مکارم اخلاق کی بنیادیں
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امام مالکؒ سے روایت ہے کہ ان کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔
’مکارم اخلاق‘ سے مراد وہ بہترین اخلاقی تصورات، اصول اور اوصاف ہیں، جن پر ایک پاکیزہ انسانی زندگی اور ایک صالح انسانی معاشرے کی بنیاد قائم ہو۔
’مکارم اخلاق کی تکمیل‘ سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی کریمؐ سے پہلے انبیاؑ اور ان کے صالح پیروکار مختلف اوقات میں اور مختلف قوموں اور ملکوں میں اخلاقی فضائل کے مختلف پہلوئوں کو اپنی تعلیم سے نمایاں کرتے رہے اور اپنی عملی زندگی میں ان کے بہترین نمونے بھی پیش کرتے رہے، مگر کوئی ایسی جامع شخصیت اس وقت تک نہ آئی تھی کہ جس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں سے متعلق اخلاق کے صحیح اصولوں کو مکمل طور پر بیان کیا ہو۔ پھر ایک طرف خود اپنی زندگی میں ان کو برت کر دکھایا ہو اور دوسری طرف ایک سوسائٹی اور ریاست کا نظام بھی انہی اصولوں کی بنیاد پر بنایا ہو اور چلا کر دکھایا ہو۔ یہ کام باقی تھا جسے انجام دینے ہی کے لیے حضور نبی آخرالزماں محمد مصطفیؐ بھیجے گئے تھے۔
1- تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت عطیہ السعدی نے کی ہے، رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اہل تقویٰ کا مقام نہیں پاسکتا تا وقتیکہ وہ ان چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں (بظاہر ) کوئی حرج نہیں ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ ان چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے جن میں حرج (گناہ) ہے‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الورع والتقویٰ)۔
مراد یہ ہے کہ بعض اوقات جائز امور بھی حرام کاموں کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ایک مومن کے سامنے صرف جواز کا ہی پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اس لحاظ سے بھی چوکنا رہنا چاہیے کہ کہیں یہ جائز کام حرام کا ذریعہ نہ بن جائے۔
2- متقیانہ زندگی کا اصول: ابن ماجہ اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت سیدہ عائشہؓ نے کی ہے، رسولؐ نے فرمایا: ’’اے عائشہؓ! حقیر گناہوں سے بچتی رہنا، اس لیے کہ ان کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب)۔
صغیرہ گناہ بظاہر ہلکا نظر آتا ہے لیکن اسے بار بار کیا جائے تو دل زنگ آلود ہوجاتا ہے اور کبائر سے نفرت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس طرح صغیرہ گناہ کم خطرناک نہیں ہے۔ متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے صغیرہ گناہ سے بھی بچنا چاہیے۔
حافظ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’گناہ کو نہ دیکھو کہ وہ کتنا چھوٹا ہے بلکہ اس خدا کی بڑائی کو سامنے رکھو جس کی نافرمانی کی جسارت کی جا رہی ہے‘‘۔ اگر خداے بزرگ و برتر اور مالک یوم الدین کی عظمت اور اس کے عذاب کی ہولناکیاں پیش نظر ہوں، یعنی چشمِ تصور میں رہیں تو پھر انسان کسی چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی دلیر نہیں ہوسکتا۔
3- وسائل و ذرائع کی پاکیزگی: مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص بھی خدا کے مقرر کردہ رزق کو حاصل کیے بغیر موت کا لقمہ نہ بنے گا۔ سنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور رزق کے حصول میں جائز ذرائع و وسائل کام میں لائو۔ رزق کے حصول میں تاخیر تمھیں ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ نہ کردے۔ اس لیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اس کی اطاعت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘ (مشکوٰۃ)۔
اس روایت میں دو اہم دینی حقائق بیان کیے گئے ہیں:
اگر کسی بھی انسان کو رزق کے حصول میں ناکامی یا تاخیر محسوس ہو تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے رزق کی جو مقدار اس کے لیے مقرر کی ہوئی ہے وہ بہرحال دیریا سویر اسے مل کر رہے گی۔
یوں تو انسان بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بھی بظاہر دُنیاوی خوش حالی اور آسایش پا لیتا ہے، لیکن یہ دراصل خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تازیانہ برستا ہے۔ حقیقی خوش حالی اور راحت و سکون تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماںبرداری کرتے ہوئے حاصل ہو۔
مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص حرام مال کمائے، پھر اس میں سے صدقہ دے تو وہ قبول کرلیا جائے اور پھر وہ اپنے مال میں برکت سے بھی نوازا جائے۔ اس کا متروکہ حرام مال صرف جہنم کا توشہ بن سکتا ہے (اس سے آخرت کی سعادت و کامرانی حاصل نہیں کی جاسکتی)۔ بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے (یہ ایک حقیقت ہے کہ ) نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی‘‘ (مسنداحمد)۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض مقصد کا پاک ہونا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وسائل و ذرائع کی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔
4- علامت تقویٰ: ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں جس کی روایت سیدنا حسن بن علیؓ نے کی ہے کہ میں نے رسولؐ کی زبان مبارک سے یہ کلمات یاد کرلیے ہیں: ’’جو چیز شک میں مبتلا کرنے والی ہو، اسے چھوڑ کر اس کام کو پسند کرلو جو شک و شبہہ سے بالاتر ہو۔ اس لیے کہ سچائی سراپا سکون و اطمینان ہے اور جھوٹ سراپا شک و تذبذب‘‘ (ترمذی، الذبائح)۔
5-توکّل: ترمذی کی ایک حدیث جس کی روایت سیدنا انسؓ نے کی ہے، کہ ایک آدمی نے حضور نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹ کو باندھ کر توکل اختیار کروں یا اسے چھوڑ کر؟‘‘ حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اسے باندھ لے اور پھر خدا پر توکّل کر‘‘ (ترمذی، الذبائح)۔
ترمذی اور مشکوٰۃ کی ایک اور حدیث جس کی روایت سیدنا عمرؓ نے کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسولؐ کو فرماتے سنا:
اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو، جس طرح کہ توکّل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے گا جس طرح پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ صبح سویرے خالی پیٹ (آشیانوں سے) نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ ہو کر پلٹتے ہیں (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب التوکل والیقین)۔
پرندوں کے ساتھ تشبیہہ د ے کر رسولؐ نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پیر توڑ کر گھر میں بیٹھا رہے، بلکہ توکل یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے اسباب و وسائل کو کام میں لا کر نتائج خدا کے حوالے کردے۔
6-شکر: مسند احمد کی ایک حدیث جس کی روایت سیدنا ابوہریرہؓ نے کی ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’شکر گزار بے روزہ انسان صبر کرنے والے روزہ دار کی طرح ہے‘‘ (مسنداحمد)۔ یعنی جو صبر کے ساتھ نفلی روزے رکھتا ہے اور جو شکر کے ساتھ خدا کی دی ہوئی حلال روزی کھا کر دن گزارتا ہے، دونوں خدا کے ہاں درجہ میں برابر ہیں۔ رسولِ اکرمؐ پانی پینے کے بعد بھی شکر ادا کرتے تھے۔
ایک حدیث جس کی روایت سیدنا ابوہریرہؓ نے کی ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’جو تم میں سے (مال، جسم اور وجاہت کے اعتبار سے) بالاتر ہیں، ان کو نہ دیکھو، اور جو تم سے (اس لحاظ سے) فروتر ہیں، ان کو دیکھو۔ اس طرح یہ صلاحیت پیدا ہوسکے گی کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے‘‘ (صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق، باب الفقر)۔ ایک اور روایت ہے: ’’جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص کی طرف اٹھے جو مال اور جسمانی طاقت میں اس پر فضیلت دیا گیا ہے تو چاہیے کہ اسے دیکھے جو (اس لحاظ سے) فروتر ہے‘‘ (مسلم، کتاب الزہد، والرقائق)۔
شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور دل و دماغ کی صلاحیتوں کو اللہ کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے پرہیز کیا جائے۔
7- صبر: مسلم کی ایک حدیث جس کی روایت سیدنا صہیبؓ نے کی ہے، رسولؐ نے فرمایا: ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے کہ اس کا سارا کام خیر ہی خیر ہے۔ یہ (سعادت) مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اسے دُکھ پہنچتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اُسے خوشی حاصل ہوتی ہے اور وہ سراپا شکر بن جاتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ گویا وہ ہرحال میں خیر ہی سمیٹتا ہے‘‘ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق)۔
بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں جس کی روایت سیدنا انسؓ نے کی ہے کہ رسولؐ کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور صبر سے کام لے‘‘۔ اس عورت نے حضور نبی کریمؐ کو نہ پہچانتے ہوئے کہا: اپنی راہ لو، میری جیسی مصیبت تم پر تو نہیں پڑی ہے۔ کسی نے اس سے کہا کہ یہ تو رسولؐ تھے جو تمھیں صبر کی تلقین فرمارہے تھے تو وہ دوڑی ہوئی آئی اور حضورؐ سے عرض کیا: حضورؐ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ اس پر حضور نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بس صبر وہی ہے جو سینے پر پہلی چوٹ لگتے وقت کیا جائے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے کہ: ’’اگر کوئی اللہ سے صبر کی توفیق مانگے تو اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے‘‘ (بخاری، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور)۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی ایک حدیث میں جس کی روایت ایک حدیث جس کی روایت سیدنا مشکو ۃ کی ایک حدیث میں اور مشکو ۃ کی ایک مکارم اخلاق اللہ تعالی نے کی ہے کہ کتاب الزہد ہے کہ رسول اختیار کر نے فرمایا کیا جائے یہ ہے کہ نہیں ہے کے ساتھ ایک اور کے لیے ہے اور اس لیے خدا کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے ججز منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ مستعفی
میرا ضمیر صاف اور دل میں پچھتاوا نہیں ،27 ویں ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ، میں ایسی عدالت میں حلف کی پاسداری نہیں کر سکتا، جس کا آئینی کردار چھین لیا گیا ہو،جسٹس منصور
حلف کی پاسداری مجھے اپنے باضابطہ استعفے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ آئین جسے میں نے تحفظ اور دفاع کا حلف دیا تھا اب موجود نہیں رہا(جسٹس اطہر من اللہ)دونوں ججوںنے صدر مملکت کو استعفا بھجوادیا
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھیج دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ میں نے ادارے کی عزت، ایمانداری اور دیانت کے ساتھ خدمت کی۔جسٹس منصور نے اپنے استعفیٰ میں مزید لکھا ہے کہ میرا ضمیر صاف ہے اور میرے دل میں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی حیثیت سے استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔انہوں نے 27 ویں آئینی ترمیم کو آئین پاکستان پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ترمیم سے انصاف عام آدمی سے دور اور کمزور طاقت کے سامنے بے بس ہو گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم سے ملک کی ماہر اعلیٰ ترین عدالت کو منقسم اور اس کی آزادی پامال کر کے ملک دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ میں ایسی عدالت میں حلف کی پاسداری نہیں کر سکتا، جس کا آئینی کردار چھین لیا گیا ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ ایک ہی سپریم کورٹ رہی اور یہ ہمارا مشترکہ ورثہ ہے۔ 27 ویں ترمیم نے اس ڈھانچے کو توڑ کر سپریم کورٹ کے اوپر آئینی عدالت قائم کر دی۔جسٹس منصور نے یہ بھی کہا کہ 27 ویں ترمیم کو بغیر مشاورت اور بحث یا عدلیہ کی رائے کے ایوان سے منظور کیا گیا۔ اس ترمیم کا واحد مقصد حکومت کو اپنی مرضی کے ججز لگانے کا اختیار دینا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے مزید کہا کہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جہاں حکومت میں قانون کی حکمرانی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور جہاں عدالتی آزادی کو مقدس امانت کی طرح محفوظ رکھا گیا ہو۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفی میں لکھا کہ 11 سال قبل میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج پھر اسی عدالت کے چیف جسٹس اور مزید 4 سال بعد سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، تو اس پورے عرصہ کے دوران جو بنیادی وعدہ میں نے کیا تھا وہ ایک ہی تھا۔ یہ کسی آئین کا نہیں، بلکہ آئینِ پاکستان کا حلف تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے پہلے میں نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا کہ چیف جسٹس پاکستان کو خط میں مجوزہ شقوں پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ ہماری آئینی ساخت کیلیے کیا معنی رکھتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس خاموشی اور بے عملی کے اس ماحول میں میرے خدشات حقیقت بن چکے۔ اپنے حلف کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا سب سے بڑا اعزاز حاصل رہا ہے اور آج اسی حلف کی پاسداری مجھے اپنے باضابطہ استعفے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ آئین جسے میں نے تحفظ اور دفاع کا حلف دیا تھا اب موجود نہیں رہا۔جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ میں اس جھوٹ کے ساتھ نہیں جی سکتا کہ اب جو نئی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں وہ اسی آئین کی بقا پر کھڑی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ باقی رہ گیا ہے، وہ صرف ایک سایہ ہے۔ اب آئین میں نہ اس کی روح ہے اور نہ ہی وہ عوام کی آواز جس کے لیے یہ آئین وجود میں آیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ آئندہ نسلوں نے مختلف نظر سے دیکھنا ہے تو پھر ہمارا مستقبل ماضی کی غلطیوں کی تکرار نہیں ہونا چاہیے۔ ان ہی امیدوں کے ساتھ آج میں یہ جبّہ ہمیشہ کے لیے اتار رہا ہوں اور سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے اپنا باضابطہ استعفیٰ فوری طور پر پیش کرتا ہوں۔