حسن ناصرکی کمیونسٹ ’’ تپش‘‘
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
آج جب کمیونسٹ نکتہ نظر سے جڑے ہوئے فطرت اور سماج کے دکھوں کے احساس مند ناول نگار منظور تھہیم جب کمیونسٹ تحریک کی جدوجہد پر مبنی ناول ’’ تپش‘‘ پر مضبوط ارادوں کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ’’ ہمارے اندرکمیونسٹ نظریہ ہمارا آدرش اور ہماری جدوجہد کی تپش ابھی تک اسی طرح زندہ ہے، جس طرح کمیونسٹ نظریہ اور دنیا کا آخری استحصال زدہ انسان۔
ہم کل بھی کمیونسٹ فکر اور فلسفے کے ساتھ تھے اور ھم آج بھی اسی فکر و فلسفہ کے ساتھ ہیں جو ایک روز ضرور غیر استحصالی سماج کی نوید سنائے گا۔‘‘ تپش کے ناول نگار منظور تھہیم کا یہ حوصلہ اور جذبہ مجھے کامریڈ حسن ناصر کی اس عملی، فکری جدوجہد کی طرف لے گیا، جس کے چند کردار اس کے ناول تپش کا مرکزی حوالہ تھے۔
مجھے یاد آیا کہ حسن ناصر کمیونسٹ آدرش کا وہ پالنہار تھا، جس نے پسے ہوئے طبقات کے انسانوں کو استحصال سے آزاد کرانے کا خواب دیکھا تھا، اسے اس کے کمیونسٹ نظریاتی آدرشوں نے سمجھایا تھا کہ دولت مندوں کے ارتکاز دولت کا سرمایہ دار ہی عام طبقات کے انسانی اور سماجی حقوق غصب کرنے کا وہ ظالم طبقہ ہے جو اپنے سرمائے کی استحصالی طاقت سے محروم طبقات کی خواہشات اور روٹی چھیننے کے گورکھ دھندے میں عام انسان کو قید کر کے اس سے تعلیم روزگار اور بہتر آسائشات حاصل کرنے کا حق چھین رہا ہے اور عام فرد کو دولت کا نفسیاتی مریض بنانا چاہتا ہے۔
حسن ناصرکو مارکس کے کمیونسٹ فلسفہ نے سمجھا دیا تھا کہ جب تک دنیا کے عام انسان میں دولت کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوگی، اس وقت تک مخصوص ہاتھوں میں جمع شدہ دولت اپنے سرمائے کی طاقت سے انسانی احساسات اور اس کی محنت و صلاحیت کو چباتا رہے گا، اسے معلوم تھا کہ جب تک غیر منصفانہ سرمایہ کا راج ختم نہیں کیا جائے گا، قحط، تنگ دستی، محرومی، بہتر تعلیم و صحت کے منصفانہ حصول سے انسان کو محروم کیا جاتا رہے گا۔
وہ جانتا تھا کہ سرمائے کی طاقت کسی طور ایک عام فرد کو اس کے سیاسی سماجی اور انسانی حقوق اس وقت تک فراہم نہیں کرے گی جب تک انسانی شعور کا آتش دان کمیونسٹ نظریات سے سلگایا نہ جائے گا اور کمیونسٹ نظریاتی و سیاسی شعور کی تپش اس وقت ہی اجتماعی طور پر لوٹ کھسوٹ کے سرمائے کو بھسم کر پائے گی جب اس کی نظریاتی ’’ تپش‘‘ میں کمیونسٹ شعورکی حرارت ہوگی۔
یہی وہ وجہ تھی کہ اس نے اپنی زندگی کو عام انسان کے احساس سے جوڑا اور سماج کے پسے ہوئے تمام طبقات کی منڈلیاں بنائیں اور ان منڈلیوں میں امید اور حوصلے کے سیاسی شعورکے وہ دیپ جلائے جو سرمائے کے استحصال کرنے والوں کا ڈراؤنا خواب بن گئے، پھر بے رحم اور انسان کُش طاقت کے خداؤں نے محروم طبقات کو مذہب، لسان اور برادری میں تقسیم کیا۔
ان میں رسم و روایات کی فرسودہ خاک ڈال کر ان کی سیاسی و سماجی شعورکی کھیتی کو بانجھ کرنے کی خاطرکمیونسٹ نظریے کو انسانوں کے رسم و دھرم اور اعتقادات کا وہ دشمن بنا کر پیش کیا، جس نے غیر تعلیم یافتہ کو سرمائے کا ایندھن بننے اور دو وقت کی روٹی کے حصول کا غلام بنا دیا۔
میں سوچتا ہوں کہ عیش و عشرت میں پلے بڑھے اور تمام تر آسائشات کے حامل حسن ناصرکوکیا ضرورت تھی کہ وہ تلنگانہ تحریک سے جڑ کر کمیونسٹ فکرکا پرچارک ہوا، تمام تر وسائل سے مالا مال حسن ناصر کے دل میں کس نے انسانی ناانصافی اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کا خیال تو ڈالا ہی ہوگا۔
مخدوم محی الدین نے تو اس بانکے حسن ناصر کی تحریکی امنگ کو جانچ لیا تھا، تبھی تو مخدوم محی الدین نے اسے تلنگانہ جدوجہد سے جوڑا اور جب حسن ناصر سیاسی طور سے متحرک ہوا تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی کمیونسٹ تربیت میں وہ سر فروش نکلا جو بعد کو انسان کو استحصال سے نجات دلانے والے کمیونسٹ فلسفے کا ایسا محافظ بنا کہ ساری زندگی مزدور، کسان اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق دلانے کی جنگ میں جتا رہا۔
کمیونسٹ جدوجہد اور عمل کے دوران حسن ناصر نے نہ دن دیکھا نہ رات، بس اپنے کمیونسٹ فلسفے کے ذریعے انسانی استحصال کی ہر زنجیر توڑنے پر جت گیا،کمیونسٹ فلسفے کو انسانی نجات کا موثر ہتھیار بنانے کے لیے اس نے زمانے کے مد و جزر کے مطابق خود کو بطور کمیونسٹ ڈھالنے کا وہ عمل جاری رکھا جو اس وقت اور حالات کی ضرورت تھا۔
وہ تو اپنے تخلیقی ذہن کے خواب کی تعبیر کے لیے جب کبھی گنگنایا تو اس کے احساسات نے اس سے غزل کہلوا دی، جہاں حسن ناصر سخت جان اور مصمم ارادے کا فرد بنا وہیں اس کے محروم طبقات میں رچنے بسنے نے اس کے اپنے گداز احساسات کا اظہار بھی پیدا کیا کہ۔
وہ چاند جو اترا ہے کسی اورکے گھر میں
مجھ کو تو اندھیروں سے رہائی نہیں دے گا
خود اپنی زبانوں سے لہو چاٹنے والو
ظالم تو ستم کر کے دہائی نہیں دے گا
سہمی ہے سماعت کہ کوئی لفظ ہی گونجے
اک شور کہ پھر کچھ بھی سنائی نہیں دے گا
دہلیز کے اس پار بھی پہنچے گا بالآخر
کب تک یہ لہو اس کو دکھائی نہیں دے گا
جو شخص کمائے گا، وہی کھائے گا ناصرؔ
اوروں کو کوئی اپنی کمائی نہیں دے گا
سوال یہ نہیں کہ پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جنگ میں کس نے 13 نومبر کے دن موت کا جام پیا۔ سوال یہ ہے کہ حسن ناصر ایسے کتنے کمیونسٹ علم و فلسفے کو زمانے کی تبدیلی میں ڈھال سکے اور انھوں نے انسانی بقا کی سلامتی میں کتنا کمیونسٹ فلسفہ پڑھا سمجھا یا اس پر عمل کیا۔
یہ کہنا کسی طور غلط نہیں کہ حسن ناصر نے ساری زندگی عملی کمیونسٹ سیاست کی، سماج کے عام فرد سے جڑا، نہ صلے کی تمنا کی نہ کسی خوف کا شکار ہوا، بلکہ ایوبی قہرکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لال قلعے کی عقوبت گاہوں کے تشدد سہے اور استقامت سے کمیونزم کے نکتہ نظر کے علم کو سر نگوں نہ ہونے دیا۔
کیا منظور تھہیم کا ناول ’’ تپش‘‘ حسن ناصرکے کمیونسٹ فلسفے کا دم بھرنے والوں میں کمیونسٹ جدوجہد کی وہ جوت جگا پائے گا جس کی ’’ تپش‘‘ مارکسزم کے داعی افراد کو این جی اوز اور خراج عقیدت کی تقریبات سے دور رکھ کر حسن ناصر کے عملی کام کے لیے پھر سے جوڑے اورکمیونزم کی سچائی ماننے والے پھر سے مزدور،کسان اور محروم۔ طبقات میں جاکر سیاسی منڈلیاں بنائیں،کمیونزم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔
عام فرد کی بھوک افلاس، ٹپکتی چھت کو محفوظ کر پانے کی عملی جدوجہد کریں یا صرف ترقی پسندی کے خوشنما سہارے کی بنا پرکمیونزم کو دھوکے میں رکھ کر حسن ناصرکی قربانی کا جزیہ انسانی حقوق، مزدور یونین کے نام پر سرمایہ داروں سے لیتا رہے گا۔ یہی وہ سوال و فکر تھی جو زیبسٹ یونیورسٹی میں تپش ناول کا مرکزی حوالہ تھی اور سوچنے والوں کے لیے چنگھاڑتا سوال۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پسے ہوئے طبقات کے نہیں دے گا کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
27ویں آئینی ترمیم آئین کو متنازع بنا دے گی: راجہ ناصر عباس
حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم آئین کو متنازع بنا دے گی، یہ ترمیم آئین پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ پاکستان کی نمائندہ نہیں ہے، ترمیم سے پارلیمنٹ کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔
راجہ ناصر عباس کا کہنا ہے کہ کس چیز کی جلدی ہے، دو دن میں ترمیم پر فیصلہ کرنے کا کیوں کہہ رہے ہیں، 1973 میں جو آئین آیا وہ نئے پاکستان کا تھا، 18ویں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے بنایا۔
یہ بھی پڑھیے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دینے کی تجویز، 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آگیاانہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر کیسے لوگوں کو اٹھایا گیا، دھمکی دی گئی، پارلیمنٹ کا مذاق اڑایا، 26ویں آئینی ترمیم نے آئین کو متنازع بنایا۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کردیا جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بل قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے سپرد کردیا۔
اس سے قبل آج وزیراعظم شہباز شریف نے آذربائیجان کے شہر باکو سے بذریعہ ویڈیو لنک وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی تھی، جس میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دیدی گئی تھی۔