غزہ، انسانیت کا امتحان
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
غزہ میں حماس کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ غزہ پوری امت کا زندہ ضمیر اور آواز ہے جو قابض اسرائیل کے جارحانہ مظالم کے سامنے ثابت قدم ہے۔ دوسری جانب ترکیے نے غزہ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب پر نیتن یاہو اور وزیر دفاع سمیت اسرائیل کے 37 عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کے یہودی آبادکاروں نے گزشتہ ماہ اکتوبر کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف کم از کم 264 حملے کیے، جو کہ 2006 سے اب تک ایک ماہ میں ہونے والے حملوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب بظاہر جنگ بندی ہوچکی ہے، لیکن اسرائیل کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے، یہ پوری انسانیت کی غیرت کا امتحان ہے۔ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے درست کہا کہ ’’غزہ پوری امت کا زندہ ضمیر ہے۔‘‘ درحقیقت یہ وہ زمین ہے جو کئی دہائیوں سے ظلم، بربریت اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں، عالمی ادارے اور انسانی حقوق کے علمبردار سب دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک جدید ریاست اپنی عسکری قوت کے نشے میں بے گناہ انسانوں پر بم برسا رہی ہے، مگر ضمیر خاموش ہے۔
غزہ کی گلیوں میں اب زندگی نہیں، بلکہ درد، خوف، اور ملبے کے نیچے دبے خواب ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر ان ملبوں کے بیچ سے جو آواز بلند ہوتی ہے، وہ شکست کی نہیں بلکہ امید اور مزاحمت کی ہوتی ہے۔ فلسطینی عوام، جو پچھلے پچھتر برس سے مسلسل کرب اور قید کا سامنا کر رہے ہیں، آج بھی اپنے حقِ آزادی سے دستبردار نہیں ہوئے۔ ان کا یہ عزم، کہ ’’ ہم اپنی سرزمین اور خود مختاری کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے‘‘ دراصل انسانیت کے وقار کا استعارہ بن چکا ہے۔
گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے پر جو مظالم ڈھائے، وہ صرف انسانی حقوق کی پامالی نہیں بلکہ اجتماعی سزا کا ایک کھلا مظاہرہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امور (OCHA) کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینے میں مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں کے خلاف 264 حملے کیے جو کہ 2006 کے بعد کسی ایک مہینے میں ہونے والے حملوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ان حملوں کا نشانہ صرف مزاحمت کار نہیں، بلکہ کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، اسکول جاتے بچے، اور عبادت کرنے والے نمازی بھی ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مظالم کی فہرست اتنی طویل ہو چکی ہے کہ شاید تاریخ بھی اس کے بوجھ تلے دب جائے۔ اسپتالوں پر بمباری، اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے والے شہریوں پر حملے، بجلی، پانی، اور خوراک کی بندش، یہ سب کسی جنگی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ نسل کشی کے منظم منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل اپنی سفارتی طاقت، میڈیا کنٹرول اور لابنگ کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ وہ ’’ دفاعی جنگ‘‘ لڑ رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک محصور، غیر مسلح اور بھوکی آبادی پر آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے۔ اس حقیقت کو اسرائیلی اخبار ہاریٹز (Haaretz) نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل نے امریکی عوام اور سیاسی حلقوں میں اپنی حمایت برقرار رکھنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے۔ یعنی سچائی کو چھپانے، جھوٹ کو پھیلانے، اور ظلم کو جواز دینے کے لیے سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔
ایسے میں ترکیہ کا اقدام ایک روشن مثال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ترک عدالتوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، وزیر دفاع اور دیگر 37 اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ غزہ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف اخلاقی جرات کی علامت ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے دائرے میں ایک مضبوط پیغام بھی ہے کہ ظلم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، ایک دن انصاف ضرور بولے گا۔
یہ وارنٹ گرفتاری بظاہر علامتی معلوم ہو سکتا ہے، کیونکہ اسرائیلی قیادت کو فی الفور عدالت میں نہیں لایا جا سکتا، مگر اس کے اثرات گہرے ہیں۔ یہ ایک اخلاقی دباؤ ہے، ایک سفارتی چوٹ ہے اور ایک اصولی پیغام ہے کہ انسانیت کے مجرم کبھی امن و عزت سے نہیں رہ سکتے۔ ترکیہ نے دراصل وہ کردار ادا کیا ہے جو اقوامِ متحدہ اور عالمی فوجداری عدالت (ICC) کو ادا کرنا چاہیے تھا۔
یہ سوال اب پوری دنیا کے سامنے کھڑا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے کہاں ہیں؟ جب یوکرین میں جنگ ہوتی ہے تو دنیا بھر کی حکومتیں فوری قراردادیں منظور کرتی ہیں، پابندیاں لگاتی ہیں اور مظلوموں کی حمایت میں بیانات جاری کرتی ہیں، مگر جب غزہ میں بچے جلتے ہیں، عورتیں ملبے تلے دم توڑتی ہیں اور ہزاروں بے گھر لوگ صحرا میں بھٹکتے ہیں، تو وہی عالمی ضمیر گونگا، بہرا اور اندھا ہو جاتا ہے۔امریکا اور یورپ کی خاموشی دراصل ان کے دہرے معیار کا عکاس ہے۔
یہ ممالک آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے بڑے دعوے دار ہیں، مگر جب ظلم اسرائیل کی جانب سے ہو تو یہ اصول پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے مسلسل اسرائیل کو فوجی امداد، سیاسی پشت پناہی اور میڈیا سپورٹ فراہم کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک انسانی جانوں کی قیمت نسل، مذہب اور مفاد کے حساب سے مختلف ہے۔غزہ کے نوجوان، عورتیں اور بچے جن حالات میں جی رہے ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی انسان کے لیے ناقابلِ تصور ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے چہروں پر جو حوصلہ ہے، وہ دنیا کے بڑے بڑے حکمرانوں کے دعوؤں سے زیادہ مضبوط ہے۔ ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں، مگر ان کے دلوں میں وہ یقین ہے جو دنیا کی کسی فوج میں نہیں پایا جاتا۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلم دنیا کہاں کھڑی ہے؟ صرف بیانات، اجلاس اور مذمتی قراردادیں کافی نہیں۔ مسلم ممالک کے پاس وسائل ہیں، سفارتی اثر ہے اور عوامی حمایت ہے، مگر بدقسمتی سے ان میں اتحاد کی کمی اور عملی فیصلوں کا فقدان ہے، اگر مسلم ممالک اجتماعی طور پر اسرائیل کے خلاف سفارتی بائیکاٹ، معاشی پابندیاں یا عالمی عدالتوں میں مشترکہ مقدمات دائر کریں، تو عالمی سیاست کا توازن بدل سکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم دنیا اپنے اندر موجود سیاسی مفادات اور مسلکی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر فلسطین کے لیے ایک آواز بنے۔
ترکیہ کا قدم دیگر مسلم ممالک کے لیے ایک مثال ہے، اگر عرب دنیا، پاکستان، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا اور دیگر اسلامی ممالک متحد ہو جائیں تو کوئی طاقت اسرائیل کے ظلم کو روکنے سے قاصر نہیں رہے گی۔اس جنگ کا ایک اہم محاذ میڈیا بھی ہے۔ اسرائیل اور اس کے حمایتی عالمی میڈیا کے ذریعے بیانیہ (Narrative) پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغربی ذرایع ابلاغ اکثر اسرائیلی مظالم کو نظرانداز کرتے ہیں، اور فلسطینیوں کی مزاحمت کو ’’ دہشت گردی‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے اب مسلم دنیا کو اپنا میڈیا بیانیہ مضبوط بنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا، وڈیوز، اور آزاد صحافیوں کے ذریعے دنیا تک سچ پہنچانا ایک جہاد بن چکا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر رائے عامہ بدل رہی ہے۔ مغربی ممالک کے اندر بھی ہزاروں لوگ فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔ طلبا، اساتذہ، مصنفین اور حتیٰ کہ یہودی سماجی کارکن بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم کے خلاف انسانی ضمیر ابھی مکمل طور پر مرا نہیں۔تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ ظلم ہمیشہ وقتی ہوتا ہے، اور مظلوم کی صدا دیر سے سہی مگر ضرور سنی جاتی ہے، آج اگر اسرائیل طاقت کے نشے میں غزہ کو مٹا دینا چاہتا ہے تو کل یہی طاقت اس کے زوال کا سبب بنے گی۔ نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ترکیہ کے وارنٹ گرفتاری محض ایک قانونی کارروائی نہیں بلکہ ایک علامت ہے، اس بات کی کہ مظلوم کے لیے دنیا میں ابھی بھی کچھ ضمیر زندہ ہیں۔
غزہ کی داستان ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ آزادی کوئی خیرات نہیں، بلکہ قربانیوں سے حاصل ہونے والا حق ہے۔ فلسطینیوں نے اپنی جان، مال، نسل، اور خواب قربان کیے، مگر جھکے نہیں۔ یہ عزم، یہ استقامت، اور یہ ایمان دنیا کے لیے ایک آئینہ ہے۔
دنیا کے حکمرانوں، اداروں، اور عوام کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ تاریخ کے کس جانب کھڑے ہیں، مظلوموں کے ساتھ یا ظالموں کے ساتھ۔ خاموشی بھی جرم ہے، اور بے حسی بھی شریکِ ظلم۔یہ جدوجہد جاری رہے گی، کیونکہ حق دب سکتا ہے، مٹ نہیں سکتا۔ ظلم جیت سکتا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔ ایک دن غزہ کے افق پر بھی سورجِ آزادی طلوع ہوگا اور اس دن دنیا دیکھے گی کہ مظلوم کی دعا ظالم کی تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وارنٹ گرفتاری اور انسانی اسرائیل کے انسانیت کے نہیں بلکہ کے لیے ا دنیا کے سکتا ہے کے خلاف ہوتی ہے رہے ہیں ہے کہ ا اس بات
پڑھیں:
امن مسلط کرنے کا منصوبہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اسکے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کرینگے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے چند گھنٹے بعد کہ غزہ میں بہت جلد بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی جائے گی، اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی تمام سرنگوں کو "آخری سرنگ تک" تباہ اور ان کا صفایا کر دیں۔ کاٹز نے اپنے X پلیٹ فارم اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا: "اگر سرنگیں نہیں ہیں تو حماس نہیں ہوگی۔“ اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرکے اور اس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرکے اسے شکست دینا چاہتا ہے۔ یعنی اسرائیل وہ کام کرنا چاہتا ہے، جو وہ دو سال کی تباہ کن جنگ کے دوران کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کاٹز کا یہ بیان غزہ کی پٹی میں ایک "بین الاقوامی انفورسمنٹ فورس" کے قیام کی امریکی تجویز اور ٹرمپ کے اس اعلان کی روشنی میں آیا ہے کہ "یہ کام بہت جلد ہو جائے گا۔"
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی فوج نے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے قبل، زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں اپنا کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل دوسرے مرحلے میں جانے سے پہلے غزہ میں باقی تمام لاشوں کی بازیابی پر اصرار کرتا ہے اور 2027ء کے آخر تک غزہ میں کم از کم دو سال کے لیے بین الاقوامی افواج کی تعیناتی بھی چاہتا ہے۔ بین الاقوامی فورس کے اس امریکی منصوبے کے تحت اس فورس کے دائرہء مسئولیت میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا، شہریوں اور انسانی راہداریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کے ساتھ تربیت اور شراکت داری اور غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرکے سلامتی کے ماحول کو مستحکم کرنا، بشمول فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو روکنا اور مستقل طور پر مسلح گروپوں کو تباہ کرنا شامل ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر حماس رضاکارانہ طور پر خود کو غیر مسلح نہیں کرتی تو یہ کام بین الاقوامی فورس کرے گی، لیکن اسرائیل کو یقین نہیں ہے کہ یہ کام بین الاقوامی طاقت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ کاٹز کے بیان سے پہلے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا ہدف "یا تو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے آسان طریقے سے حاصل کیا جائے گا، یا پھر اسرائیل کے ذریعے مشکل راستے سے۔" دوسری جانب اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کی جمعرات کی شام ہونے والی میٹنگ سے "یڈیوٹ احرونوت" اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے اقتباسات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے "یلو زون" میں ایک ماڈل سٹی بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس کا مقصد انہیں حماس کے جنگجوؤں سے الگ کرنا ہے۔
دریں اثناء، اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے رفح سرنگوں میں پھنسے حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کسی بھی "ڈیل" کو مسترد کر دیا ہے اور تمام مقتول قیدیوں کی لاشوں کی واپسی سے پہلے حماس کے ساتھ معاہدے کے اگلے مرحلے پر آگے نہ بڑھنے اور حماس کے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے سے پہلے پٹی کی تعمیر نو کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ ضمیر نے کابینہ کے اجلاس میں حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کہا: "یا تو وہ ہتھیار ڈال دیں یا ہم انہیں ختم کر دیں گے۔ بحث کے دوران وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزراء کے درمیان اس وقت تنازعہ پیدا ہوا، جب انہوں نے غزہ کی پٹی کے اسرائیلی زیر کنٹرول علاقے میں ایک "ماڈل سٹی" قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد حماس کو آبادی سے الگ کرنا تھا۔
نیتن یاہو کے اس منصوبے کی اس کی کئی وزراء نے مخالفت کی۔ سائنس کے وزیر گیلا گیملیل نے کہا، "یہ خطرناک ہے۔" وزراء نے مطالبہ کیا کہ اس شہر کو سرحد کے اس طرف اسرائیل کے زیر کنٹرول نہ بنایا جائے۔ نیتن یاہو نے سیشن میں یہ بھی انکشاف کیا کہ منصوبہ بند بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس پہلے المواسی کے علاقے میں داخل ہوگی، جو اسرائیلی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اسرائیل اب تک عالمی طاقت کے ساتھ محتاط انداز میں نمٹ رہا ہے، نہ اس کا خیرمقدم کر رہا ہے اور نہ ہی اسے مسترد کر رہا ہے۔ اگرچہ مجوزہ فورس کی تشکیل کی تفصیلات اس کے مطالبات کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں، لیکن اس پر تحفظات بھی ہیں۔
اسرائیل نہیں چاہتا کہ یہ فورس سلامتی کونسل کے ذریعے تشکیل دی جائے، وہ فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی اور ترک افواج کی ممکنہ موجودگی کو بھی مسترد کرتا ہے، تاہم فلسطینی پولیس فورس کی موجودگی سے اتفاق کرتا ہے۔ اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اس کے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کریں گے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔