Jasarat News:
2025-11-09@21:52:28 GMT

غزہ کے سائے میں دنیا: امن معاہدوں سے آگے کی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-03-7

 

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

 

 

امن معاہدوں اور عالمی سفارتی کوششوں کے باوجود، مشرقِ وسطیٰ کی فضا اب بھی بارود کے بادلوں سے اٹی ہوئی ہے۔ غزہ میں انسانی المیہ شدت اختیار کر چکا ہے، خان یونس اور رفح کے اطراف مذاکرات، لاشوں کے تبادلے اور ہتھیار ڈالنے کی خبریں ایک نئے دور کے آغاز یا انجام کا عندیہ دے رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ واقعی امن کا پیش خیمہ ہے یا ایک نئے تصادم کی تمہید؟ اس تنازعے کی تازہ لہر میں جہاں آبدیدہ مناظر اور زخم ِ انسانی روزِ روشن کی مانند واضح ہو رہے ہیں، وہیں عالمی جغرافیائی سیاست کے نئے متوازی انعکاسات بھی نمودار ہو رہے ہیں۔ غزّہ کی زمینی حقیقت، بین الاقوامی ہنگامی امداد کی روانی، عسکری تصفیہ کے امکانات اور علاقے میں سفارتی حرکاتِ قلب یہ تمام عوامل ایک ساتھ مل کر نہ صرف مقامی بحران کو طول دے رہے ہیں بلکہ خطّے کے مستقبل کے متعلق سوالات کو بھی گہرا کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے انسانی پہلو پر نگاہ ڈالیں۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹوں کے مطابق یکم اکتوبر کے بعد سے غزّہ میں امدادی قوافل کی منظوری میں رکاوٹیں واضح ہو چکی ہیں صرف ایک عرصے میں ایک سو سے زائد امدادی درخواستیں مسترد کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں بنیادی ادویہ، خوراک اور طبی سامان کی شدید کمی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک صاف اشارہ ہیں کہ جنگی کارروائیوں کے علاوہ رسدی اور لوجسٹک رکاوٹیں بھی انسانی المیے کو گہرا کر رہی ہیں۔ دوسری جانب عسکری میدان میں صورتحال پیچیدہ مگر فیصلہ کن ہے۔ خان یونس اور رفح کے اطراف میں پھنسے ہوئے حماس کے جوانوں کے بارے میں محورِ ثالثت مصر، قطر اور بعض بین الاقوامی طرافوں کی تجویز کردہ ڈیل نے ایک عملی سوال کھڑا کیا ہے: کیا عسکریت پسندوں کی منظم طور پر ہتھیار ڈال کر محفوظ راستے کے ذریعے نکلنے کی طوالت خطے میں پائیدار امن کی شروعات بن سکتی ہے، یا یہ محض وقتی حل ہے جو مستقبل کے شعورِ جنگ کو کمزور کر دے گا؟ صحافی اور سفارتی رپورٹوں کے مطابق مذاکرات میں اس امر کا امکان زیر ِ غور ہے کہ کچھ سو جنگجو ہتھیار ڈال کر دوسرے حصّوں میں منتقل کیے جائیں، البتہ یہ عمل نہایت حساس اور سیاسی دباؤ سے گِھرا ہوا ہے۔ اس پر ایک اخلاقی اور عملی الجھن بھی ہے۔ جب جنگجوؤں کی حوالگی یا جسمانی لاشوں کی تبادلے کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں تو یہ انسانی وجدان کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ القسام بریگیڈز کی طرف سے قیدی کی لاش کی حوالگی کا اعلان ایک ایسے سانحے کی یاد دہانی ہے جہاں جنگ، قیدیوں کی تقدیر اور بین الاقوامی قواعد ِ جنگ کا سوال ایک ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے ان معاملات کا حل محض عسکری نہیں، بلکہ انسانی اور قانونی فریم ورک سے بھی جڑا ہوا ہے۔

فلسطینی مغربی کنارے میں آبادکاروں کے حملوں اور زیتون کے باغات کو نقصان پہنچانے کے واقعات ایک طویل المدتی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ زمین، زراعت اور روزگار پر قبضے کے عمل سے مقامی معاشی ڈھانچے تباہ ہو رہے ہیں، جو بالآخر سماجی تناؤ اور اشتعال کو جنم دیتا ہے۔ زیتون کے درخت صرف زرعی اثاثہ نہیں؛ وہ ثقافتی اور تاریخی شناخت کا حصہ ہیں۔ ان درختوں کی کٹائی یا آگ لگانا محض ایک کرائم نہیں بلکہ ایک قوم کی جڑوں کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور اس کا طویل مدتی اثر خوراک کی خود کفالت، اقتصادی بقا اور دیہی سماجی بندھنوں پر پڑے گا۔ عالمی سفارت کاری کا ایک نیا موڑ بھی اسی دوران دیکھنے میں آیا ہے: قازقستان کا ’ابراہیمی معاہدات‘ میں شمولیت کا فیصلہ نہ صرف خطّے میں اسرائیل کے لیے سفارتی حمایت کی علامت ہے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے گرد موجود روایتی اتحاد اور مخالفت کی لکیریں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں بین الاقوامی سیاست میں ایک نئی حقیقت جو بعض ریاستوں کو بطور توازن یا مفاداتی تعلقات کی تشکیل میں مواقع فراہم کرتی ہے کے طور پر سامنے آ رہی ہیں، مگر اسی کے ساتھ یہ فلسطینی مسئلے کے حوالے سے عالمی تقسیم کو بھی پیچیدہ بناتی ہیں۔

ان تمام منظرناموں کے تناظر میں چند نکتے واضح طور پر ابھرتے ہیں۔ اولاً، انسانی امداد کے روٹس اور شفافیت پر مشتمل بین الاقوامی معاہدات کو فوراً قابل ِ عمل بنایا جائے اقوامِ متحدہ اور دیگر فلاحی اداروں کو ایسا طریقۂ کار ملنا چاہیے جو سیاسی دباؤ کے بغیر فوری امداد پہنچا سکے۔ ثانیاً، عسکری حل اگرچہ وقتی مقاصد پورے کر سکتے ہیں مگر طویل المدت امن تبھی ممکن ہے جب سیاسی شمولیت، انصاف اور خصوصاً مقامی سماجی و اقتصادی بحالی کو مرکز ِ توجہ بنایا جائے۔ ثالثاً، خطّے میں سفارتی نقل و حرکت، جیسا کہ نئے معاہدات یا قوموں کی شمولیت، مسائل کا حل بھی لا سکتی ہے اور انہیں قومی تشخص اور مقامی مطالبات سے علٰیحدہ بھی کر سکتی ہے اس لیے بین الاقوامی برادری کو توازن اور شفافیت کے ساتھ اپنی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔ آئندہ کے امکانات پر نظر دوڑائیں تو ایک حقیقت واضح ہے: اگر امداد کا سلسلہ بحال نہ ہوا، اور اگر زیتون کے باغات، زرعی زمینیں اور شہری بنیادی ڈھانچے کی تباہی جاری رہی تو انسانی بحران مزید سنگین ہوگا خوراک، صحت اور پناہ گاہ کے مسائل طویل عرصے تک خطّے کو عدم استحکام کے دائرے میں بند رکھیں گے۔ دوسری طرف اگر مذاکرات کے ذرائع کو مضبوط، شفاف اور بین الاقوامی مانیٹرنگ کے تحت لایا جائے تو محدود مگر ضروری وقفے اور قیدیوں کے تبادلوں کے ذریعے عارضی ریلیف ممکن ہوسکتا ہے، جو بعد ازاں سیاسی عمل کی راہ ہموار کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک فوجی یا سفارتی مسئلہ نہیں؛ یہ ایک جامع انسانیت، انصاف اور بین الاقوامی ضابطوں کا امتحان ہے۔ جب تک امدادی رسائی کے دروازے کھلے نہیں ہوں گے، اور جب تک مقامی آبادی کی معاشی و سماجی بحالی کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی موجود نہیں ہوگی، خطّہ دیرپا امن کی جانب نہیں بڑھ سکے گا۔ عالمی طاقتیں، علاقائی کھلاڑی اور اقوامِ متحدہ سب کو ایک مشترکہ روئے کار کے تحت انسانی زندگی کی بقا اور قانونی اصولوں کی پاسداری کو مقدم رکھنا ہوگا؛ ورنہ ماضی کے گھاؤ بارہا اسی نسل کے کالبد پر سرایت کرتے رہیں گے۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی رہی ہیں رہے ہیں

پڑھیں:

سوڈان کے شہر الفاشر میں قتل و غارت کی انتہا، اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خرطوم: اقوام متحدہ کے دفترِ برائے انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان کا شمالی دارفور کا شہر الفاشر اب  غم کا شہر  بن چکا ہے، جہاں پچھلے دس دنوں کے دوران ظلم وجبر پر مبنی حملوں میں خوفناک اضافہ ہوا ہے اور شہری ناقابلِ تصور مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے انسانی حقوق لی فانگ نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے محصور اور تشدد کا سامنا کرنے والے الفاشر کے شہری اب ایسی ہولناک ظلم وجبر جھیل رہے ہیں جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں خواتین، بچے اور زخمی شہری بھی شامل ہیں جو اسپتالوں اور اسکولوں میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہاکہ  پورے پورے خاندان فرار کے دوران مارے گئے، جبکہ کئی افراد لاپتہ ہو گئے ہیں، ہزاروں شہری، صحافی اور طبی عملہ حراست میں لیا جا چکا ہے، اور جنسی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، الفاشر سے نکلنے کا کوئی محفوظ راستہ باقی نہیں رہا، بزرگ، معذور، بیمار اور زخمی افراد شدید خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ نے واضح کیا کہ الفاشر میں پیش آنے والے واقعات کو محض انتشار نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ انسانی زندگی اور وقار پر ایک منظم حملہ ہے، جو اکثر نسلی بنیادوں پر کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کا دفتر مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کی دستاویز بندی جاری رکھے ہوئے ہے، حالانکہ مواصلات کے نظام میں رکاوٹیں اور زمینی رسائی میں مشکلات درپیش ہیں۔

لی فانگ نے عالمی برادری سے فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ الفاشر لہولہان ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ دنیا حرکت میں آئے، تشدد بند کیا جائے، شہریوں کو تحفظ دیا جائے، متاثرین کو امداد اور انصاف فراہم کیا جائے۔ ذمہ داروں کا احتساب ہی ان مظالم کے اعادے کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

واضح رہے کہ 26 اکتوبر کو نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF)  نے الفاشر پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے دوران مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق عام شہریوں کے قتلِ عام کے واقعات پیش آئے۔

یاد رہے کہ 15 اپریل 2023 سے سوڈانی فوج اور RSF کے درمیان جاری جنگ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ امن مذاکرات اب تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • استنبول مذاکرات؛ پاکستان نے پاک افغان تعلقات کا مکمل پس منظر شواہد کیساتھ دنیا کے سامنے رکھ دیا
  • سوڈان کے شہر الفاشر میں قتل و غارت کی انتہا، اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش
  • یاسین ملک کی جان بچانے میں مدد کی جائے‘ مشال ملک کا ٹرمپ کوخط
  • حسن ناصرکی کمیونسٹ ’’ تپش‘‘
  • مشعال ملک کا صدر ٹرمپ کو خط، شوہر سے انصاف کے لیے مدد مانگ لی
  • امن مسلط کرنے کا منصوبہ
  • کشمیریوں سے متعلق منفی پروپیگنڈے کی کوئی حقیقت نہیں، وفاقی وزرا
  • کشمیریوں کیخلاف پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں: حکومت
  • قازقستان کا ‘ابراہیم معاہدوں’ میں شمولیت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کا عندیہ