data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251111-03-4
غزالہ عزیز
لوگ حیران ہوتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کب قائم ہوا وہ بھی اتنا گہرا کہ امریکا اپنا امیج، اپنا فائدہ دونوں کی پروا نہ کرے دنیا میں اٹھتے نفرت کے طوفان کو نظر انداز کر دے۔ آپ کا کیا خیال ہے اسرائیل کی غزہ میں درندگی، قتل و غارت گری اور نسل کشی میں امریکا کی پشت پناہی دنیا کو نظر نہیں آرہی؟؟ سب جانتے ہیں بس بولتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ نفرت جو اسرائیل کے لیے ہے وہ امریکا کے لیے بھی موجود ہے اظہار کرتے خوف کھاتے ہیں۔
امریکا اسرائیل اتحاد کی کم از کم پچاس سالہ طویل تاریخ ہے اور یہ اتحاد قائم کرنے میں سب سے زیادہ جو کردار تھا وہ اسرائیل کی سابق وزیراعظم گولڈا میئر کا تھا اگرچہ وہ اس وقت وزیر خارجہ تھی لیکن انہوں نے اس بات کے لیے اقوام متحدہ کو تیار کیا کہ اسرائیل کی آواز کو سنا جائے اور مانا جائے انہوں نے امریکا کو اس وقت یعنی1956 میں اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے پر بھی راضی کیا اگر چہ ان کے درمیان اس وقت اتنی قربت نہیں تھی لیکن گولڈا مئیر ایک ایسی شخصیت تھیں جنہوں نے اسرائیل کو 1967 میں چھے دن کی جنگ میں اسرائیلی کو شاندار عسکری کامیابی دلائی لیکن چونکہ جنگ میں اسرائیل کے 2700 فوجی ہلاک ہوئے تھے لہٰذا اس جنگ کو گولڈن مئیر کی ناکامی کے طور پر دیکھا گیا انہوں نے جنگ کے بعد وزیراعظم کے عہدے سے استعفا دے دیا وجہ اتنی بڑی تعداد میں اسرائیلی سپاہیوں کی ہلاکت تھی وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا کہ مصر اور شام حملہ کریں گے حالانکہ انہیں اردن کے بادشاہ کی جانب سے مطلع کیا جا چکا تھا انہوں نے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنٹوں کی بات پر اعتبار تھا جنہوں نے اس کو سنجیدہ خطرہ قرار نہیں دیا تھا مگر جب شام اور مصر نے ایک ساتھ اسرائیل پہ حملہ کیا تو اسرائیلی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں ہلاک ہوئی جس کی وجہ سے اسرائیل کی شاندار عسکری کامیابی نے گولڈن مئیر کو سیاسی طور پر مضبوط نہیں بلکہ کمزور بنایا بہت سے اسرائیلی اسی وجہ سے انہیں اسرائیل کی تاریخ کا بدترین وزیراعظم قرار دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں گولڈا مئیر کے پوتے نے اسرائیل کی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جنگ کے بعد سابق وزیراعظم کے لیے خاص طور پر ان کے حامیوں کی طرف سے گولڈا مئیر کے ساتھ نفرت اور ان کے حامیوں کے ساتھ نفرت میں عورت سے نفرت ایک سخت نا انصافی تھی یعنی ان کا عورت ہونا اگر چہ انہوں نے ریاست کے لیے انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی ریاست کے قیام کے دوسرے پہلو پر غور کرنے میں ناکام اور نا اہل تھیں اور اسی لیے فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنا پڑا یہ دوسرا پہلو کیا تھا یہ دوسرا پہلو فلسطینیوں کی وہاں موجودگی تھی جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست میں ایک آزاد فلسطینی عوام کب تھے ایسا نہیں تھا کہ فلسطین میں کوئی فلسطین تھا جو اپنے آپ کو فلسطینی قوم سمجھتا تھا اور ہم نے آکر انہیں باہر نکال دیا اور ان کا ملک چھین لیا وہ یہاں موجود ہی نہیں تھے ان کی یہ بات اور اسرائیل کی تخلیق اس بات کی علامت ہے کہ فلسطینیوں کی شناخت کو نظر انداز کیا گیا، مسلم امہ خاص طور سے عرب خاموش رہے بلکہ اسرائیل کو مدد دی جو آج بھی اسی طرح ہے لیکن آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے سمجھ رہی ہے اور مظلوم کا ساتھ دینے کے لیے یکجا بھی ہے آج سوشل میڈیا عوام کو سچ بتانے اور سمجھانے کے لیے بہت اہم ہے۔
گولڈا مئیر کے یہ جملے اگر آج بولے گئے ہوتے تو سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھا دینے میں کامیاب ہو جاتے آج سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں ہے اور نہ کیا جا سکتا ہے لوگوں کا روایتی میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا پر اعتبار بڑھ گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان کے دسترس میں ہے یہاں وہ کسی سے کسی بھی وقت سوال کر سکتے ہیں ثبوت مانگ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ بات کرنے والا کتنا معتبر اور اس کی بات میں کس قدر وزن ہے لہٰذا دنیا بھر کے اور پاکستان کے عوام کے لیے سوشل میڈیا خصوصاً ٹویٹر ایک نئی طاقت اور ایک نیا ہتھیار ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں اسرائیل سوشل میڈیا اسرائیل کی انہوں نے اور اس کے لیے
پڑھیں:
غزہ کی زمین پرترکیہ کے کسی فوجی کا پاؤں نہیں لگےگا؛اسرائیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تل ابیب: اسرائیلی وزیراعظم آفس کی ترجمان کا کہنا تھا کہ غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگےگا۔
ترجمان شوش بیڈروسیئن نے اسرائیل کے مؤقف کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے واضح کیا ہےکہ غزہ میں تعینات کی جانے والی بین الاقوامی فورس میں ترکیے کے فوجی دستوں کے شامل کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس سلسلے میں امریکا پر بھی واضح کرچکا ہے کہ غزہ میں تعینات ہونے والے فوجی دستوں میں ترکیے کی فوج کو بالکل قبول نہیں کیا جاسکتا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی اسرائیل نے کہا تھا کہ وہ امریکی منصوبے کے تحت غزہ میں ترک فوج کی موجودگی کو قبول نہیں کرےگا۔