اسلام آباد کچہری میں دھماکا
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251114-03-3
قاسم جمال
پاکستان ایک بار پھر شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں دو دھماکے ہوئے پہلا دھماکا وانا میں وانا کیڈٹ کالج کے گیٹ پر ہوا جہاں خودکش حملہ آور نے کیڈٹ کالج کے گیٹ کو دھماکے سے اُڑا دیا۔ تین دہشت گردوں نے کیڈٹ کالج میں داخل ہونے کی کوشش کی اس وقت کالج میں 537 افراد موجود تھے۔ سیکورٹی فورسز نے تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ اگلے روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے جی 11 ڈسٹرکٹ جوڈیشنل کمپلیکس کچہری کے قریب پولیس وین کے قریب زور دار خودکش دھماکا ہوا۔ جس کی آواز دور دور تک سنائی دی گئی۔ اس دھماکے میں 12 انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور 27 افراد شدید زخمی ہوئے۔ یہ دہشت گرد کارروائیاں بلاشبہ بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج کی جانب سے کیا گیا ہے۔ یہ دہشت گرد کارروائی ملکی استحکام پر شدید حملہ ہے۔ بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے والے انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ ادھر ہندوستان میں بھی مودی سرکار نے نئی دہلی میں سیلنڈر دوکان کے قریب دھماکے کروا کے اپنی انتخابی مہم میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے اور ان دھماکوں کا الزام پاکستان پر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مودی سرکار پاکستان سے ہونے والی جنگ میں اپنی ذلت آمیز شکست کو بھلا نہیں پا رہی ہے اور خوفناک خواب کی طرح وہ اس پر مسلط ہے اور وہ ہر کارروائی اور واقعہ پاکستان پر تھوپنے میں لگا ہوا ہے۔
وانا کیڈٹ کالج اور اسلام آباد کچہری میں خوفناک دھماکے اور خود کش حملے پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے۔ دہشت گردی کا یہ سلسلہ نجانے کب رُکے گا۔ ان دہشت گرد کارروائیوں سے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ انسانی جانوں کے قاتلوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کا کسی دین اور مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ جب سے افغانستان سے کشیدگی کے حالات پیدا ہوئے ہیں پاکستان میں دہشت گردی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ بھارت افغانستان کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر اپنی کارروائیوں میں مصروف عمل ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس دہشت گردی کی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دے۔ دہشت گرد عناصر کسی بھی رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ ان سانپوں کو اگر ابھی کچلا نہیں گیا تو پھر گلی گلی میں اس طرح کی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ پاکستان گزشتہ چالیس برسوں سے حالت جنگ میں ہے۔ روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے افغانوں کی جنگ لڑی اور اس کے نتیجے میں روس کی خفیہ ایجنسی خاد پاکستان پر حملہ آوور تھی اور روزآنہ پشاور، کوئٹہ، کراچی ودیگر علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات بم دھماکے ہوتے تھے۔ سانحہ لال مسجد کے بعد ان واقعات نے مزید شدت اختیار کرلی اور جنرل پرویز مشرف نے غیروں کی جنگ میں پاکستان کی سالمیت اور آزادی کو جھونک دیا اور آج تک ہم اس جنگ سے نہیں نکل سکے ہیں۔
بنگلا دیش میں آنے والے عوامی انقلاب نے بھارت کی لے پالک عوامی لیگ کی بساط اُلٹ کر رکھ دی اور حسینہ واجد کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔ حسینہ واجد بڑی مشکل سے جان بچا کر اپنے آقا مودی سرکار کے پاس پہنچی جس نے انہیں پناہ دی۔ بنگلا دیش جو بھارت کی ریاست بنا ہوا تھا۔ طلبہ تحریک نے بھارت کے تمام ارمانوں پر اوس ڈال دی۔ بھارت بنگلا دیش ہاتھ نکلے جانے پر اپنے زخم چاٹ رہا تھا کہ اس کے شیطانی دماغ میں ایک نیا حربہ آیا اور اس نے افغانستان پر ڈورے ڈالے اور افغان حکومت کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنا اسیر بنا لیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کچھ غلط فہمیاں اور پاکستان کو کچھ شکایات بھی پیدا ہوئی کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دراندازی ہورہی ہے اور ٹی ٹی پی کے کارندے پاکستان کی سرحد پار کر کے پاکستان کے علاقوں میں دہشت گردی کر کے واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کی حکومت کو شواہد بھی پیش کیے لیکن تمام شکایات کو رد کردیا گیا۔ الٹا افغانستان کی طالبان فورس نے پاکستان پر حملہ کردیا جس کو پاکستان نے انہیں دندان شکن جواب دیا اور افغانستان میں گھس کر انہیں مارا اور نو کے قریب چیک پوسٹوں پر قبضہ کرلیا۔ 700 کلو میٹر تک کا علاقہ آج بھی پاکستان کے قبضے میں ہے۔
افغانستان کو غلط فہمی ہوگئی تھی کہ اس نے روس اور امریکا کو شکست دی ہے لیکن بچہ بچہ جانتا ہے کہ افغانوں کی یہ جنگ تو پاکستان نے لڑی ہے۔ افغانستان حکمرانوں کا پسندیدہ میدان جنگ رہا ہے اور اقتدار کی ان جنگوں میں افغانوں کی نسلیں برباد ہوگئی ہیں۔ پاکستان نے افغانوں پر احسان کیا کہ وہ ان کا بردار اسلامی ملک ہے لیکن افغانستان نے ماضی کی طرح بھارت کے ساتھ دوستی گاڑی اور پاکستان کی کمر میں چھرا گھونپا۔ آج بھی افغانستان سے دہشت گرد پاکستان کی حدود میں داخل ہوکر دہشت گردی کررہے ہیں اور بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔ وانا کیڈٹ کالج اور اسلام آباد کچہری میں ہونے والو دھماکوں میں بلاشبہ بھارت ملوث ہے اور افغانستان نے اسے سہولت کاری فراہم کی ہے۔ حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے ان واقعات کا سختی کے ساتھ نوٹس لیں اور حملوں میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کر کے انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد پاکستان نے پاکستان کی پاکستان پر کیڈٹ کالج پر حملہ کے قریب اور اس ہے اور
پڑھیں:
پاکستان دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد افغانستان میں کارروائی کرسکتا ہے: وزیر دفاع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان میں کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان واقعات میں افغان مداخلت کے شواہد ثالث ممالک کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا جواب بھرپور انداز میں دے گا، اسے خالی نہیں جانے دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے محض افسوس یا مذمتی بیانات سچائی کا ثبوت نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان کی پناہ میں موجود افراد بار بار پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ وانا کیڈٹ کالج پر حملے کے دوران پاک فوج نے اللہ کے فضل سے تمام کیڈٹس کو محفوظ رکھا۔
بھارت کے بارے میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان حالیہ کشیدگی کے بعد سے مسلسل ہائی الرٹ پر ہے، بھارت افغانستان کے راستے جارحیت میں ملوث ہے، اور کسی کو اس حقیقت پر شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے ہمسائے کا رویہ دشمنی پر مبنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں، بیشتر حملوں میں افغان دہشت گرد شامل ہوتے ہیں۔ اگر دوست ممالک کوئی ثالثی کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کو اعتراض نہیں، لیکن افغان طالبان کے زبانی وعدوں پر اب کسی کو بھروسہ نہیں رہا۔ ان کے بقول، ثالثوں کے ذہن میں بھی یہ بات واضح ہے کہ ان واقعات کے پیچھے بھارت کا کردار موجود ہے۔