ستائیسویں ترمیم کے پروپوزل پر وزیراعظم اور بلاول بھٹو کے درمیان مذاکرات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس جاری ہیں۔ ترمیمی مسودے پر ڈیڈ لاک برقرار ہے، البتہ آرٹیکل 243 میں ترمیم کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے اپنی رضا مندی ظاہرکردی ہے۔
یہ ابھی تک معلوم نہیں کہ اس آرٹیکل کی کونسی شق میں،کونسی ترمیم کی جائے گی یا کیا نئی ترمیم متعارف کی جائے گی؟ اس لیے اس پرکوئی تفصیلی بحث نہیں کی جاسکتی۔ جو ترمیم 243 میں کی جارہی ہے، وہ مسودہ ہمارے سامنے ابھی تک آیا نہیں ہے، صرف قیاس آرائیاں اور مفروضے ہیں جن پر بحث کرنا قبل از وقت ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ آئین میں ترامیم کا پوری سیاست، سماج، عدلیہ اور تمام اداروں پر اثر پڑتا ہے، وہ چاہے منفی ہو یا مثبت۔ ہماری 78 سال کی تاریخ اور آئینی بحران ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
ہم چھبیس سال تک ملک کو آئین نہ دے سکے اور وہ جو دو آئین ہم نے دیے ایک 1956 اور1962دونوں آئین کے مروج تقاضوں پر پورے نہیں اترتے تھے اور جب اس بحران سے یہ ملک دولخت ہوا تو تب جا کے ہم نے ہوش کے ناخن لیے اور اس ملک کو ایک جامع متفقہ اور بین الاقوامی آئین کے تقاضاؤں کو پورا کرتا ہوا ایک آئین دیا۔
لیکن پھر ہم اس آئین پرکھڑے نہ ہوسکے، ملک کے اندر دو آمریتیں آئیں اور باقی بچی جمہوریت، یعنی جو جمہوریتیں آئیں وہ کمزور تھیں اور بلآخر اس آئینی بحران سے یا یوں کہیے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے ایک انتہائی کمزور جمہوریت نے جنم لیا جس کو ہم ہائبرڈ جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں۔
پاکستان کی جمہوری قوتیں جو آمریتوں کو روکنے کا دعویٰ کرتی تھیں یا ہیں، ہر سیاسی بحران میں اپنی بقاء کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کی طلب گار ہوگئیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے، اس ملک میں شفاف انتخابات ممکن نہیں رہے، پاکستان میں ایک ہی انتخابات کو شفاف کہا جاتا ہے ، وہ تھے 1970 کے جس کے نتائج کو ہم نے قبول نہیں کیا اور باقی تمام نتائج کسی نہ کسی حوالے سے اختلافی رہے۔
عام انتخابات کس طرح ہوتے ہیں، کون کیسے کامیاب ہوتا ہے، اس پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ہماری جمہوری قوتوں نے بھی وہی راستہ اپنایا، جو وقت کی مناسبت سے انھیں سوٹ کرتا ہے۔ اب یہ اسمبلی جس میں جو لوگ منتخب ہو کر آئے ہیں،کیا وہ بھی اسی انداز سے آئے ہیں جس طرح ہوا کا رخ بتاتا ہے۔
آئین میں ترامیم کرنا تکراری نہیں ہوتا، سوال یہ ہے کہ آئین میں کونسی ترامیم کی جا رہی ہیں، اگر ترامیم خود آئین کو بہترکرتی ہیں جس میں انسانی حقوق اور واضح ہوتے ہیں جس میں صوبائی خود مختاری اور مضبوط ہوتی ہے جس میں عدلیہ اور آزاد ہوتی ہے، جس میں جمہوریت اور پروان چڑھتی ہے تو ایسا عمل خوش آیند ہے۔
اس کے برعکس اگر انسانی حقوق چھینے جاتے ہیں، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگائے جاتے ہیں۔ صوبائی خود مختاری یا عدلیہ کی آزادی چھینی جاتی ہے تو ایسی ترامیم نہ صرف آئین میں بگاڑ پیدا کرتی ہیں بلکہ سماجی و سیاسی اعتبار سے ملک کو پیچھے کو دھکیلتی ہیں، جس کے اثرات براہ راست ہماری معیشت پر پڑتے ہیں۔
ہماری بین الاقوامی ساخت ہمارے سماج کو کمزورکرتی ہیں اور خصوصاً نوجوانوں کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے جس سے ان کی صلاحیتیں کمزور ہوتی ہیں اور پھر اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ہم اپنی مجموعی پیداوار کو نہیں بڑھا سکتے۔
پاکستان میں ایک مخصوص شرفاء کا طبقہ ہے جن کی جڑیں جاگیرداری، گماشتہ سرمایہ داری، اسمگلنگ، زمینوں پر قبضے ، منشیات کا کاروبارکرنے والے لوگوں پر مشتمل ہے ۔ 78 سال کی اس تاریخ میں ہم ابھی تک ملک کو مڈل کلاس سیاست اور قیادت دینے میں ناکام ہوگئے ہیں اور جو اگر مڈل کلاس قیادت و سیاست سامنے آئی بھی، تو وہ بھی شرفا سے گٹھ جوڑ بنا کے بیٹھ گئی۔
آئین اپنا تحفظ خود نہیں کرسکتا، اس کا تحفظ ایک مضبوط، بھرپور سماج کرتا ہے اور اگر سماج کی وقت کے ساتھ ساتھ بھرپور انداز میں نشونما نہیں ہوئی تو وہ جمہوریت کو نقصان پہنچاتا ہے، آج بھی پاکستان میں ساٹھ فیصد قومی اسمبلی میں پہنچنے والے وہی ہیں جن کی جدی پشتی سیٹیں ملی ہیں۔
ان ساٹھ فیصد علاقوں کے لوگ جاگیرداروں، پیروں، وڈیروں، چوہدریوں، اور قبائلی سرداروں کے پاس غلام بنے ہوئے ہیں اور ہم نے بحیثیت ریاست ایسا ہونے دیا ہے تاکہ اقتدار پر اجارہ داری قائم رہے، لیکن ہم یہ نہیں جانتے، ہماری اس سوچ نے پاکستان کو معاشی طور پرکتنا کمزورکردیا ہے کہ آج وہ معاشی اعتبار سے اپنی بقا کے لیے جنگ لڑرہا ہے اور ہم یہ سمجھ نہ سکے کہ ہم جس طریقے سے اس ملک کو چلا رہے ہیں، وہ ایک ایسے بھنور میں پھنس جائے گا جہاں سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔
ہم نے پاکستان کے اس سیاسی بحران سے معیشت پر پڑتے اثرات کوکبھی نہیں جانا۔ ہم یہ سمجھتے رہے کہ ہمیں امریکا سے امداد ملتی رہے گی اور ہم فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت سے ان کے ایجنڈے پرکام کرتے رہیں گے۔
ان تمام باتوں کے تانے بانے ہمارے آئین کے ارتقاء اس کی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں، آئین سماج اور سیاست یہ تینوں ستون ہیں جس پر یہ پاکستان کھڑا ہے اور یہ تینوں ستون، ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں اور ان تینوں ستونوں پر اگرکسی ایک ستون کمزور ہوتا ہے تو وہ دوسرے ستون کو کمزورکرتا ہے۔
پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ یہاں پر جو بھی فرسودہ طبقات ہیں جیسا کہ جاگیردار، وڈیرا، سردار، چوہدری، سرمایہ دار، پیر، منشیات کا کاروبار، اسمگلنگ، مذہب کی اجارہ داری کرتے ہوئے ان تمام غیر پیداواری طبقات میں آتے ہیں۔
ہمیں مضبوط، معیشت، مضبوط آئین اور جمہوریت رواداری سے مل سکتی ہے، لٰہذا آئین پر آئے دن یلغارکرنا، اسے بگاڑکے رکھ دینا، خود اس آئین کو قتل کرنے کے مترادف ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہیں اور ملک کو ہیں جس
پڑھیں:
ستائیسویں آئینی ترمیم،وزیراعظم سے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے وفود کی ملاقاتیں
ستائیسویں آئینی ترمیم،وزیراعظم سے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے وفود کی ملاقاتیں WhatsAppFacebookTwitter 0 6 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)ایم کیو ایم پاکستان کے وفد نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی ہے، جس میں 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے مشاورت اور تجاویز پر غور کیا گیا۔ذرائع کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے وفد نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران مطالبہ کیا ہے کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے سے متعلق شقیں شامل کی جائیں۔
وزیراعظم ہاوس میں ہونے والی اس اہم ملاقات میں ایم کیو ایم کے وفد میں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری، وفاقی وزیر صحت سید مصطفی کمال، ارکان قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار، جاوید حنیف خان، سید امین الحق اور خواجہ اظہار الحسن شامل تھے۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال اور 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق نکات پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم رہنماں نے وزیرِاعظم پر زور دیا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے بلدیاتی حکومتوں کو مالی اور انتظامی سطح پر مکمل اختیارات فراہم کیے جائیں تاکہ عوامی مسائل نچلی سطح پر حل ہو سکیں۔27ویں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے اتحادیوں سے ملاقات کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کے رہنماں کے وفد نے وزیرعظم سے ملاقات کی، جس میں مجوزہ ترمیم کی شقوں اور مقف پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی کا ود نور خان ایئربیس کی طرف روانہ ہوگیا، جہاں وہ خصوصی طیارے کے ذریعے کراچی روانہ ہوگا اور پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے وفد میں مرتضی وہاب، عرفان قادر، راجا پرویز اشرف، نوید قمر، شیری رحمن اور دیگر شریک تھے۔وزیراعظم شہباز شریف سے استحکام پاکستان پارٹی کے صدر اور وفاقی وزیر مواصلات عبد العلیم خان اور وزیر مملکت برائے سمندر پار مقیم پاکستانی عون چوہدری نے ملاقات کی، جس میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر گفتگو اور مشاورت ہوئی۔اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ، وزیرِ پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری اور مشیرِ وزیرِ اعظم رانا ثنا اللہ بھی شریک تھے۔
پاکستان مسلم لیگ ق کے وفد نے بھی وزیراعظم ہاس میں شہباز شریف سے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق ق لیگ کے وفد کی سربراہی وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی چوہدری سالک حسین نے کی، جس میں مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر مشاورت کی گئی۔ق لیگ کے چار رکنی وفد میں سینیٹر کامل علی آغا اور ارکان قومی اسمبلی چوہدری محمد الیاس اور فرخ خان شامل تھے۔ اجلاس میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر گفتگو اور مشاورت ہوئی۔27 ویں آئینی ترمیم پر مشاورت کے سلسلے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے وفد نے بھی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔وفد کی قیادت وفاقی وزیر خالد مگسی نے کی جب کہ دیگر ارکان میں سینیٹر محمد عبدالقادر،منظورکاکڑ،ثمینہ ممتاز اور دینش کمار شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق بی اے پی کے وفد نے وزیراعظم سے بلوچستان کی صوبائی و قومی اسمبلی نشستوں کے حوالے سے بھی بات چیت کی۔
وزیراعظم شہباز شریف آج اتحادی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کررہے ہیں، جس میں مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم پر مشاورت کی جا رہی ہے۔ ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف تمام اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کو 14 نومبر کو قومی اسمبلی سے منظور کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف اتحادی جماعتوں سے مشاورت کریں گے اور اس حوالے سے تمام وزرا و ارکان پارلیمنٹ کے غیر ملکی دورے بھی منسوخ کردیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں اسپیکر قومی اسمبلی نے تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماں سے مشاورت کی ہے جب کہ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے اور شیڈول کی بھی منظوری دے دی گئی ہے، تاہم اجلاس میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈرز نے شرکت نہیں کی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروفاقی کابینہ سے27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کل منظور ہونے کا امکان، وزیراعظم نے اجلاس طلب کرلیا وفاقی کابینہ سے27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ کل منظور ہونے کا امکان، وزیراعظم نے اجلاس طلب کرلیا وزارت آئی ٹی کا کیش لیس معیشت منصوبے کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا فیصلہ افغانستان میں سچ بولنا جرم بن گیا، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا برطانوی چیف آف جنرل اسٹاف کی جی ایچ کیو آمد، فیلڈ مارشل سے ملاقات چیئرمین سی جے سی ایس سی کا برونائی کا دورہ، دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق چار سینیٹرز کا سائبر فراڈیوں کے ہاتھوں لٹنے کا انکشافCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم