امریکی عوام کے ٹیکسز مزید اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ پر خرچ نہیں ہونے چاہیے، ٹریبیون
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، یہ امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ اسلام ٹائمز۔ ایک امریکی روزنامہ نے اداریے میں لکھا ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بند نہیں ہوتی ہر گزرتے دن کے ساتھ سینکڑوں فلسطینی اپنی جانیں کھو دیتے ہیں، اور اس دوران واشنگٹن کی خاموشی خوفناک ہے۔ روزنامہ دی ٹریبیون نے اپنے اداریے میں زور دیا کہ یہ خاموشی امریکہ کی ساکھ کو کمزور کر رہی ہے۔ روزنامے نے یاد دہانی کروائی کہ غزہ پر حملے کے آغاز کو دو سال گزر چکے ہیں اور اس جنگ نے شہریوں پر بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے، محلے اور بستییں مکمل طور پر نقشے سے مٹ چکی ہیں، ہسپتال منہدم ہو گئے ہیں اور انسانی ادارے قحط کے بحران کے درمیان تنہا پڑ گئے ہیں۔
روزنامے کے مطابق ریاستِ متحدہ نے 1948 سے اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف ہونا جاری رکھا ہوا ہے اور اس کی اقتصادی و عسکری امداد 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، ایسی امداد جو منصوبے کے مطابق 2028 تک جاری رہے گی۔ رپورٹوں کے مطابق، امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.
واشنگٹن کی تل ابیب کے لیے بلاشرط حمایت نہ صرف انسانی اقدار سے دور ہے بلکہ دنیا میں امریکہ کی شبیہ کو بھی مسخ کر دیتی ہے اور اسے فلسطینیوں کی جانوں کا شریکِ جرم بناتی ہے؛ ایسی کیفیت جو روزنامے کے بقول بدلنی چاہیے۔ اداریہ آخر میں امریکی حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ اپنی بین الاقوامی ساکھ بحال کرنے کے لیے اتنی ہی حساسیت انسانی حقوق کے دفاع میں بھی دکھائے جتنی وہ اپنے ہتھیاروں کے بیڑے کی حفاظت میں دکھاتی ہے، امریکی عوام کے ٹیکس مزید اس قتلِ عام پر ضائع نہیں ہونے چاہئیں، یہ وسائل امن، سفارتکاری اور انسانی امداد کی حمایت پر خرچ ہونے چاہئیں، نہ کہ جنگ کے تسلسل پر۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت سے گروسی کا ایک بار پھر گریز
ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی و اسرائیلی حملوں کے تباہ کن کردار کو تسلیم کرنیکے باوجود عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل نے ان حملوں کی مذمت سے ایک بار پھر گریز کیا ہے اسلام ٹائمز۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکہ و اسرائیل کے جارحانہ حملوں کی مذمت کئے بغیر "تہران کے ساتھ سفارتکاری کی جانب واپسی" پر زور دیا ہے۔ فرانس 24 کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ امریکہ و اسرائیل کے جارحانہ حملوں سے "سفارتی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ہے"، رافائٖل گروسی نے کہا کہ اُس وقت، جون میں، ہم نے طاقت کے ذریعے سفارتکاری کو نظرانداز کیا تھا تاہم اب ہمیں سفارتکاری کی طرف واپس لوٹنا چاہیئے!
واضح رہے کہ رافائل گروسی نے اب تک، ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکہ و غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ حملوں کی مذمت کرنے سے مسلسل گریز کیا ہے جبکہ ایرانی حکام نے بھی عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے "جانبدارانہ رپورٹس کی تیاری" کو اُن عوامل میں سے ایک قرار دیا ہے کہ جو ایران کے خلاف امریکہ و اسرائیل کے جارحانہ حملوں کا باعث بنے ہیں۔ فرانس 24 کے ساتھ انٹرویو میں رافائل گروسی نے یہ دعوی بھی کیا کہ میری تمام رپورٹس کا "ایران پر حملے" میں کوئی کردار نہیں اور یہ کہ ان رپورٹس میں "کوئی نئی بات" نہ تھی!