مصنوعی ذہانت اور میڈیا کی نئی دنیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس تبدیلی کا سب سے طاقتور محرک ’’مصنوعی ذہانت‘‘ یعنی Artificial Intelligence ہے۔ اب یہ ٹیکنالوجی مستقبل کا کوئی فیکشن نہیں ہے بلکہ حال کی حقیقت بن چکی ہے۔
میڈیا، جو ہمیشہ ٹیکنالوجی کی رفتار سے متاثر ہوتا رہا ہے، اس وقت ایک نئی انقلابی لہر کے دہانے پر کھڑا ہے، یہ ایک ایسی لہر جو خبر کے تصور، اس کے ماخذ اور اس کی سچائی کو نئے معنی دے رہی ہے۔
چند سال پہلے تک خبری ادارے خبر اکٹھی کرنے، تصدیق کرنے اور شایع کرنے کے لیے انسانی مہارت پر انحصار کرتے تھے۔ آج ChatGPT، Google Gemini اور دیگر AI ٹولز نے یہ عمل خودکار (Automated) بنا دیا ہے۔
AI اب نیوز اسکرپٹس لکھتا ہے، وڈیوز ایڈٹ کرتا ہے اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کی بنیاد پر خبری موضوعات تجویز کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے ادارے جیسے BBC، Reuters اور CNN اپنے نیوز رومز میں Artificial Intelligence کو ایک خاموش مگر مستقل ساتھی بنا چکے ہیں۔
میڈیا کی صنعت میں اس انقلاب کے ساتھ خطرات بھی بڑھ گئے ہیں، Deepfake وڈیوز، جعلی تصاویر اور Chatbots کے ذریعے پھیلائی جانے والی ’’مصنوعی خبریں‘‘ عوامی رائے کو گمراہ کر رہی ہیں۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں میڈیا لٹریسی کی سطح محدود ہے، یہ خطرہ کئی گنا زیادہ ہے۔ عام قاری اور ناظر کے لیے حقیقت اور جعل سازی میں فرق کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب صحافت کو محض خبر دینے سے آگے بڑھ کر ’’سچائی کی حفاظت‘‘ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔
مصنوعی ذہانت نے صحافت کے پیشہ ورانہ اصولوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خبر ایک مشین تیار کرے تو ’’ادارتی ذمے داری‘‘ کس پر عائد ہوتی ہے؟ انسانی ضمیر یا الگورتھم؟ یہ اخلاقی بحث اب عالمی سطح پر شروع ہو چکی ہے۔
یونیسکو اور دیگر ادارے AI Ethics کے ضابطے وضع کر رہے ہیں تاکہ ٹیکنالوجی انسانی اقدار کو نقصان نہ پہنچائے۔
پاکستانی میڈیا کو اس دور میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں Artificial Intelligence کو دشمن نہیں بلکہ معاون سمجھنا ہوگا۔ اے ای ایک ایسا ٹول جو اگر درست سمت میں استعمال ہو تو خبروں کی درستگی، تحقیق، اور فیکٹ چیکنگ کے عمل کو مضبوط بنا سکتا ہے۔
اگر ہم نے ابھی سے تربیت یافتہ افرادی قوت تیار نہ کی تو چند سالوں میں ہمارے نیوز رومز محض ’’ری پبلشنگ ڈیسک‘‘ بن کر رہ جائیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے، میڈیا تنظیمیں، اور پالیسی ساز ادارے ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔ صحافت کے نصاب میں AI لٹریسی، ڈیٹا جرنلزم، اور میڈیا ایتھکس کو فوری طور پر شامل کیا جائے۔
اسی طرح میڈیا ہاؤسز اپنے عملے کے لیے تربیتی پروگرام شروع کریں تاکہ وہ ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں۔
مصنوعی ذہانت ایک حقیقت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی میڈیا کو بدل دے گی یا نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس تبدیلی کو کیسے سمجھتے اور استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم نے دانش مندی سے کام لیا تو یہ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ ہماری ’’حقیقی صحافت‘‘ کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت
پڑھیں:
دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے
ویسے تو اس وقت پوری دنیا پر ہی جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل حماس جنگ، حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں، ہرچند کہ ان کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے اور موجودہ پاک افغان تنازعہ کہ جس میں روزانہ ہی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
اب اگر اس میں معاشی جنگ کو بھی شامل کر لیا جائے جو امریکا کی چین اور تقریباً پوری دنیا سے جاری ہے۔ اس وقت تو ان کی معاشی جنگ ان کے قریب ترین پڑوسی کینیڈا سے بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔
تقریباً ہر روز ہی اس فہرست میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور ہوتی رہتی ہے، اس صورتحال میں یہ بات یقینی طور پرکہی جاسکتی ہے کہ دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔
ہر جنگ کا آغاز اور اختتام معاشیات پر ہی ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی کہانی کیوں نہ گھڑی گئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگیں وسائل کے لوٹ کھسوٹ اور بٹوارے کے لیے ہوتی ہے تاکہ اپنے اپنے ملک کو معاشی فائدہ پہنچایا جاسکے۔
امریکا کی تو پوری معیشت کی بنیاد ہی جنگ پر ہے، بس فرق اتنا ہے جنگ دیگر ممالک میں ہوں اور داخلی طور پر راوی چین چین ہی لکھے حالانکہ امریکا چین کو بالکل پسند نہیں کرتا بلکہ اب تو وہ چین کے ساتھ معاشی جنگ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ عسکری جنگ کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کیسنجر ویسے ہی یہ بات اپنی زندگی میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ جنگ مسلمانوں کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوگی اور ان کے خیال کے مطابق اس کا آغاز ایران سے ہوگا۔
اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر کے مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع و عریض رقبے پر قابض ہوجائے گا۔ ان کے کہنے کے مطابق مشرق وسطی میں تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بج چکا ہے اور جو اسے سن نہیں رہے وہ یقیناً بہرے ہیں۔
یہ خیال رہے کہ ہینری کیسنجر ایک کٹر یہودی تھا اسی لیے انھوں نے اسرائیل اور امریکا کے جنگ جیتنے کی بھی پیش گوئی کی تھی۔ ہم ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی بہت سی باتیں درست بھی ثابت ہوئی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تو طے ہوگیا تھا کہ اب اگلی عالمی جنگ یورپ میں نہیں لڑی جائے گی۔ عام خیال یہ تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطیٰ میں لڑی جائے گی لیکن عرب ممالک کی حکمت عملی اور عالمی ساہوکار کی مشرق وسطی میں سرمایہ کاری نے اس جنگ کو مشکل اور مہنگا کردیا ہے۔
اس لیے اس صورتحال میں قوی امکان ہے کہ اس کا آغاز جنوب مشرقی ایشیا سے کیا جائے، اس لیے اب ہم اپنے خطے کی جانب آتے ہیں۔ہماری حکومت نے اب باضابطہ طور پر اس بات کا اقرارکر لیا ہے کہ استنبول سے اچھی اور امید افزا خبریں نہیں آرہی ہے۔
ہرچند کے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے مگر طالبان بار بار اپنے موقف کو تبدیل کررہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ جہاں سے ان کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں، وہاں سے یہی احکامات آرہے ہیں۔
طالبان حکومت دہشتگردی کے خاتمے میں سنجیدہ کوششوں سے دامن چھڑا رہی ہے اور اب یہ راستہ تصادم کی طرف جارہا ہے جو کہ خطے کے حق میں نہیں ہے۔ماضی میں بھی ان مذاکرات کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔ ہمارے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر افغانستان سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر کھلی جنگ ہوگی۔
ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور وہ اس پر ہر طرح کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور یہ بات ہمارے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔ ہندوستان ابھی تک اپنی شکست پر تلملا رہا ہے اور اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔
ہندوستان نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی بڑی مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے نوٹم (NOTAM Notice to Air Missions) جاری کیا اور یہ مشقیں 30 اکتوبر سے 10 نومبر 2025 تک پاکستان کی سرحد کے قریب ہونا طے پایا۔
اس وقت یہ مشقیں جاری ہیں۔ ہندوستان کب ان مشقوں کو حقیقت میں آزمائے گا، یہ کسی کو نہیں پتہ لیکن آزمائے گا ضرور، یہ بات حتمی ہے اور ان کا وزیر اعظم اور فوجی سربراہ دونوں اس کی کھلی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک نے وسائل کی طلب اور رسد کے عدم توازن کو ٹھیک کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ توازن دنیا کی آبادی کو کم کرکے ہی بہتر کیا جاسکے گا۔ اب آبادی کہاں زیادہ ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ مغربی ممالک تو ویسے بھی آبادی کے معاملے میں منفی نمو کا شکار ہے۔ آنیوالا وقت غیر یقینی ہی نہیں بلکہ مشکل بھی ہوگا۔