر ترکیہ کی حکومت مذاکرات کو جاری رکھنے کی تیاری کر رہی ہءاس کی وجہ یہ ہے کہ پاک افغان مذاکرات کی ناکامی سے چین کے مفادات کو خطرہ ہے اور اس خطرے کو کم کر نے کی ضرورت ہے
یہ کارروائی طالبان حکومت کو یہ واضح پیغام دینے کے لیے کی گئی ہے کہ اگر اس نے ٹی ٹی پی کے خلاف قدم نہ اٹھایا تو پاکستان خود کارروائی کرے گا، چاہے وہ افغانستان پاکستان سرحدی علاقوں میں ہوں یا افغانستان کے اندر گہرائی میں۔اسی کے ساتھ پاکستان نے طالبان حکومت کو دوٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گا۔ پاکستان طالبان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ 2020 کے دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
مزید یہ کہ پاکستان کے نزدیک افغانستان پاکستان سرحد ایک طے شدہ معاملہ ہے اور طالبان قیادت کی کوئی بھی بیانیہ بازی پاکستانی ریاست پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ افغان شہری ایران یا وسطی ایشیائی ممالک میں بغیر ویزا داخلے کا مطالبہ نہیں کرتے، لیکن پاکستان کے معاملے میں ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے۔پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، اور کوئی بھی غیر ملکی ویزا حاصل کیے بغیر اس کی سرزمین میں داخل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ طالبان کو تحریکِ طالبان پاکستان کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں کئی طرح کی عملی اور نظریاتی مشکلات کا سامنا ہے۔ طالبان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف سخت عسکری کارروائی کی گئی تو اس کے ناراض عناصر داعش خراسان میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان طالبان کے نظریاتی حساسیتوں اور اس خطرے کو بھی سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بڑے کریک ڈاو ¿ن سے تحریک کے اندرونی دھڑوں میں اختلافات اور کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
اس پوری صورتحا میں یہ بات ہم، ٹی ٹی پی کی موجودگی سے مکمل انکار نے پاکستان کے صبر کو آزما دیا ہے۔ اگر طالبان حکومت اخلاص کے ساتھ پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھے اور ان کی قدر کرے تو اسلام آباد کابل کے ساتھ تعاون کرنے اور ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔مخلصانہ اور دیانت دارانہ مکالمے کی صورت میں سفارتی، سیاسی اور عسکری اقدامات کا ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی برقرار رہی تو امن کے یہ دشمن اور دہشت گرد نیٹ ورکس جیسے ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور القاعدہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ان کشیدگیوں سے پیدا ہونے والا انتشار کئی نئی دراڑیں کھول دے گا، جن کے ذریعے یہ گروہ بھرتی، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
چونکہ افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، اس لیے وہاں کے حالات کے اثرات اس کی سرحدوں سے کہیں آگے تک پہنچتے ہیں۔اسلام آباد اور کابل دونوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کریں اور ایک باہمی قابلِ قبول فریم ورک کے تحت ٹی ٹی پی کے مسئلے سے خلوصِ نیت کے ساتھ نمٹیں۔ٹی ٹی پی اس پورے معاملے کا مرکزی مسئلہ ہے، اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔دوسرے لفظوں میں، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی کا راستہ کابل کی اس آمادگی سے گزرتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کرے۔پاکستان اور افغان کے درمیاں بھارت ایک بڑی رکاوٹ ہے اور بھارت کو اس بات کا بھی علم ہے وہ پاکستان سے جنگ کر گا اس صورت امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک بھارت کا کھل کر ساتھ دینے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ دناہی پاک بھارت جنگ میں بھارت کو بڑا ملک تسلم کر نے کو تیار ہے افغانستان کو اس حقیقت کو تسلم کرنا چاہیے کہ بھارت نہیں پاکستان اس کا دوست ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: افغانستان اور پاکستان کے ٹی ٹی پی کے خلاف طالبان حکومت اسلام ا باد پاکستان نے ہے کہ اگر ہے کہ وہ کے ساتھ کے لیے کیا جا میں ہو نہیں ا
پڑھیں:
افغانستان کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے، خواجہ آصف
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف اور سی ڈی ایم کی مدت ملازمت 27 نومبر سے شروع ہوگی، ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد افغانستان کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے نوٹیفیکیشن کے بعد آرمی چیف اور سی ڈی ایف کی ٹرم ایک ساتھ شروع ہوں گی جو 27 نومبر2025 کو شروع ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی ایف کا عہدہ ہر جگہ ہے، کیا یہ عہدہ برطا نیہ اور امریکا میں نہیں ہے؟ ہمارے لیے دونوں چیفس قابل فخر ہیں ، انہو ں نے جنگ جیتی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ایک عہدے کو بہت پاور فل کر دیا گیا ہے، آئندہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالےسے ساری سمریاں وزارت دفاع کی طرف سے بھیجی جائیں گی۔
پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری
خواجہ آصف نے کہا کہ وزارت دفاع کا ایک سویلین انچارج ہے جو پارلیمنٹ اور وزیر اعظم کو جوابدہ ہے ۔ جو تاثر پھیلایا جا رہا ہے اس حوالے سے کوئی تحریری ثبوت دکھائے جائیں جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمانڈ کی تعیناتی جس طرح سے ہوتی ہے اسی طرح رہے گی ۔پاکستان اور افغانستان تعلقات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان رجیم کہتی ہے کہ ہماری سر زمین پاکستان کیخلاف کبھی استعمال نہیں ہوئی جبکہ افغانستان سے ہماری سر زمین پر حملے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم طالبان رجیم سے مذاکرات میں اسی ضمانت دینے کا ہی کہتے رہے ہیں، وہ ضمانت دے دیں کہ افغان سر زمین سے پاکستان میں کبھی دہشت گردی نہیں ہوئی اور نا آئندہ ہوگی تاکہ تحریری طور پر بات سامنے آ جائے ، تحریری گارنٹی میں دیگر دوست ممالک بھی بطور ضامن آجائیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبا ضمانت دیں کہ ہماری زمین کبھی بھی آپ کیخلاف استعمال نہیں ہو گی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کا مسلمان ایک قوت ،ایک جماعت اور ایک ہی امت ہے، مولانا فضل الرحمان کا ڈھاکہ میں خطاب
انہوں نے واضح کیا کہ اسلام آباد والا حملہ بھی افغانستان سے ہی ہوا ہے، حالیہ پچھلے دو حملوں میں 100 فیصد افغانی ملوث تھے، ایسی صورتحال میں کوئی سیٹلمنٹ ہوتے نہیں دیکھ رہا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان ہر لحاظ سے ایک دیوالیہ ملک ہے، نہ عدالتی اسٹرکچر ہے ، طالبان رجیم بتائے کہ افغان عوام کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ سوائے اس کے کہ ساری دنیا کے دہشت گرد افغانستان میں جمع ہو گئے ہیں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تجارت کے لیے افغان بارڈر بند ہونا چاہیے، تجارت بند کی ہے تو ہم کیوں تجارت کھولنے کی اجازت دیں ؟، وہ ہماری سر زمین پر حملے کر رہے ہیں ،تجارت بند ہونے سے اسمگلنگ بھی بند ہو جائے گی، اگر ڈالرز کی اسمگلنگ ہوتی ہے تو وہ بھی بند ہو جائے گی۔ ججز کے استعفوں سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ استعفے دینے والے ججز استعفی اس لیے دے رہے ہیں کہ وہ پینشن اور مراعات کے لیے اپنی اپنی مدت پوری کر رہے ہیں ۔ اگر کوئی اصولی بات ہے تو بتائیں اور گھر جائیں، یہ صرف اس انتظار میں بیٹھے کہ مراعات ساری عمر لیں۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آئندہ ہفتہ کیسا گزرے گا ؟
انہوں نے کہا کہ ججز کو گاڑیاں ، گارڈز پلاٹ ، پینشن کی سہولت میسر ہے، مجھے قطعی طور پر کوئی مراعات نہیں ملتیں ، مجھے بس مہینے کی تنخواہ ملتی ہے ، میرے پاس کوئی گاڑیاں ، گارڈز نہیں ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کے اختیارات میں کوئی تجاوز نہیں کیا، ہم نے کون سی چیز ایسی کی جس سے عدلیہ کے اختیارات ایگزیکٹو یا انتظامیہ کے پاس منتقل ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ججز کو لگانے اور ٹرانسفر کی بات درست نہیں ہے، ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوا جو پہلے تھا ویسے ہی ہے، ویسے ہی تعیناتی کریں گے۔ مجھے بتائیں کہ وہ کون سی ترمیم ہے جو وزیر اعظم کو اختیار دے کے جا کر ووٹ کریں۔
بانی پی ٹی آئی اتنے ننھے کاکا نہیں کہ گھر میں سب کچھ ہورہا ہو اور ان کا علم نہ ہو، عمران اسماعیل
مزید :