وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد افغانستان میں کارروائی کرسکتے ہیں۔

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کے دوران خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان کی مذمت یا افسوس کا اظہار سچائی کا ثبوت نہیں ہے، طالبان سے متعلق ہم خود کو بے وقوف نہ بنائیں کہ وہ امن چاہتے ہیں۔

اسلام آباد میں دہشت گردی ریاست کو پیغام سمجھنا چاہیے، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں دہشت گردی ریاست کو پیغام سمجھنا چاہیے۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ حالیہ واقعات میں افغان مداخلت کے ثبوت ثالثوں کے سامنے رکھے جائیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان میں جارحیت کررہا ہے، ہم جارحیت کا وار خالی نہیں جانے دیں گے، بھرپور جواب دیں گے۔

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ افغان طالبان کی پناہ میں رہنے والے لوگ بار بار ہم پر حملہ کر رہے ہیں، وانا کیڈٹ کالج میں اللّٰہ کی مہربانی سے پاک فوج نے کیڈٹس کو بچایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے ہمارے ہمسائے کا دشمنی والا رویہ سامنے آچکا ہے، بھارت افغانستان کے راستے جارحیت کر رہا ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں، دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات میں اکثریت افغان دہشتگردوں کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کا دشمنی والا رویہ سامنے آچکا ہے، دوست ممالک کوئی دوا کرنا چاہتے ہیں توضرور کریں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان کی زبانی کلامی پر تو افغانستان میں کوئی بھروسہ نہیں کرتا ہم کیسے کرلیں، ثالثوں کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں کہ اس کے پیچھے بھارت ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارتی قونصلیٹ سے دہشت گردوں کو پیسے ملتے ہیں، افغانستان سے متعلق دستیاب تمام سفارتی آپشنز استعمال کریں گے، بھارت سے متعلق ہم حالیہ جنگ سے ہی ہائی الرٹ پر ہیں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: افغانستان میں افغان طالبان خواجہ ا صف نے کہا کہ

پڑھیں:

 افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے‘وزارت خارجہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-01-19

 

 

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا۔ بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر  پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ 4 برسوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی / فتنہ الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے، لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں  اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان کا ردعمل اس عزم اور ارادے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ٹی ٹی پی / فتنہ الہند اور بی ایل اے / فتنہ الاحرار پاکستان اور اس کے عوام کے کھلے دشمن ہیں، اور جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔ پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے اور طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن سمجھتا ہے، ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔دوحہ میں پہلے دور کے دوران فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی، استنبول میں دوسرے دور میں ان نکات پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات ہونا تھی، لیکن طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ‘تیسرے دور میں بھی پاکستان نے مثبت اور تعمیری رویہ اپنایا اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا، لیکن افغان وفد نے غیر متعلقہ الزامات اور دعووں کے ذریعے بات چیت کو بے نتیجہ بنایا۔پاکستان باہمی اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہے، تاہم دہشت گردی کا مسئلہ اولین ترجیح کے طور پر حل ہونا چاہیے، پاکستان کی مسلح افواج اور عوام مل کر اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • صدرِ مملکت سے وزیراعظم کی ایوانِ صدر میں ملاقات، دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت
  • پاکستان سے کوئی حملہ ہوا تو فوری جوابی کارروائی ہوگی: افغان حکام کی دھمکی
  • پاکستان پر حملے افغان طالبان کی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں،وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ
  • اسلام آباد میں دہشت گردی ریاست کو پیغام سمجھنا چاہیے، خواجہ آصف
  • پاکستان پر حملہ افغان طالبان کی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں، عطا تارڑ
  • اسلام آباد میں بھارت نواز اور افغان طالبان کی پشت پناہی کے حامل فتنۃ الخوارج کا خودکش دھماکا
  • طالبان سے دوبارہ بات ہوسکتی ہے، ہم دوستوں کو انکار نہیں کرسکتے: وزیر دفاع خواجہ آصف
  •  افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے‘وزارت خارجہ
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ