Express News:
2025-11-11@23:54:56 GMT

حیرانی

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

آج ہم ایک ایسی شخصیت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس کے گرد دشنام طرازی اور پراپگینڈے کا اتنا دبیز اندھیرا پھیلایا گیا ہے کہ وہ ابھی تک چھٹ نہیں پایا حالانکہ اب تو باقاعدہ انگریزی حکومت کی سرکاری دستاویزات سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ ایک باقاعدہ نیٹ ورک تھا جس نے اس شخصیت کے خلاف مسلسل زہر اگلا ہے، جس میں سابقہ این ڈبلیو ایف پی یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ مختصراً صوبہ سرحد میں اس وقت کے بہت سارے ملا،پیر صاحبان اور سجادہ نشین سرکاری پیرول پر سرگرم تھے۔

ان سب کا کام عوام میں اس شخصیت کو بیک وقت روس ،جرمنی اور ہندوستان کا ایجنٹ مشہور کرنا تھا۔ ولی خان مرحوم نے بڑی کوشش سے لندن جاکر گورنر جارج کنگھم کے دفتر سے دستاویزات برآمد کر کے اپنی کتاب ’’حقائق حقائق ہیں‘‘ میں درج کیا ہے، ان دستاویزات میں نام بنام ، ان ملاوں اور سجادہ نشینوں کو دی جانے والی رقومات کا اندراج ہے جو ہندوستان کی انگریز سرکاری انھیں ادا کرتی تھی ، ان میں پندرہ روپے سے لے کر پچاس روپے تک کے حضرات کے نام ہیں ، سب سے بڑی پیمنٹ دوہزار روپے تھی، جن محترم کو یہ رقم ملتی تھی، ان کو اس لیے ملتی تھی کہ وہ ان لوگوں میں تقسیم کریں جو ان کے حلقہ ادارت میں شامل ہیں، ان بزرگوار کا ایک باچا خان کے بارے میں طنزیہ قول بڑا مشہور ہے۔

بہرحال میں یہاں ایک اور شخصیت کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا نام یوسف لودھی ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت آدمی تھا۔ پشاور سے ایک انگریزی ہفتہ وار پرچہ نکلتا تھا، وہ بڑا اچھا کارٹونسٹ بھی تھا ،کارٹونوں کی ایک کتاب بھی ان کی چھپی تھی لیکن ان کی ایک اور کتاب بڑی مقبول ہوئی تھی جو انھوں نے ’’کلیلہ دمنہ‘‘یا جنگل کی طرز پر لکھی تھی۔ اس کتاب میں ملکی سیاست کو جنگل اور جنگلی جانوروں کے استعارے میں بیان کیا گیا تھا۔

ولی خان کو اس کتاب کا ہیرو یعنی شیر بیان کیا گیا تھا۔اس زمانے وہ پشاور صدر میں مقیم تھے اور میرا بھی قلندرمومند کی وساطت سے تعارف ہوگیا۔پھر ہم دونوں میں گاڑھی چھیننے لگی۔ پھر وہ پشاور چھوڑ کر چلے گئے، شاید اسلام آباد یا کراچی یا کہیں اور۔کیونکہ ان دنوں میں بھی دربدری کا شکار تھا، سرکاری عتاب کا شکار تھا، اس لیے اپنے گاؤں ہی میں کاشت و برداشت کررہا تھا۔خیر تو جب باچاخان افغانستان سے لوٹ کر آگئے تو یوسف لودھی نے اپنے ہفت روزہ کے لیے ان کا انٹرویو لینا چاہا۔میں، قلندرمومند اور یوسف لودھی ان کے گاؤں پہنچے تو باچاخان ایک درخت کے سائے میں چارپائی پر دراز تھے۔

علیک سلیک کے بعد انٹرویو شروع ہوا، باقی سوال وجواب تو حسب معمول تھے لیکن ایک مرحلے پر ہم بھی چونک گئے، جب یوسف لودھی نے یہ سوال کیا کہ ’’آپ نے یہ خدائی خدمت گار کیسے بنائے۔‘‘ باچاخان نے بھی کوئی خاص جواب نہیں دیا، صرف اتنا کہا کہ میں کون ہوتا ہوں، بنانے والا، بنائے تو خدا نے ہیں، میں نے تو صرف سکھایا ہے‘‘۔ واپسی پر ہم نے لودھی صاحب سے پوچھا، یہ کیسا احمقانہ سوال تھا۔ وہ بولے، احمقانہ نہیں بلکہ سب سے زیادہ دانشمندانہ سوال تو یہی تھا کیونکہ میں نے دنیا کی تاریخ پڑھی ہے اور انسانی تاریخ میں کہیں بھی ایسے لوگوں کی مثال نہیں ملتی جو جان دیتے ہوں، لیتے نہیں ہوں۔

جہاں کہیں بھی خودکش فدائی پیدا ہوتے ہیں مثلاً حسن بن صباح کے فدائی بھی جان دیتے تھے لیکن پہلے جانیں لیتے تھے بلکہ جانیں لیتے ہوئے جان دیتے تھے۔ یہیں پر میں نے حسن بن صباح کے بارے میں تفصیل پوچھی کیونکہ ناولوں اور افسانوں میں شیخ الجبال حسن بن صباح ، اس کی جنت اور فدایوں کے بارے عجیب وغریب افسانے پڑھے تھے۔

بولے، وہ سب افسانے ہیں، منگولوں کے زمانے میں جب اس کے قلعے کو فتح کیا گیا تو پتہ چلا کہ فدائیوں کو بھنگ پلائی جاتی تھی ، ان فدائیوں کو بھنگ کی لت لگائی جاتی تھی اور جب وہ عادی ہوجاتے تھے تو نشہ دینا بند کردیا جاتا اور کہا جاتا تھا کہ فلاں کو مار کر آو تو ’’جنت‘‘ دوبارہ ملے گی اور فدائی ناممکن کو ممکن کرنے کے لیے چل پڑتے یا ٹارگٹ کو مارتے یا خود مارے جاتے۔ بیچارے فدائی یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ سب کچھ اس مشروب کا کیا دھرا ہے جو انھیں پلایا جاتا ہے جس کا راز شیخ الجبال کو معلوم تھا۔

بہرحال جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، یوسف لودھی نے کہا، ہمارے خطے میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے انسانوں کی اتنی کایا کلب کردی ہو، وہ بھی ایسے خطے میں جہاں تشدد ہی تھا، بات بات پر قتل وقتال روزمرہ کا معمول تھا۔باچاخان کے یہ خدائی خدمت گار نرالے لوگ تھے، جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

وہ جب مظاہرے یا دھرنے دیا کرتے تھے اور انگریزی فورسز چڑھ آتی تھیِ تو خدائی خدمت گاراپنی کمر سے چند گز کی رسی کھول کر اپنے ہاتھ باندھ کر لاٹھی چارج، گولیوں اور ٹینکوں کے آگے کھڑے ہوجاتے، تشدد سہتے رہتے،گھائل ہوتے رہتے، مرتے رہتے لیکن جواب میں کسی کو تھپڑ تک نہ مارتے ۔میں حیران ہوں کہ اس شخص میں ایسی کیا کشش ہے؟ یوسف لودھی بعد میں بھی اکثر کہتا رہتا تھا۔ اس شخص میں ایسی کیا کشش ہے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یوسف لودھی

پڑھیں:

دو مئیر؛ دو کہانیاں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-03-8

 

میر بابر مشتاق

دنیا کے ہر بڑے شہر کی پہچان وہاں کا مئیر ہوتا ہے۔ مئیر دراصل اس شہر کی انتظامی روح، شہری خوابوں کا نگہبان اور عوامی خدمت کا علامتی چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ نیویارک، لندن، پیرس، استنبول یا ٹوکیو — ہر شہر کی ترقی کا مرکز اس کا بااختیار بلدیاتی نظام اور عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ لیکن جب بات کراچی کی ہو تو یہاں مئیر کا ذکر ہوتے ہی عوام کے چہروں پر طنز بھری مسکراہٹ آجاتی ہے۔ کیونکہ یہاں مئیر کے پاس خواب تو ہوتے ہیں مگر اختیارات نہیں، وعدے تو ہوتے ہیں مگر وسائل نہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو نیویارک اور کراچی جیسے دو بڑے شہروں کے درمیان حائل ہے۔ نیویارک کی آبادی تقریباً 85 لاکھ ہے، مگر وہاں کا مئیر اتنا بااختیار ہے کہ شہر کے ہر بڑے فیصلے میں اس کی رائے حتمی ہوتی ہے۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر رہائش، تعلیم سے لے کر امن و امان تک، ہر دائرے میں میونسپل حکومت کو فیصلہ سازی کا حق حاصل ہے۔ اسی لیے وہاں کے لوگ اپنے مئیر کو ایک leadership icon سمجھتے ہیں۔

مگر کراچی… ساڑھے تین کروڑ کی آبادی رکھنے والا پاکستان کا معاشی دل، وہ شہر جو پورے ملک کو چلاتا ہے، مگر خود اپاہج انتظامی ڈھانچے میں سسک رہا ہے۔ یہاں کا مئیر بااختیار نہیں، کاغذی نمائندہ ہے۔ سندھ کی وڈیرہ حکومت کے سامنے ایک سیاسی تماشا۔ عوام کے لیے مئیر ایک نزاکت ہے، اور حکمرانوں کے لیے ایک کھلونا۔ سندھ کی سیاست دراصل طاقت کے اس کھیل کا نام ہے جہاں اختیارات کی مرکزیت کو ہی اقتدار کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ اندرون سندھ کے وڈیرے، جو صدیوں پرانی جاگیردارانہ سوچ کے امین ہیں، آج بھی عوام کو ’’پانچ ہزار سالہ تاریخ‘‘ کا چورن بیچ کر حال کے دکھ بھلا دیتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو جمہوریت کے نام پر فرعونیت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہ خود اقتدار میں آ کر عوام پر خدائی دعویٰ کرتے ہیں، اور جب کوئی شہری نمائندہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے تو اس کا انجام سیاسی تنہائی، مالی مشکلات اور قانونی جکڑ بندیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

کراچی کے لوگ جب ووٹ دیتے ہیں تو ان کے سامنے خواب ہوتا ہے؛ ایک صاف ستھرا، منظم، اور ترقی یافتہ شہر۔ مگر انتخاب کے بعد وہی خواب تلخ حقیقت بن جاتا ہے۔ کیونکہ سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیار دینے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ آئینی طور پر بلدیاتی ادارے تیسری سطح کی حکومت سمجھے جاتے ہیں، مگر سندھ میں انہیں چوتھی، پانچویں یا شاید غیر موجود سطح پر دھکیل دیا گیا ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں مئیر شہر کی صفائی کے لیے بھی حکومت ِ سندھ سے اجازت مانگتا ہے، سڑک پر لائٹ لگانے کے لیے نوٹیفکیشن درکار ہوتا ہے، اور پانی کی لائن بچھانے کے لیے کئی محکموں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سندھ کے حکمرانوں کے نزدیک بلدیاتی ادارے کوئی جمہوری ضرورت نہیں بلکہ سیاسی خطرہ ہیں۔ کیونکہ اگر کراچی کا مئیر بااختیار ہوگیا تو عوام کا اعتماد کسی اور طرف منتقل ہو جائے گا، اور وڈیروں کی قائم کردہ طاقت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔

نیویارک کا مئیر زہران ممدانی اس وقت دنیا بھر میں گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ایک مسلمان، افریقی نژاد، محنت کش گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان، جس نے نیویارک جیسے شہر کی میئر شپ جیت کر تاریخ رقم کی۔ اس نے شہریوں سے کہا کہ ’’مایوس نہ ہو، ہم خواب دیکھیں گے اور انہیں سچ کریں گے‘‘۔ دوسری طرف کراچی ہے، جہاں مئیر حافظ نعیم الرحمن کو عوام کا بے پناہ اعتماد حاصل ہے، مگر سندھ حکومت کے سامنے وہ مسلسل دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں۔ عجیب تضاد ہے! نیویارک کا مئیر اپنے شہریوں کو خواب دیتا ہے، کراچی کا مئیر اختیارات مانگتا ہے۔

دنیا کے مہذب معاشروں میں بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ مگر سندھ میں یہ بنیاد ہی کھوکھلی کر دی گئی ہے۔ یہاں اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کا مطلب ہے۔ ’’وڈیرہ سیاست کے زوال کا آغاز‘‘۔ اس لیے ہر حکومت، چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور، بلدیاتی اداروں کو صرف نمائشی حیثیت میں رکھتی ہے۔ کراچی کے مئیر کو اگر صفائی کا اختیار دے دیا جائے تو شاید شہر کا کچرا صاف ہو جائے، مگر تب سندھ حکومت کے کئی محکموں کی ’’آمدنی‘‘ رک جائے گی۔ اگر پانی، سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے ادارے شہر کے منتخب نمائندوں کو دے دیے جائیں تو اربوں روپے کے ٹھیکوں پر کنٹرول ختم ہو جائے گا۔ اور یہ بات وڈیرہ ذہنیت کو کسی طور قبول نہیں۔ کراچی کے عوام کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسے سیاسی نظام میں پھنسے ہوئے ہیں جس میں صوبائی حکومت کو تو مکمل اختیار ہے، مگر وفاق یا شہر کے نمائندے بے اختیار ہیں۔ کراچی کی سڑکیں ٹوٹی ہیں، نالے اُبل رہے ہیں، بجلی اور پانی کا بحران مستقل ہے، مگر سندھ حکومت کو صرف ایک چیز کی فکر ہے۔ ’’اختیار کسی اور کو نہ ملے‘‘۔ یہی وہ نظام ہے جس نے کراچی کو مافیا کے حوالے کیا۔ کبھی ڈمپر مافیا، کبھی ٹرانسپورٹ مافیا، کبھی واٹر ٹینکر مافیا؛ سب طاقتور، مگر مئیر بے بس۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ آخر ہمارا ووٹ کس کام کا، جب ہمارا منتخب نمائندہ کچھ کر ہی نہیں سکتا؟ یہ طنز نہیں حقیقت ہے کہ نیویارک کا مئیر 85 لاکھ شہریوں کے لیے پالیسی میکر ہے، جبکہ کراچی کا مئیر ساڑھے تین کروڑ لوگوں کے لیے بس سوشل میڈیا کا کردار بن گیا ہے۔ ایک طرف دنیا کی جدید جمہوریت ہے جہاں مئیر کی آواز ایوانوں تک پہنچتی ہے، دوسری طرف سندھ کی جاگیردارانہ جمہوریت ہے جہاں مئیر کی فائلیں محکموں کی درازوں میں سڑ جاتی ہیں۔

کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے، قومی آمدنی کا 60 فی صد اور ریونیو کا 70 فی صد یہی شہر دیتا ہے۔ لیکن جب بھی ترقیاتی بجٹ بنتا ہے، کراچی کو محض دکھاوے کے منصوبے دیے جاتے ہیں۔ سڑکیں، سیوریج، کچرا، پانی، ٹرانسپورٹ۔ سب مسائل ایک ہی بنیادی نکتے پر جا کر ٹھیرتے ہیں: اختیار کا فقدان۔ اگر نیویارک کے مئیر کے پاس اتھارٹی ہے تو وہ جواب دہ بھی ہے۔ کراچی کے مئیر کے پاس اختیار نہیں، اس لیے جواب دہی بھی بے معنی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ مئیر کون ہے، سوال یہ ہے کہ مئیر کو اختیار کب ملے گا؟ یہ سوال کراچی کے ہر شہری کے ذہن میں ہے، مگر سندھ حکومت کے کانوں میں پڑے روئی کے گالے اس آواز کو دبا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کا نوجوان ہجرت پر سوچتا ہے، سرمایہ دار بیرون ملک منتقل ہوتا ہے، اور عام آدمی اپنے ہی شہر میں اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو بدلا جائے۔ کراچی کے عوام کا مینڈیٹ صرف نمائندگی نہیں، خدمت کا حق بھی ہے۔ اگر ملک کے معاشی دل کو ہی بے اختیار رکھا گیا تو پاکستان کے جسم میں جان کیسے رہے گی؟ سندھ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اختیار بانٹنے سے اقتدار کم نہیں ہوتا بلکہ مضبوط ہوتا ہے۔ مگر شاید وہ دن ابھی دور ہے۔ جب کراچی کا مئیر واقعی ’’شہر کا سربراہ‘‘ ہوگا، نہ کہ ’’وڈیروں کی مرضی کا مہرہ‘‘۔ نیویارک کا مئیر خواب دکھا رہا ہے، امید جگا رہا ہے۔ کراچی کا مئیر حقیقت بتا رہا ہے، اختیار مانگ رہا ہے۔ فرق صرف نظام کا نہیں، نیت کا ہے۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • میں نے ہار نہیں مانی
  • برطانیہ میں چند روز۔ وطن سے دوری کی تپش
  • دو مئیر؛ دو کہانیاں
  • ساری اُمیدیں ختم ہو چکی ہیں!
  • سنو تم ستارے ہو!
  • نفرت اور محبت
  • غزہ، انسانیت کا امتحان
  • کوچۂ سخن
  • ذرا سنبھل کے