افغانستان اور دہشت گردی
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے اگلے روز ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران واضح کیاہے کہ پاکستان نے کبھی کابل میں کسی بھی حکومت سے بات چیت سے انکار نہیں کیا، تاہم پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروہ چاہے وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہو یا کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے مذاکرات نہیں کرے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان پاکستان مخالف تنظیموں کو معاونت فراہم کر رہے ہیں جب کہ طالبان نے پاکستان میں پشتون نیشنلزم کو ہوا دینے کی کوشش بھی کی۔ پاکستان میں پشتونوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ ہے، لہٰذا پشتون شناخت کے نام پر پروپیگنڈا گمراہ کن ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے افغان طالبان رہنماؤں کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تجارت کیسے اور کس سے کرنی ہے، یہ ہر ملک کا انفرادی فیصلہ ہوتا ہے، افغانستان کے ساتھ تجارت یا ٹرانزٹ ٹریڈ تبھی ممکن ہے جب وہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا مکمل خاتمہ ہوگا، تجارت انسانی جانوں کے ضیاع سے زیادہ اہم نہیں، وانا اور اسلام آباد حملوں میں ملوث افغان دہشت گردوں پر کابل حکومت کو جواب دینا ہوگا۔
افغانستان کے اقتدار پر قابض افغان طالبان جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں، ان میں کسی نہ کسی حوالے سے افغانستان اور افغان باشندے شامل رہے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی افغانستان نے پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ اور جارحانہ اقدامات شروع کر دیئے تھے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کو تسلیم نہ کرنے سے لے کر ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنانے تک، افغانستان کا وطیرہ چلا آ رہا ہے۔
پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وہ علاقے جو افغانستان کے ساتھ ساتھ ہیں، وہاں افغان حکومت نے منفی پراپیگنڈے کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع کر دیا تھا۔
کبھی پشتونستان اسٹنٹ اور کبھی سرحد کے آرپار بسنے والے پشتونوں کو ایک بنا کر پیش کرنے کا پراپیگنڈہ بھی کیا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ پراپیگنڈے کسی بھی طرح پاکستان کی وحدت اور قومی یکجہتی کو توڑ نہیں سکے۔ سردار داؤد کے دور میں اس پراپیگنڈے میں بہت شدت آئی اور اس کے بعد بھی معاملات جوں کے توں ہی چلے آئے ہیں۔
افغانستان طویل خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ اصولی طور پر تو افغانستان کی حکومتوں کو اپنے ملک کی عوام کی فلاح وبہبود اور تعمیر وترقی کے بارے میں منصوبہ بندی کر کے اس پر عملدرآمد کرانا چاہیے۔
لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی افغان حکومت نے افغانستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام نہیں کیا بلکہ اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں اور کرپشن کو چھپانے کے لیے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا اور افغان عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ افغانستان کی غربت اور بدحالی کا ذمے دار پاکستان ہے۔
اسی دوران پاکستان سے ہٹ کر خصوصی طور پر پنجاب کو نشانہ بنانے کے امر کا آغاز ہوا۔ افغانستان اڑھائی لاکھ مربع کلومیٹر کا خاصا بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں کئی نسلی گروہ اور ثقافتی گروہ آباد ہیں۔
ہر کی اپنی اپنی زبان اور رسم ورواج ہے۔ اس لیے افغانستان کسی ایک قبیلے، قوم یا برادری کا ملک نہیں ہے۔ اس میں چند بڑے لسانی اور ثقافتی گروہوں کے علاوہ بیسیوں چھوٹے چھوٹے قبیلے بھی صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہیں۔
افغانستان میں سماجی ارتقاء کی رفتار بھی بہت سست رہی ہے۔ عالمی طاقتوں کی مداخلتوں نے اس ملک میں ترقی کا راستہ روکے رکھا ہے۔ بدقسمتی سے اس علاقے کے ہر گروپ کے اپنے اپنے مفادات رہے ہیں اور ہر گروپ اپنے اپنے مفادات کے لیے مختلف طاقتوں کے زیرنگیں رہا یا ان کے لیے آلہ کار کے طور پر کام کرتا رہا۔
بیسویں صدی کے وسط کے دوران افغانستان میں باقاعدہ حکومتوں کا سلسلہ چلا۔ اس دوران ایک دو شہروں میں خصوصاً کابل میں سماجی اور ثقافتی ارتقاء خاصا بلند رہا اور یہ شہر ایک خوشحال اور آزاد خیال طبقے کی نمائندگی کرتا رہا لیکن باقی افغانستان بدستور قبائلی نظام اور غربت کے شکنجے میں پھنسا رہا۔
کسی بھی حکومت نے کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی جس سے گراس روٹ لیول پر ترقی ممکن ہو سکے۔ اس لیے اس ملک میں کوئی حکومتی سسٹم ڈویلپ نہیں ہو سکا۔ جو تھوڑا بہت سسٹم موجود بھی تھا وہ افغان وار کے دوران ختم ہو گیا اور اس کے بعد رہا سہا انفراسٹرکچر باہمی خانہ جنگی کی نذر ہو گیا۔
اب طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے حلقوں کا خیال تھا کہ طالبان کا تعلق چونکہ زمین سے ہے اس لیے وہ افغانستان کے عوام کی ترقی کے لیے زیادہ بہتر کردار ادا کریں گے۔
پاکستان میں بعض حلقوں کا یہ بھی خیال تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ کم ہو گا اور پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن یہ ساری توقعات وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی گئیں۔
طالبان جب بگرام میں داخل ہوئے تو انھوں نے جیلیں کھول دی تھیں۔ ان جیلوں میں بند قیدی فرار ہو گئے تھے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دورِ حکومت میں جو دہشت گرد گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالے گئے تھے، انھیں طالبان نے رہا کر دیا۔
اشرف غنی انتظامیہ ان گرفتار دہشت گردوں کو پاکستان کے ساتھ بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتی رہی۔ پاکستان کا مطالبہ رہا ہے کہ ایسے دہشت گرد جن کا تعلق پاکستان سے ہے، انھیں پاکستان کے حوالے کیا جائے لیکن اشرف غنی انتظامیہ بھی ڈبل گیم کر رہی تھی۔
اس نے انھیں بلیک میلنگ کے لیے جیلوں میں بند کیے رکھا لیکن جب امریکن فوجیں افغانستان سے نکلیں اور طالبان نے کابل کا اقتدار سنبھالا تو جیلوں میں بند ٹی ٹی پی کے تمام لوگوں کو رہا کر دیا گیا۔
اب یہی لوگ برسرعام پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرا رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں آزادانہ نقل وحرکت کر رہے ہیں، وہاں آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں اور مختلف تقریبات کی صدارتیں بھی کر رہے ہیں۔
ان حقائق کے باوجود افغان طالبان کہتے ہیں کہ ہماری سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ اب طالبان کی عبوری حکومت نے پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
طالبان حکومت کی یہ غلط کیلکولیشن ہے کہ وہ تجارت بند کر کے شاید پاکستان کو معاشی طور پر کوئی نقصان پہنچا لیں گے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت میں پاکستان کی کل برآمدات کا حصہ بہت معمولی نوعیت کا ہے۔
اس لیے پاکستان کو تجارت بند ہونے سے کسی قسم کا کوئی مالی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ افغانستان میں استعمال ہونے والی زیادہ تر اشیاء پاکستان سے جاتی ہیں۔ پاکستان سے تجارت بند کرنے سے نقصان افغانستان کا ہی ہو گا۔
ویسے بھی افغانستان کی سرحد اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ بلیک منی پاکستان میں بہت سے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ اصولی طور پر تو پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔
خاص طور پر پیدل اور روٹ ٹرانسپورٹ کے ذریعے پاکستان میں داخلے کی مکمل طور پر ممانعت ہونی چاہیے۔ تجارت بھی کرنی ہے تو وہ صرف قانونی تجارت ہونی چاہیے۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارت بند کرنے کا کبھی اعلان نہیں کیا اور نہ ہی کبھی یہ کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کی حکومت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات نہیں کرے گا۔
افغانستان کی حکومت کو ایک ذمے دار حکومت کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ موجودہ عبوری حکومت کے اکابرین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ افغانستان کی عوام کے نمایندہ نہیں ہیں۔
موجودہ عبوری حکومت ووٹ کے ذریعے اقتدار میں نہیں آئی ہے۔ افغانستان کی حکومت کو سب سے پہلے سسٹم کو ڈویلپ کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمسایوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے سے معاملات حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی افغانستان خوشحال ہو گا۔
افغانستان کے عوام کو اپنی نمایندہ حکومت کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو جمہوریت کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے عوام کو ریاستی اور حکومتی اداروں کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے عوام کو بہتر انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کی ضرورت ہے۔ جدید اسپتالوں کی ضرورت ہے لیکن طالبان کی حکومت ان امور کی جانب توجہ نہیں دے رہی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی ایک ایسے ملک کی نمائندگی کر رہی ہے جو پسماندگی کا شکار ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں دہشت گردی افغانستان کی حکومت افغانستان کے ساتھ افغانستان کے عوام افغانستان میں افغان طالبان کی ضرورت ہے پاکستان سے پاکستان کے دفتر خارجہ کر رہے ہیں جیلوں میں کہ طالبان حکومت نے کے لیے ا عوام کو کسی بھی نہیں کی لیے اس اس لیے کے بعد رہا ہے
پڑھیں:
افغانستان دہشت گردی میں ملوث ہے، امن تباہ کرنےوالے انسانیت سےعاری درندے ہیں، وزیر داخلہ
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وانا کیڈٹ کالج کا دورہ کرتے ہوئے علاقے کے عمائدین سے گفتگو میں کہا ہے کہ افغانستان دہشت گردی میں ملوث ہے اور کسی کو بھی پاکستان میں امن و امان کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے دہشتگردوں کو انسانیت سے عاری درندوں کا ٹولہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ وانا کیڈٹ کالج میں اے پی ایس پشاور جیسے سانحے کو دہرانا چاہتے تھے، لیکن پاک فوج کے شاندار آپریشن نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
محسن نقوی نے مزید کہا کہ پاک فوج نے سرحدی علاقوں کی نگرانی سخت کر دی ہے اور پاکستان کے تمام بارڈرز کو محفوظ بنانے پر کام جاری ہے۔
اس موقع پر وانا کے عمائدین نے وفاقی حکومت کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ علاقے میں تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز اور دیگر ترقیاتی منصوبے کامیابی سے جاری ہیں۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین بھی دلایا۔