چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ معاشی خوشحالی لائے گا، ڈاکٹر شاہدہ وزارت
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ترقی پذیر ممالک کے لیے اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی کے نئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے ممالک اپنے بنیادی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنا سکتے ہیں، جدید سڑکیں، ریلویز، بندرگاہیں اور اقتصادی زون قائم کر کے عالمی تجارت سے براہِ راست فائدہ حاصل کرنے کے ساتھ مقامی صنعتوں کو فعال اور روزگار کے مواقع بڑھاسکتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کیا۔ وہ گزشتہ روز ہمدرد کارپوریٹ مرکزی دفتر میں اسپیکر جنرل (ر) معین الدین حیدر کے زیر صدارت منعقدہ ہمدرد شوریٰ کراچی کے اجلاس بعنوان’’عالمی امن، فلسطین کی جنگ بندی، پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اْمت مسلمہ کا کردار‘‘ سے خطاب کررہی تھیں۔ اجلاس کی میزبان ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر سعدیہ راشد (ہلال امتیاز)تھیں۔ ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کہاکہ مغرب کا اقتصادی ماڈل قرضوں پر چلتا ہے جس سے دنیا بھر میں غربت اور مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ غربت کے شکارترقی پذیر ممالک کے لیے چین کایہ پروگرام پیغامِ خوش حالی اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لیے استعماری ممالک کی جانب سے اس پروگرام کی شد و مد سے مخالفت جاری ہے۔بی آر آئی کے پہلے حصے یعنی پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے بھارت سمیت دیگر کی جانب سے دہشت گردوں کی ہر قسم کی معاونت کی جارہی ہے۔ پاکستان کو سنجیدگی کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری پروگرام کے فیز IIکو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس کے لیے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیکورٹی صورت حال بہتر بنانا ہوگی۔ بی آرآئی کو کام یاب بنانے میں ہی پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی بقا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ لسانی اورمذہبی سیاست سے پاکستان کے معاشر ے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ سوچ نوآبادیاتی نظام کی باقیات ہے جس کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔سیاست کے ذریعے اجتماعی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔قومی اتحاد اور ایماندارانہ سیاست سے ہی ملک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔ مغربی استعماری قوتیں آج بھی ترقی پذیر ممالک میں لسانی، نسلی اور دیگر تفریق پیدا کرکے بلاواسطہ قابض ہیں۔ ممالک کو جنگوں اور سرحدی تنازعات کی جانب دھکیل رہے ہیں۔قدرتی وسائل سے مالامال ممالک میں تقسیم کی سیاست کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ علیحدگی پسند جماعتوں کی مالی اور بسااوقات عسکری تعاون بھی دیا جاتا ہے۔ ان مسلح گروہوں کے ذریعے ممالک کو کمزور کرکے قدرتی وسائل و معدنیات اونے پونے داموں خرید کے مہنگے داموں اسلحہ بیچا جاتا ہے۔ لیکن اب مغرب کے دانشور اور عوام بھی فکری طور پر بیدار ہورہے ہیں۔جس طرح اْنہوں نے فلسطین کے حق میں بڑے اجتماع کیے وہ یقیناً ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے۔ اراکینِ شوریٰ انجینئر انوار الحق صدیقی ، بریگیڈیئر (ر) طارق خلیل، مبشر میر، ظفر اقبال، انجینئر ابن الحسن رضوی، افضل حمید، سینیٹر عبدالحسیب خان، ڈاکٹر امجد جعفری، جسٹس(ر)ضیا پرویز، پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان ، کرنل(ر)مختار احمد بٹ،ڈاکٹر حنا خان، بریگیڈئر (ر) ڈاکٹر ریاض الحق، پروفیسر ڈاکٹر نسرین افضل، سید مظفر اعجاز ، ڈاکٹر عامر طاسین اور دیگر نے کہا کہ فلسطین اور سوڈان میں ظلم و جبر کے خلاف پاکستان نے اصولی سفارتی موقف اپنایا ہے جس کی زیادہ تر ممالک کی تائیدبھی حاصل رہی۔ کشمیر میں مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی لیکن فیلڈ مارشل عاصم منیر اور افواج پاکستان کی بہترین عسکری حکمت عملی کی بدولت اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہوا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ترقی پذیر ممالک کے لیے
پڑھیں:
حکومت کا سیمی کنڈکٹر چِپ منصوبہ کیا ہے، یہ کتنا موثر ثابت ہوگا؟
حکومتِ پاکستان کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں تاریخی پیش رفت ہوئی ہے۔ سیمی کنڈکٹر چِپ ڈیزائن اور ریسرچ کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس منصوبہ کو ملک کو عالمی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں جگہ دلانے اور معیشت کو ڈیجیٹل بنیادوں پر استوار کرنے کی ایک اہم کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں 7200 افراد کو ٹریننگ دی جائے گی۔
سیمی کنڈکٹر چپ آخر ہے کیا؟سیمی کنڈکٹر چِپ ایک چھوٹی سی الیکٹرانک چپ ہوتی ہے جو بجلی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کا کام کرتی ہے۔ یہ چِپ تقریباً ہر الیکٹرانک آلے جیسے موبائل فون، کمپیوٹر، گاڑی، ٹی وی، یا حتیٰ کہ جدید گھریلو مشینوں کا ’دماغ‘ سمجھی جاتی ہے۔
اس منصوبے کے لیے حکومت نے ابتدائی مرحلے میں تقریباً 4.8 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اس کا مقصد نوجوانوں کو چِپ ڈیزائن، ویریفکیشن اور سسٹم انجینئرنگ کی تربیت دینا ہے۔ اس پروگرام کے تحت ملک کی مختلف جامعات میں جدید ’انٹیگریٹڈ سرکٹ لیبارٹریز‘ قائم کی جائیں گی، جہاں ریسرچ اور پروڈکشن کے لیے جدید سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
وزیرِ اطلاعات و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ نے ایک تقریب میں کہا کہ پاکستان کو اب سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی میں قدم رکھنا ہوگا کیونکہ مستقبل کی معیشت اسی صنعت پر منحصر ہے۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اس شعبے کی تربیت حاصل کریں تاکہ پاکستان عالمی چِپ سپلائی چین کا حصہ بن سکے۔
یہ منصوبہ کتنے مراحل پر مشتمل ہے؟یہ 3 مراحل پر مشتمل جامع پروگرام ہے، جس کا پہلا مرحلہ ‘انسپائر’ (انیشی ایٹو ٹو نرچر سیمی کنڈکٹر پروفیشنلز فار انڈسٹری، ریسرچ اینڈ ایجوکیشن) ہے، جو انسانی وسائل کی تربیت پر مرکوز ہے اور اسے 4.5 سے 4.8 بلین روپے کی عوامی شعبہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) فنڈنگ سے شروع کیا گیا ہے۔
منصوبے کے مطابق حکومت فی الحال چِپ ڈیزائن اور تحقیق پر توجہ دے رہی ہے، جبکہ آئندہ مرحلے میں اسمبلی، پیکجنگ اور ٹیسٹنگ فیسلٹیز قائم کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو ترقی پذیر ممالک کے لیے پائیدار سمجھا جاتا ہے، کیونکہ چِپ مینوفیکچرنگ کی فیکٹریاں (فَبز) اربوں ڈالر کی لاگت اور تکنیکی پیچیدگی کی متقاضی ہوتی ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے قومی سیمی کنڈکٹر ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر نوید شیروانی نے بتایا کہ یہ نقشہ پاکستان کو عالمی سپلائی چین میں شامل کرے گا، جہاں سیمی کنڈکٹرز اسمارٹ فونز سے لے کر سیٹلائٹس اور الیکٹرک وہیکلز تک کی بنیاد ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت 2030 تک 1,000 سیمی کنڈکٹر انجینئرز کی تربیت کا ہدف رکھا گیا ہے، جبکہ مجموعی طور پر 7,200 پروفیشنلز کو فائیو ایئرز میں ڈیزائن، ویریفکیشن، اور ریسرچ میں مہارت دی جائے گی، جو نہ صرف ہزاروں ہائی سکلڈ جابز پیدا کرے گا بلکہ 10 بلین روپے کے نیشنل سیمی کنڈکٹر فنڈ کے ذریعے اسٹارٹ اپس کو گراںٹس اور وینچر کیپیٹل بھی فراہم کرے گا۔
دوسرا مرحلہ آؤٹ سورسڈ اسمبلی اینڈ ٹیسٹنگ (او ایس اے ٹی) پر مرکوز ہے، جو اگلے دہائی کے اندر (2035 تک) شروع ہوگا اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی مدد سے چپس کی پیکیجنگ اور ٹیسٹنگ کی صلاحیت پیدا کرے گا، جس کے لیے گلوبل پارٹنرشپس اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی ضرورت ہوگی، جبکہ خصوصی ٹیکنالوجی زونز (ایس ٹیز) میں ٹیکس چھوٹ اور انفراسٹرکچر سپورٹ دی جائے گی۔
تیسرا اور سب سے اعلیٰ مرحلہ فل فلیجڈ فیبریکیشن ہے، جو مکمل ٹیکنالوجیکل سوورینٹی کی طرف لے جائے گا اور پاکستان کو اپنے سیمی کنڈکٹرز خود تیار کرنے کا موقع دے گا، حالانکہ اس کے لیے بھاری فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ اور انٹرنیشنل کوآپریشنز جیسے انٹیل، این ویڈیا، اور ٹی ایس ایم سی کے ساتھ اشتراک کی ضرورت ہوگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ مؤثر انداز میں مکمل کیا گیا تو پاکستان نہ صرف الیکٹرانکس، مصنوعی ذہانت (AI) اور ڈیجیٹل سسٹمز میں خود کفیل ہو سکے گا بلکہ ٹیکنالوجی کی برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کر سکے گا۔ اس کے علاوہ، ہزاروں نوجوان انجینئرز اور محققین کو مقامی طور پر روزگار اور ترقی کے مواقع میسر آئیں گے۔
تاہم، چیلنجز بھی کم نہیں۔ ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی کامیابی کے لیے طویل المدتی پالیسی، بین الاقوامی تعاون، اور تعلیمی نصاب میں جدت ضروری ہے۔ اگر حکومت اس منصوبے کو تسلسل اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھائے تو پاکستان خطے میں ایک اہم ٹیکنالوجی حب کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
سویڈن میں الیکٹرانکس کے شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے طالبِ علم محمد افضل حمید کا کہنا تھا کہ
حکومتِ پاکستان کا سیمی کنڈکٹر چِپ منصوبہ یقیناً ایک تاریخی اور امید افزا قدم ہے جو ملک کو ڈیجیٹل معیشت کی سمت لے جا سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی کئی عوامل پر منحصر ہے۔ منصوبے کی سمت درست ضرور ہے، کیونکہ سیمی کنڈکٹرز مستقبل کی عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس راستے میں مالی، تکنیکی اور انتظامی چیلنجز کم نہیں۔ ابتدائی طور پر 7200 افراد کی تربیت اور 1000 انجینئرز تیار کرنے کا ہدف مثبت ہے، مگر جب تک مقامی صنعت اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جاتے، یہ تربیت یافتہ افرادی قوت بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، فیبریکیشن پلانٹس کی تعمیر کا ہدف فی الحال ایک طویل المدتی خواب دکھائی دیتا ہے جس کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاری، جدید انفراسٹرکچر اور پالیسی کے تسلسل کی ضرورت ہے۔
فنڈنگ کے اعلان کے باوجود شفافیت، کارکردگی اور تحقیقاتی اداروں کی اصلاحات ناگزیر ہیں، کیونکہ ماضی میں ایسے منصوبے انتظامی کمزوریوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اگر حکومت اس پروگرام کو صرف اعلانات تک محدود رکھنے کے بجائے عملی بنیادوں پر شفاف، پائیدار اور عالمی شراکت داری کے ساتھ آگے بڑھائے، تو پاکستان واقعی خطے میں ایک ابھرتا ہوا ٹیکنالوجی حب بن سکتا ہے اور سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں خود کفالت حاصل کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ منصوبہ حکومت کی اُس وسیع حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستان کو “ڈیجیٹل معیشت” کی راہ پر گامزن کرنے اور نوجوان نسل کو مستقبل کی عالمی منڈی کے لیے تیار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں