پاک افغان مذاکرات کا روایتی نتیجہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا وہی نتیجہ سامنے آیا ہے جس کی سب کو توقع ہے۔ دونوں ملکوں کے وفود مسلسل مذاکرات کر رہے ہیں لیکن کسی حتمی نتیجے پر بغیر مذاکرات کی نشست اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔
تازہ مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ کے شہر استنبول میں جاری مذاکرات میں ڈیڈلاک برقرار ہے، تاہم پاکستان نے مذاکرات میں ثالثی پر ترکیہ اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے۔
گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پرجاری اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانے کی ذمے داری افغانستان کی طالبان حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
افغان طالبان دوحہ امن معاہدے 2021 کے مطابق اپنے بین الاقوامی، علاقائی اور دوطرفہ وعدوں کی تکمیل میں اب تک ناکام ر ہے ہیں جب کہ پاکستان اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ افغان عوام سے خیر سگالی کا جذبہ رکھتا ہے اور ان کے لیے ایک پر امن مستقبل کا خواہش مند ہے تاہم پاکستان طالبان حکومت کے ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کرے گا جو افغان عوام یا پڑوسی ممالک کے مفاد میں نہ ہوں،پاکستان اپنے عوام اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات جاری رکھے گا۔
افغانستان کی عبوری حکومت مذاکرات کے ذریعے سوائے وقت ضایع کرنے کے کچھ نہیں کر رہی۔ اس کے باوجود دونوں ملک کسی نہ کسی حوالے سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتے ہیں اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچے بغیر مذاکرات کی میز سے اٹھ جاتے ہیں۔
جمعرات کو ترجمان دفترِ خارجہ طاہراندرابی نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول مذاکرات ثالثوں کی نگرانی اور موجودگی میں ابھی جاری ہیں،ہمیں مذاکرات کی کامیابی کے لیے مثبت امیدیں وابستہ ہیں تاہم پاکستانی شہریوں کی جانوں کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ استنبول میں پاکستان کے مذاکراتی وفد کی سربراہی قومی سلامتی کے مشیر عاصم ملک کر رہے ہیں جب کہ ایڈیشنل فارن سیکریٹری بھی وفد کا حصہ ہیں۔پاکستانی وفد نے فتنہ الخوارج سے متعلق مصنفانہ شواہد پرمبنی مطالبات ثالثوں کے حوالے کردیے ہیں،جب تک مذاکرات مکمل نہیں ہوتے، اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے،افغانستان سے جاری حملوں میں معصوم لوگ نشانہ بنتے ہیں۔پاکستان کا بنیادی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
ترجمان کے مطابق چمن بارڈرپرفائرنگ افغان طالبان نے کی جس کا پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ذمے دارانہ جواب دیا۔ترجمان نے فائرنگ سے متعلق افغان طالبان کے دعوے کو مسترد کردیا۔انھوں نے کہا کہ ایسے واقعات بارڈرز کی بندش کا باعث بنتے ہیں اور موجودہ سیکیورٹی صورتحال کو دیکھ کر سرحد کھولنے یا بند رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
افغانستان کے امور کو سمجھنے والے ماہرین کی یہ رائے ہے کہ طالبان مذاکرات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کر رہے ہیں کیونکہ سیز فائر کی وجہ سے طالبان کو خاصی سہولت میسر ہے۔
پاکستان کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ترکیہ اور قطر اس میں ثالثی کر رہے ہیں۔ اصولی طور پر تو ثالث ملکوں کو دوٹوک مؤقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ طالبان پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ طالبان انڈیا کے ساتھ بھی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں اور وہاں انڈیا مسلسل سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
یہ صورت حال پاکستان کے لیے زیادہ اچھی نہیں ہے۔ جہاں تک دوحہ معاہدے کی بات ہے تو اس حوالے سے بھی حقائق بالکل واضح ہیں۔ طالبان نے دوحہ معاہدے میں یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
اس کے علاوہ طالبان نے یہ بھی وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں جن میں داعش، خراسان اور ٹی ٹی پی وغیرہ شامل ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرے گی تاکہ ان گروپوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ بھی اور بہت سے وعدے کیے گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے طالبان نے ان وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کے خدشات محض خدشات نہیں ہیں بلکہ طالبان کی قیادت کو بخوبی علم ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے تربیتی کیمپ موجود ہیں۔
ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں کھلے عام پھر رہی ہے۔ اس کے باوجود طالبان قیادت ٹی ٹی پی کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کر رہی اور نہ ہی پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔
استنبول مذاکرات میں بھی یہی موضوع زیربحث رہا ہے۔ طالبان تحریری معاہدہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ طالبان کی قیادت دوہری پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ طالبان کا مذاکراتی وفد بھی حتمی مینڈیٹ کا حامل نہیں ہے۔
وہ مذاکرات کے دوران ہی کبھی کابل اور کبھی کندھار میں اپنے لیڈروں سے اجازت نامہ طلب کرتے ہیں۔ افغانستان کا حکومتی اسٹرکچر بھی اس قسم کا ہے کہ مذاکراتی وفد اسٹیٹ آف افغانستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھ رہا بلکہ وہ اپنے لیڈروں کے طابع ہو کر مذاکرات کرتے ہیں۔
اگر لیڈر انکار کر دے تو ان کے پاس اقرار کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ طالبان کے وفد کا یہی سب سے بڑا ڈرابیک ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے طالبان رجیم کا پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے۔ افغانستان میں جو گروہ برسراقتدار ہیں، وہ مختلف جتھوں کی نمایندگی کرتے ہیں اور ہر جتھے کا اپنا اپنا لیڈر یا کمانڈر ہے۔
اسی طرح نیچے گراس روٹ لیول تک یہی سلسلہ چلتا ہے۔ طالبان کا وفد استنبول میں مذاکرات کر رہا ہوتا ہے تو کوئی عسکریت پسند گروپ پاک افغان سرحد پر دہشت گردی کی واردات کرنے پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت بظاہر سیزفائر قائم ہے لیکن غور کیا جائے تو افغانستان سے آنے والے دہشت گرد اس سیزفائر سے باہر ہیں۔
پاکستان چونکہ ایک آرگنائزڈ ریاست ہے، اس کی ایک منظم فورس ہے، اس لیے یہ تو سیزفائر کے عہد پر قائم ہے لیکن دہشت گردوں کو اس قسم کے عہد کا کوئی پاس نہیں ہوتا۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کسی قانون اور ضابطے کے پابند ہیں ہی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے پاکستان کی جانب مسلسل دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ طالبان کی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ یہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کو پوری طرح کنٹرول نہیں کر سکتی۔
اگر وہ یہ تسلیم کر لیں تو پاکستان کے ساتھ تعاون کر کے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے دوست ممالک بھی مدد کر سکتے ہیں۔ اطلاعاتی شیئرنگ بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے سچائی کو تسلیم کرنا پہلی شرط ہے۔
افغانستان میں مسلسل بدامنی اور دہشت گرد گروپوں کا بلا روک وٹوک وہاں نقل وحرکت کرنا ہمسایہ ممالک کے لیے مسائل کا باعث تو ہے ہی لیکن وہ افغانستان کے عوام اور افغانستان بطور ریاست بھی اس کے حق میں نہیں ہے۔
افغانستان کی تعمیر وترقی کے سفر کے لیے امن وامان کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ ابھی افغانستان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ چند ایک جن ممالک نے ان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں، وہ بھی اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر کیے ہیں۔
ان کا مقصد افغانستان کے عوام کو خوشحال بنانا، افغانستان میں امن قائم کرنا نہیں ہے۔ وہ اس صورت حال سے مختلف قسم کے فوائد اٹھانے کے لیے افغانستان کی رجیم کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت کو اس صورت حال کا ادراک ہونا چاہیے۔
افغانستان کو ترقی کے لیے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا لازم ہے۔ خصوصاً پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔ افغانستان کے تمام تجارتی راستے پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں۔
گو اس کی سرحدیں ایران کے ساتھ بھی ملتی ہیں لیکن پاکستان کی راہداریاں اور ٹریڈ روٹس زیادہ بہتر اور کم خرچ ہیں۔ وسط ایشیا کے ساتھ بھی اس کی تجارت بھی اسی صورت میں پھل پھول سکتی ہے جب افغانستان میں امن قائم ہو گا، تجارتی راستے کھلیں گے اور افغانستان میں ایسی ذمے دار حکومت قائم ہو گی جسے اقوام عالم بھی تسلیم کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ایسے اقدامات کرے جس سے دوحہ معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر آئے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ افغانستان کی سرزمین ہے کہ افغانستان کی اور افغانستان افغانستان میں افغان طالبان افغانستان کے تعلقات قائم پاکستان کے ٹی ٹی پی کے مذاکرات کے کہ پاکستان مذاکرات کی ان کے خلاف کر رہے ہیں طالبان نے کہ طالبان اور افغان تسلیم کر کرتے ہیں کی قیادت کے حوالے حوالے سے کیا جائے ہے کہ وہ نہیں کر کے ساتھ نہیں ہے کرنے کے نہیں ہو ہیں اور بھی اس کے لیے نے کہا ہے ہیں
پڑھیں:
پاک افغان مذاکرات
پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں فریقین سرحد پار سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے کسی قابل عمل منصوبے پر نہ پہنچ سکے۔ دوسری جانب چمن بارڈر پر افغانستان سے کچھ عناصر نے پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی۔ وزارت اطلاعات نے واضح کیا ہے کہ جنگ بندی بدستور برقرار رہے گی اور پاکستان سرحدی امن و استحکام کے برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سے خطے کے سیاسی، سیکیورٹی اور سفارتی منظرنامے میں ایک اہم مقام رکھتے آئے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان مذہبی، لسانی اور ثقافتی رشتوں کی گہری جڑیں ہیں، مگر ساتھ ہی یہ رشتے بد اعتمادی، مداخلت اور بارڈر سیکیورٹی کے مسائل سے بھی گندھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوں گے، کیونکہ کابل میں ایک ایسا نظام قائم ہوا جسے پاکستان کے بعض حلقے اپنے لیے نسبتاً موافق تصور کرتے تھے، مگر افسوس کہ یہ توقعات جلد ہی کمزور پڑگئیں۔ آج پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات ایک بار پھر تناؤ، عدم تعاون اور باہمی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ استنبول میں ہونے والے حالیہ مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہونا، اسی بحران کی تازہ جھلک پیش کرتا ہے۔
آٹھ گھنٹے طویل مذاکرات کے باوجود فریقین کسی واضح اور قابلِ عمل منصوبے پر متفق نہ ہو سکے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی اختلافات بدستور برقرار ہیں۔ یہ مذاکرات دراصل سرحد پار دہشت گردی، امن و امان کی صورتحال اور جنگ بندی کے مؤثر نفاذ کے طریقہ کار پر مرکوز تھے۔
افغان طالبان کی حکومت سے پاکستان کا سب سے بڑا مطالبہ یہی رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ پاکستان کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہیں، جہاں سے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملے کرتے ہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان کا موقف ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتے اور دہشت گردی کی ذمے داری ان کے دائرہ اختیار سے باہر کے عناصر پر عائد ہوتی ہے۔
استنبول مذاکرات میں اگرچہ ایک اہم پیش رفت یہ رہی کہ دونوں فریقوں نے جنگ بندی کے نفاذ کے لیے ایک نگرانی اور تصدیقی نظام قائم کرنے پر اصولی اتفاق کیا، مگر عملی طور پر یہ اتفاق ابھی ابتدائی نوعیت کا ہے۔ اس نظام کی تشکیل، اس کے فریم ورک اور اس کے نفاذ کی نوعیت پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات میں اعتماد کا فقدان بدستور حائل ہے۔
اسی دوران بلوچستان کے ضلع چمن میں افغان علاقے کی سمت سے بلااشتعال فائرنگ اور راکٹ حملے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اس واقعے نے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ کر دیا۔ پاکستان نے واضح کیا کہ جنگ بندی برقرار ہے اور سرحدی امن و استحکام کے لیے اس کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی۔ دفترِ خارجہ نے افغان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحمل کا مظاہرہ کرے گا، مگر ساتھ ہی اپنے دفاعی اقدامات کے لیے تیار رہے گا۔ ان بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات فی الحال کشیدگی کے ایک نازک موڑ پر ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد خطے میں طاقت کے توازن میں بنیادی تبدیلیاں آئیں۔ طالبان کا فوکس داخلی استحکام پر ہے، مگر ان کی پالیسیوں میں علاقائی ہم آہنگی کی کمی نظر آتی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کابل حکومت سرحدی نگرانی میں تعاون کرے اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کے خلاف عملی اقدامات کرے، لیکن افغان طالبان اس مطالبے کو اپنی خود مختاری کے خلاف سمجھتے ہیں، یہ نکتہ دونوں کے درمیان سب سے بڑا فاصلہ پیدا کر رہا ہے۔
پاکستان کے لیے سرحد پار دہشت گردی کا مسئلہ قومی سلامتی سے براہ راست منسلک ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ملک کے مختلف حصوں، خاص طور پر خیبرپختونخوا، بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں شدت پسند حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ان حملوں کی ذمے داری اکثر ٹی ٹی پی قبول کرتی رہی ہے، جس کے بارے میں پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس کے جنگجو افغانستان میں موجود ہیں، اگر کابل حکومت اپنے وعدوں پر قائم رہتی اور ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرتی تو ممکن ہے کہ حالات اتنے بگڑتے نہیں، مگر طالبان قیادت کا رویہ عموماً خاموشی یا تردید تک محدود رہا ہے، جس سے پاکستان کے اندر مایوسی بڑھ رہی ہے۔
دوسری جانب طالبان حکومت خود بھی عالمی تنہائی کا شکار ہے، اسے تسلیم کرنے والا کوئی بڑا ملک تاحال سامنے نہیں آیا۔ ایسے میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے بجائے سفارتی تعاون کا ماحول پیدا کرنا زیادہ موزوں حکمتِ عملی ہو سکتی ہے، مگر پاکستان کے داخلی حالات اور سیکیورٹی خدشات اسے ایسا کرنے نہیں دیتے۔
استنبول مذاکرات کا انعقاد بذاتِ خود ایک مثبت پیش رفت تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق مکمل قطع تعلق کے بجائے بات چیت کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم مذاکرات کا بے نتیجہ ختم ہونا، اس بات کا اشارہ ہے کہ محض سفارتی بیانات یا عمومی اتفاقِ رائے سے عملی بہتری ممکن نہیں۔ جب تک دونوں فریق زمینی حقائق کا ادراک نہیں کریں گے اور اعتماد سازی کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائیں گے، اُس وقت تک یہ مذاکرات کاغذی وعدوں سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
افغان طالبان کو بھی سمجھنا ہوگا کہ پاکستان ان کے خلاف نہیں بلکہ اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے بات کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کو مشترکہ دشمنوں دہشت گرد گروہوں، اسمگلنگ نیٹ ورکس اور سرحد پار غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف مل کر کام کرنا ہوگا۔
افغانستان کے ساتھ جاری مذاکرات کی ناکامی نے ایک بار پھر خطے میں پائے جانے والے عدم اعتماد اور مفادات کے تصادم کو نمایاں کر دیا ہے۔ بظاہر امن و تعاون کے نام پر ہونے والے یہ مذاکرات اب اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ کابل کی قیادت مذاکرات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے محض وقت حاصل کرنے کی ایک حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اس رویّے نے نہ صرف بات چیت کے عمل کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ خطے میں استحکام کے امکانات کو بھی کمزور کر دیا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چاہے وہ انسانی بنیادوں پر امداد ہو یا سیاسی و سفارتی تعاون، اسلام آباد نے ہر موقع پر یہ امید رکھی کہ ایک مستحکم افغانستان ہی خطے کے امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ تاہم حالیہ حالات میں یہ افسوسناک تاثر ابھر رہا ہے کہ افغان طالبان، جنھیں کبھی پاکستان کی حمایت حاصل تھی، اب بھارت کے اثر میں آ کر پاکستان مخالف ایجنڈے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ نہ صرف دو برادر اسلامی ممالک کے تعلقات کے لیے تشویش ناک ہے بلکہ احسان فراموشی کی بدترین مثال بھی کہلائی جا سکتی ہے۔
افغان طالبان کے لیے یہ وقت امتحان کا ہے۔ ان کی حکومت اگر واقعی ایک ذمے دار ریاست کے طور پر تسلیم ہونا چاہتی ہے تو اسے اپنی سرزمین پر مکمل کنٹرول دکھانا ہوگا۔ آخرکار، یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان اور افغانستان کا مستقبل ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ اگر ایک ملک میں امن نہیں ہوگا تو دوسرے کے لیے بھی پائیدار استحکام ممکن نہیں۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور منشیات جیسے مسائل دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن ہیں۔ ان کے خلاف کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب کابل کھلے دل، خلوص اور اعتماد کے ساتھ بیٹھے۔
استنبول مذاکرات اگرچہ فوری نتائج نہ دے سکے، مگر یہ عمل ایک تسلسل کا متقاضی ہے۔ امن کی راہ ہمیشہ مشکل ہوتی ہے، مگر یہی وہ راستہ ہے جو خطے کو ترقی، خوشحالی اور استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔ افغان رہنماؤں کو وقتی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر مستقبل کی نسلوں کے لیے امن کی بنیاد رکھنی چاہیے، اگر آج ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا تو آنے والے دنوں میں یہ سرحد محض جغرافیائی لکیر نہیں بلکہ بداعتمادی کی دیوار بن جائے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ افغان طالبان جذبات کے بجائے عقل، سفارت کے بجائے مفاہمت اور الزام تراشی کے بجائے اشتراکِ عمل کا راستہ اختیار کریں۔ یہی راستہ ان کے لیے بھی بہتر ہے اور خطے کے امن کے لیے بھی۔