Express News:
2025-11-02@01:43:45 GMT

رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر

اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT

اُردو ادب کے ایسے شعرائے کرام جنھوں نے اپنی بساط و توفیق کے مطابق صنفِ نعت کو نئی نئی جہات سے دیکھا اور نئے نئے تجربات سے نکھارا، اُن میں پاکستان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم بھی شامل ہیں، جو آٹھ جولائی 1931 میرٹھ ، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور ہے۔

ان کو ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادبی ماحول وراثت ملا۔ ان کے نانا ادیب میرٹھی اپنے وقت کے معروف شاعر یزدانی میرٹھی کے شاگرد تھے۔ وہ صاحبِ دیوان غزل گو شاعر تھے۔ اقبال عظیم کے دادا سید فضل عظیم فضلؔ، اُردو اور فارسی زبان کے نعت گو شاعر تھے۔

اُن کے والد سید مقبول عظیم عرشؔ پولیس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ وہ بھی اُردو کے بہترین غزل گو شاعر تھے۔ ان کے برادر بزرگ سید وقار عظیم برصغیر کے بلند مرتبہ تنقید نگار اور ماہرِ تعلیم اور درجنوں تصانیف کے مصنف تھے۔

اقبال عظیم کا نام علمی و ادبی دنیا میں اہم ہے۔ ادبی دنیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے نظم و نثر میں طبع آزمائی کی اور کئی فن پارے تخلیق کیے اب تک اُن کے کئی شعری مجموعے اور نثرکی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن میں مشرقی بنگال میں اُردو ( لسانی وا دبی تذکرہ)، مضراب (غزلوں کا پہلا مجموعہ)، مضراب و رباب (غزلوں کا دوسرا مجموعہ)، لب کشا (نعتیں اور غزلیں)، نادیدہ (غزلیں)، چراغِ آخرِ شب، ماحصل ( کلیاتِ غزل)، اقبال عظیم (حیات و ادبی خدمات)، قاب قوسین ( نعتوں کا مجموعہ)، پیکرِ نور، زبورِ حرم قابلِ ذکر ہیں۔

ان کا تعلق شاعری کی کلاسیکی روایت سے تھا جب کہ انھوں نے نعت گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ وہ اپنی نعتوں میں عمدہ خیالات، حسین تراکیب، نادر الفاظ، نایاب تشبیہات اور اچھوتے استعارات کا بہترین استعمال کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ

نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

اقبال عظیم نعتیہ شاعری کی دنیا میں ایک خوشبو کی مانند تھے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں بہت سی احادیثِ مبارکہ کا مفہوم بھی بیان کیا ہے اور قرآنی تلمیحات کے پہلو بہ پہلو احادیث کے اشارے بھی ان کے نعتیہ کلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔

اقبال عظیم اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے اور دنیائے غزل میں ایک مسلمہ حیثیت کے حامل بھی تھے لیکن نعت گوئی یعنی حضورؐ کی محبت ان سارے معاملات میں سبقت لے گئی اور وہ حضورؐ کی محبت میں سرشار و مخمور زندگی کے آخری ایام تک مدحتِ سرکارِ دور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گاتے رہے۔

’’ ماحصل‘‘ یہ اقبال عظیم کا ’’ کلیاتِ غزل‘‘ ہے، جس کے پہلے ایڈیشن میں حمد، مناجات ، قطعات، نعتیں اور غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کلیات کو بزم خدام الاادب نئی دہلی سے شایع کیا گیا۔

’’رنگ ادب‘‘ کے اقبال عظیم نمبر میں اقبال عظیم بہ حیثیت غزل گو حصے میں اجازت طلبی، اجازت نامہ خطوط کے بعد پہلا مضمون پروفیسر نظیر صدیقی کا پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں وہ اقبال عظیم کی غزل گوئی کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ اقبال عظیم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں، وہ غزل اور شاعری کے فنی اور جمالیاتی مطالبات کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں۔ 

اپنی شاعری میں انھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ وطن کے المیے کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور اس موضوع پر جتنے خوبصورت اور موثر شعر کہے ہیں، اس کی مثال موجودہ پاکستانی شاعری میں کم ملے گی اور مشکل سے ملے گی۔

غالباَ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’مضراب‘‘ فکر وفن دونوں کے اعتبار سے اُردو شاعری کے سرمائے میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔‘‘ جب کہ پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سید محمد ابو الخیرکشفی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلیم احمد، جسٹس نور العارفین، ابوالبیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، نسیمِ سحر، روبینہ شاد و دیگر اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔

ان کی غزلوں کے بہت سے اشعار میں متصوفانہ افکار کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال عظیم ایک صوفی شاعر تھے۔

رنگِ ادب کے اس خاص شمارے میں اقبال عظیم بہ حیثیت نعت گو حصے میں صفحہ نمبر ۱۳۵ پر اقبال عظیم کا مضمون ’’ سخن گسترانہ‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے جب کہ دیگر قلم کاروں میں نا صر حیات، ابو الاثر حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی، احسان دانش، اے کے سومار، سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر علی حیدر ملک، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، اکرم کنجاہی، نسیمِ سحر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور مجھ خاکسار سمیت بہت سے قلم کاروں کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون بعنوان ’’ بینائی سے محروم اور بصیرت سے سرفراز شاعر اقبال عظیم‘‘ ، ابنِ انشاء کا ’’دخل در معقولات‘‘، مولانا ماہر القادری کا ’’ اقبال ہماری نظر میں‘‘ جس میں وہ صفحہ نمبر ۲۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال عظیم پر شعر کا نزول نہیں ہوتا یعنی جسے ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ خیال، جذبہ یا احساس پہلے ان کے وجود کا مکمل جز بن جائے۔‘‘ محمد طفیل کی ’’کچھ باتیں اقبال عظیم کے بارے میں‘‘ یہ مضمون پڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے۔

’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر ساجد امجد، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر عنبر عابد، مولانا محی الدین انصاری ودیگر کے مضامین شاملِ اشاعت ہیں جب کہ ایس اے مینائی، انوار عنایت اللہ کے انگریزی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

رنگِ ادب کے ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ کے صفحہ نمبر337 پر خطوط اور پیغام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کمال الدین ظفر، سعید صدیقی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، فضل الرحمن، ابوالخیر کشفی اور سید ثروت ضحی کے خطوط اور پیغامات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ تحسین بھی اقبال عظیم کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ سہیل غازی پوری کے دواشعار:

نعت گوئی میں جو مشہور تھے اقبال عظیم

ہاں! غزل سے بھی کہاں دور تھے اقبال عظیم

ان کی آنکھوں میں بصارت کی کمی تھی لیکن

یہ بھی سچ ہے دلِ پُرنور تھے اقبال عظیم

’’رنگِ ادب‘‘ کے اس خاص اور تاریخی کارنامے میں ’’ اقبال عظیم کی نگارشات نثری اور شعری دونوں کو آخری چند صفحات میں شامل کیا گیا ہیں۔ رنگ ادب کا ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ موجودہ اور آنیوالے صدیوں تک اقبال عظیم پر تخلیقی جہتوں سے سراب ہونیوالے اہلِ علم و ادب، شائقین وقارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ تشنگانِ علم اور طالبانِ ادب اور محققین کے بھی کام آتا رہے گا۔

’’رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر ‘‘خوبصورت سر ورق کے ساتھ368 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم جلد میں شاعر علی شاعر کو اپنے ادارے رنگِ ادب سے شایع کرنے کا اعزاز حاصل ہُوا ہے، ایسے بہت سے اعزازات کے وہ پہلے بھی حق دار قرار پا چکے ہیں۔

آخر میں جاتے ہوئے میں رنگِ ادب کی تمام ٹیم اور اقبال عظیم کے فرزند شاہین اقبال کو اس خوبصورت اشاعت پر ڈھیروں مبارکباد کے گلدستے پیش کرتا ہوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اقبال عظیم بہ حیثیت اقبال عظیم نمبر انھوں نے پڑھنے کو شاعر تھے گو شاعر میں ایک غزل گو ادب کے نعت گو

پڑھیں:

پاکستان کو عوامی خدمت پر مبنی جدید سول سروس نظام درکار ہے، احسن اقبال

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایک ایسا سول سروس نظام درکار ہے جو جدید، شفاف، میرٹ پر مبنی اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ ان کے مطابق حکومت ایک جامع اصلاحاتی فریم ورک کے تحت بیوروکریسی کو نئی روح، مقصد اور توانائی کے ساتھ فعال بنا رہی ہے تاکہ یہ نظام عوامی توقعات کے مطابق کام کر سکے۔
وہ پنجاب یونیورسٹی میں “مقامی حقائق اور علاقائی مستقبل” کے عنوان سے منعقدہ عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، جس کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کی۔ تقریب میں بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے خزانہ پروفیسر انیس الزمان چوہدری، ہائی کمشنر محمد اقبال کاشف راٹھور، اور دیگر ماہرینِ تعلیم، بیوروکریٹس اور طلبہ نے بھی شرکت کی۔
احسن اقبال نے کہا کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے — ٹیکنالوجی، موسمیاتی بحران، آبادی میں اضافہ اور جغرافیائی تبدیلیاں حکمرانی کے پرانے ماڈلز کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ایسے میں صرف وہی قومیں ترقی کر سکتی ہیں جو اپنی سول سروس کو علم، شفافیت، مہارت اور خدمتِ عوام کے اصولوں پر استوار کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ سول سروس ڈھانچہ برطانوی نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے، جو نظم و ضبط اور ٹیکس وصولی کے لیے بنایا گیا تھا، ترقی کے لیے نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایسا نظام تشکیل دیں جو استحکام کے بجائے جدت، مراتب کے بجائے اشتراک، اور طریقہ کار کے بجائے نتائج کو ترجیح دے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ حکومت نے سول سروس اصلاحات کے لیے ایک ’اسمارٹ فریم ورک‘ تیار کیا ہے، جس کے تحت سی ایس ایس امتحانات میں بھی بنیادی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں تاکہ توجہ انگریزی زبان پر نہیں بلکہ تنقیدی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور پالیسی فہم پر مرکوز ہو۔
انہوں نے کہا کہ انگریزی کو ترقی نہیں بلکہ اشرافیہ کے تسلط کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے — اب وقت ہے کہ ہم اس سوچ کو بدلیں۔ مزید کہا کہ خواتین، اقلیتوں اور پسماندہ علاقوں کی نمائندگی بڑھانے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ سول سروس واقعی عوام کی ترجمان بن سکے۔
احسن اقبال نے بتایا کہ وزارتِ منصوبہ بندی نے جامعات، نجی شعبے اور حکومت کے درمیان شراکت کے لیے پبلک پالیسی لیبز کے قیام کی تجویز دی ہے، جو پالیسی سازی کو تحقیق، ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی سے جوڑیں گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک سات نکاتی تعلیمی فریم ورک تشکیل دیا ہے جس میں علم پر مبنی پالیسی سازی، مشترکہ تحقیق، ڈیجیٹل گورننس، پالیسی فیلو شپ پروگرامز اور علاقائی تعاون شامل ہیں۔
وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو مشترکہ چیلنجز — جیسے موسمیاتی تبدیلی، غربت اور پانی کی قلت — کے حل کے لیے ایک “ساوتھ ایشین گورننس فریم ورک” تشکیل دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں گورننس کا عمل پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے، کیونکہ اب عوام زیادہ تعلیم یافتہ، ڈیجیٹل طور پر منسلک اور باخبر ہیں۔ لوگ صرف ووٹ دے کر خاموش نہیں رہنا چاہتے بلکہ پالیسی سازی میں براہِ راست شرکت کے خواہاں ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ اسلام نے انصاف، جواب دہی اور خدمتِ عوام پر مبنی نظامِ حکومت کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کا قول دہراتے ہوئے کہا: “اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر جواب دہ ہوگا” — یہی وہ اصول ہیں جو آج کے حکمرانوں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہونے چاہئیں۔
انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: “یاد رکھو، تم ریاست کے خادم ہو، حکمران نہیں” — یہی وژن موجودہ حکومت کی اصلاحات کا بنیادی فلسفہ ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت سول سروس کو ایک جدید، میرٹ پر مبنی اور عوامی خدمت پر مرکوز ادارے میں بدلنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقی تبدیلی صرف حکومت کے زور پر نہیں آتی — بلکہ جب ریاست، نجی شعبہ، جامعات اور سول سوسائٹی ایک ٹیم بن کر کام کریں تو ملک ترقی کی نئی راہیں کھولتا ہے۔
احسن اقبال نے کانفرنس میں جامعات کے لیے کارکردگی کے سات نکاتی فریم ورک کا اعلان بھی کیا، جس میں تعلیمی معیار، تحقیق و جدت، صنعت و اکیڈمیا تعلقات، سماجی خدمت، ٹیکنالوجی کا استعمال، کارپوریٹ گورننس اور گریجویٹس کے معیار جیسے عناصر شامل ہیں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے ملک کی اشرافیہ سے اپیل کی کہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا:غریب عوام آج بھی پاکستان کے مستقبل پر یقین رکھتے ہیں، اب وقت ہے کہ خوشحال طبقہ بھی ٹیم پاکستان کا حصہ بنے۔

متعلقہ مضامین

  • نیو ماڈل سڑک شاعر اعجاز رحمانی سے منسوب کی جارہی ہے‘ محمد یوسف
  • 40 ارب روپے کرپشن اسکینڈل: ملزم کے گھر سے مزید 20 کروڑ روپے برآمد
  • کوہستان میگا کرپشن کیس: ماسٹر مائنڈ کے گھر سے مزید 20 کروڑ روپے برآمد
  • کوہستان میگا کرپشن اسکینڈل: ماسٹر مائنڈ کے گھر سے 20 کروڑ روپے مزید برآمد
  • 40 ارب کا میگا کرپشن اسکینڈل، ملزم کے گھر سے مزید 20 کروڑ روپے برآمد
  • پہلی جنگ عظیم کے پیغامات والی بوتل صدی بعد Wharton ساحل پر دریافت
  • پاکستان کو عوامی خدمت پر مبنی جدید سول سروس نظام درکار ہے، احسن اقبال
  • موسیقی کے عظیم معمار خواجہ خورشید انور کو مداحوں سے بچھڑے 41 برس بیت گئے
  • چینی صدر شی ایک عظیم ملک کے عظیم رہنما ہیں، امریکی صدر