data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

(فائل فوٹو)

 اسلام آباد:۔ بھارتی جیل میں قید کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال حسین ملک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یاسین ملک کی رہائی میں مدد کی اپیل کی ہے۔

 ڈونلڈ ٹرمپ کے نام اپنے خط میں مشعال حسین ملک نے کہا ہے کہ یاسین ملک کی جان بچانے کے لیے انسانی بنیادوں توجہ کی ضرورت ہے۔ مشعال حسین ملک نے خط وائٹ ہاﺅس پورٹل کے ذریعے بھےجا ہے۔

 خط میں انہوں نے یاسین ملک کے لیے عالمی مداخلت اور انصاف کی درخواست کی ہے اور لکھا ہے کہ بھارتی عدالتوں سے انصاف کی امید نہیں، یاسین ملک کی زندگی خطرے میں ہے، یاسین ملک کو فوری طبی سہولت اور قانونی حقوق دیے جائیں۔ یاسین ملک نے ہمیشہ امن اور مکالمے کا راستہ اختیار کیا یہ سیاست نہیں، ایک بیوی اور ماں کی انسانی اپیل ہے، اگر جان بچی تو یہ امن نہیں، دلوں کا نوبل ہوگا۔

انہوں نے خاندان کے ملاپ اور انسانی عظمت کے احترام کی درخواست کی ہے، مشعال حسین ملک نے یاسین ملک کے لیے سزائے موت کی 10 نومبر کو ہونے والی عدالتی کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ویب ڈیسک.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مشعال حسین ملک نے یاسین ملک کی کے لیے

پڑھیں:

مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔

مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں  اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔

ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔

اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔

سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔

قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • جنوبی افریقہ میں جی 20 اجلاس میں کوئی امریکی عہدیدار شریک نہیں ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • نومبر اور دسمبر کے مہینے نہایت اہم ثابت ہوں گے، منظور حسین وسان
  • اسرائیلی جارحیت میں نئی شدت: غزہ میں سرنگوں کی فوری تباہی کا حکم
  • مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
  • ملیر کینٹ میں زیرِ زمین کھدائی کے دوران انسانی ڈھانچہ برآمد
  • امریکی عوام کے ٹیکسز مزید اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ پر خرچ نہیں ہونے چاہیے، ٹریبیون
  • یورپی یونین کا سوڈان میں ریپڈ سپورٹ فورسز کے مظالم پر سخت ردعمل
  • زہران ممدانی، ٹرمپ کا ڈراؤنا خواب اور امریکی نظام کے اختتام کی علامت
  • زهران ممدانی، ٹرمپ کا ڈراؤنا خواب اور امریکی نظام کے اختتام کی علامت