عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کیلیے کوششیں جلد رنگ لائیں گی‘ فواد چودھری
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور سیاسی قیدیوں بشمول بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لیے ہماری کوششوں کے اثرات اگلے 10 سے 15 دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنماؤں محمود مولوی، عمران اسماعیل اور فواد چودھری حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پر زور دیتے رہے ہیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ ہماری کوششوں کا مقصد ملک میں سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا اور عمران خان کی رہائی کی راہ ہموار کرنا ہے، جو 2023 سے جیل میں قید ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر کی گئی پوسٹ میں فواد چودھری کا کہنا تھا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ پاکستان میں سیاست میں ٹھہراؤ اور عمران خان سمیت سیاسی اسیران کی رہائی کے لیے شروع کی جانیوالی کوششوں کو بڑی ابتدائی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور اس کے اثرات اگلے 10 سے 15 دنوں میں واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سمیت عمران اسماعیل اور محمود مولوی یہ کوشش پاکستان کے سیاسی استحکام کے لیے کر رہے ہیں، ان شا اللہ وہ وقت قریب ہے جب فاصلے کم ہوتے نظر آئیں گے، پاکستان کے سیاسی استحکام اور طویل المدتی ترقی کے سفر کے لیے سیاسی تلخیاں کم ہونا ضروری ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر گزشتہ روز کی گئی ایک پوسٹ میں کہا گیا ’وہ نہ حکومت سے بات کریں گے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فواد چودھری کی رہائی کے لیے
پڑھیں:
عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
انصار عباسی