Express News:
2025-11-08@22:50:24 GMT

دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے

اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT

ویسے تو اس وقت پوری دنیا پر ہی جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل حماس جنگ، حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں، ہرچند کہ ان کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے اور موجودہ پاک افغان تنازعہ کہ جس میں روزانہ ہی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔

اب اگر اس میں معاشی جنگ کو بھی شامل کر لیا جائے جو امریکا کی چین اور تقریباً پوری دنیا سے جاری ہے۔ اس وقت تو ان کی معاشی جنگ ان کے قریب ترین پڑوسی کینیڈا سے بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔

تقریباً ہر روز ہی اس فہرست میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور ہوتی رہتی ہے، اس صورتحال میں یہ بات یقینی طور پرکہی جاسکتی ہے کہ دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔

ہر جنگ کا آغاز اور اختتام معاشیات پر ہی ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی کہانی کیوں نہ گھڑی گئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگیں وسائل کے لوٹ کھسوٹ اور بٹوارے کے لیے ہوتی ہے تاکہ اپنے اپنے ملک کو معاشی فائدہ پہنچایا جاسکے۔

امریکا کی تو پوری معیشت کی بنیاد ہی جنگ پر ہے، بس فرق اتنا ہے جنگ دیگر ممالک میں ہوں اور داخلی طور پر راوی چین چین ہی لکھے حالانکہ امریکا چین کو بالکل پسند نہیں کرتا بلکہ اب تو وہ چین کے ساتھ معاشی جنگ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ عسکری جنگ کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کیسنجر ویسے ہی یہ بات اپنی زندگی میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ جنگ مسلمانوں کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوگی اور ان کے خیال کے مطابق اس کا آغاز ایران سے ہوگا۔

اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر کے مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع و عریض رقبے پر قابض ہوجائے گا۔ ان کے کہنے کے مطابق مشرق وسطی میں تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بج چکا ہے اور جو اسے سن نہیں رہے وہ یقیناً بہرے ہیں۔

یہ خیال رہے کہ ہینری کیسنجر ایک کٹر یہودی تھا اسی لیے انھوں نے اسرائیل اور امریکا کے جنگ جیتنے کی بھی پیش گوئی کی تھی۔ ہم ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی بہت سی باتیں درست بھی ثابت ہوئی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تو طے ہوگیا تھا کہ اب اگلی عالمی جنگ یورپ میں نہیں لڑی جائے گی۔ عام خیال یہ تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطیٰ میں لڑی جائے گی لیکن عرب ممالک کی حکمت عملی اور عالمی ساہوکار کی مشرق وسطی میں سرمایہ کاری نے اس جنگ کو مشکل اور مہنگا کردیا ہے۔

اس لیے اس صورتحال میں قوی امکان ہے کہ اس کا آغاز جنوب مشرقی ایشیا سے کیا جائے، اس لیے اب ہم اپنے خطے کی جانب آتے ہیں۔ہماری حکومت نے اب باضابطہ طور پر اس بات کا اقرارکر لیا ہے کہ استنبول سے اچھی اور امید افزا خبریں نہیں آرہی ہے۔

ہرچند کے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے مگر طالبان بار بار اپنے موقف کو تبدیل کررہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ جہاں سے ان کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں، وہاں سے یہی احکامات آرہے ہیں۔

طالبان حکومت دہشتگردی کے خاتمے میں سنجیدہ کوششوں سے دامن چھڑا رہی ہے اور اب یہ راستہ تصادم کی طرف جارہا ہے جو کہ خطے کے حق میں نہیں ہے۔ماضی میں بھی ان مذاکرات کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔ ہمارے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر افغانستان سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر کھلی جنگ ہوگی۔

ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور وہ اس پر ہر طرح کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور یہ بات ہمارے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔ ہندوستان ابھی تک اپنی شکست پر تلملا رہا ہے اور اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔

ہندوستان نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی بڑی مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے نوٹم (NOTAM Notice to Air Missions) جاری کیا اور یہ مشقیں 30 اکتوبر سے 10 نومبر 2025 تک پاکستان کی سرحد کے قریب ہونا طے پایا۔

اس وقت یہ مشقیں جاری ہیں۔ ہندوستان کب ان مشقوں کو حقیقت میں آزمائے گا، یہ کسی کو نہیں پتہ لیکن آزمائے گا ضرور، یہ بات حتمی ہے اور ان کا وزیر اعظم اور فوجی سربراہ دونوں اس کی کھلی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک نے وسائل کی طلب اور رسد کے عدم توازن کو ٹھیک کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔

یہ توازن دنیا کی آبادی کو کم کرکے ہی بہتر کیا جاسکے گا۔ اب آبادی کہاں زیادہ ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ مغربی ممالک تو ویسے بھی آبادی کے معاملے میں منفی نمو کا شکار ہے۔ آنیوالا وقت غیر یقینی ہی نہیں بلکہ مشکل بھی ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تیسری عالمی جنگ کی جانب رہا ہے کے لیے یہ بات رہی ہے ہے اور

پڑھیں:

یہ دنیا بچوں کی امانت ہے

دنیا کے کیلنڈر پرکچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں صرف یاد نہیں دلاتے، جھنجھوڑتے ہیں۔ بیس نومبر بھی ایسا ہی دن ہے، بچوں کا دن۔ یہ دن خوشی کے نعروں، رنگ برنگے غباروں اور مسکراہٹوں کے ساتھ منایا جاتا ہے مگر ہم اپنے گرد دیکھیں، تو یہ مسکراہٹیں کتنی ناپید ہیں۔ یہ دن اس لیے منایا جاتا ہے کہ ہم بچوں کے حقوق ان کی معصومیت اور ان کے مستقبل کی حفاظت کریں مگر کیا واقعی ہم ایسا کر رہے ہیں؟

۱۹۵۴ء میں اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ ہر سال نومبر کی 20 تاریخ کو عالمی یومِ اطفال منایا جائے گا۔ مقصد یہ تھا کہ دنیا کے بچے صرف کسی ملک یا طبقے کی ذمے داری نہ رہیں بلکہ پوری انسانیت کی امانت ہوں۔

اسی دن ۱۹۵۹ء میں بچوں کے حقوق کا اعلامیہ منظور ہوا اور ۱۹۸۹ء میں اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق کا عالمی کنونشن اپنایا، وہ کنونشن جو آج تقریباً ہر ملک نے دستخط کیا ہے مگر جس کی روح اب تک بے سکونی میں تڑپ رہی ہے۔

یہ دنیا بچوں کی امانت ہے ہمارے پاس مگرکیا ہم نے اس امانت کا حق ادا کیا ہے؟ جب بھی یہ دن قریب آتا ہے، میرے ذہن میں ایک شور اٹھتا ہے۔ وہ بچوں کی ہنسی نہیں، ان کی چیخیں ہیں۔ مجھے غزہ کے بچے یاد آ جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں اب اسکول کے خواب نہیں دھماکوں کی چمک ہے۔ جن کے بستے ملبے تلے دب گئے اور جن کی انگلیاں قلم کے بجائے اینٹوں کے ٹکڑے تھامے ہوئے ہیں۔

مجھے سوڈان کے بچے یاد آ جاتے ہیں جو اپنے والدین سے بچھڑ گئے جو جنگ اور بھوک کے درمیان زندگی کی کشمکش میں ہیں۔ ان سب کے چہروں پر ایک سوال لکھا ہے کیا ہمارا بچپن اتنا سستا ہے کہ طاقتوروں کی لڑائیوں میں برباد کر دیا جائے؟

پھر میں اپنے وطن کی طرف دیکھتی ہوں، جہاں کروڑوں بچے اب بھی اسکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ یونیسیف کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً ۲۳ ملین بچے (یعنی پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تقریباً ۴۴ فیصد بچے) تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔

بلوچستان میں تقریبا 78 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ سندھ میں غربت زدہ خاندانوں کے بچوں میں سے نصف اسکول سے باہر ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف نمبر نہیں، یہ گواہی ہیں کہ ہمارا نظام طبقاتی بنیادوں پر بچوں کو تقسیم کر چکا ہے۔

کچھ بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں آئی پیڈ پر پڑھتے ہیں اورکچھ دھوپ میں اینٹیں ڈھوتے ہیں۔ پھر بھوک کا المیہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ۱۰ ملین بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔

تقریباً ۱۸ فیصد بچے شدید غذائی قلت (Severe Acute Malnutrition) میں مبتلا ہیں جو کسی بھی قوم کے لیے ایک المناک اشارہ ہے۔ کیا ہم سوچتے ہیں کہ ایک بھوکے بچے کے لیے دنیا کیسی ہوتی ہے؟ اس کے خواب کیسے اندھیری رات میں دفن ہو جاتے ہیں؟

یہ سب محض اتفاق نہیں یہ نظام کی پیداوار ہے۔ ایک ایسا نظام جو طاقتوروں کو اور طاقتور امیروں کو اور امیر اور غریبوں کے بچوں کو ہمیشہ محتاج بنائے رکھتا ہے۔ بائیں بازو کا نکتہ نظر یہ کہتا ہے کہ بچوں کے حقوق محض رحم یا خیرات کا مسئلہ نہیں یہ سماجی انصاف کا سوال ہے۔

اگر ریاست تعلیم کو حق کے بجائے کاروبار بنائے اگر علاج سرمایہ دار کی ملکیت ہو اگر روزگار کی تقسیم میں ناانصافی ہو تو پھر بچہ چاہے کسی بھی ملک میں پیدا ہو وہ اسی غلامی کی زنجیر کا حصہ بن جائے گا۔

بچوں کا دن صرف ہیپی چلڈرنز ڈے کہہ کر گزر جانے کا موقع نہیں۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانی برابری کی لڑائی بچپن سے شروع ہوتی ہے، اگر ایک بچہ بھوکا ہے، غیرتعلیم یافتہ ہے یا ظلم کے نیچے کچلا جا رہا ہے تو ہم سب اس جرم میں شریک ہیں، چاہے ہم خاموش ہی کیوں نہ رہیں۔

اقوامِ متحدہ کے کنونشن میں لکھا ہے کہ ’’ ہر بچہ زندگی، تعلیم، تحفظ اور ترقی کا حق رکھتا ہے۔‘‘ لیکن آج دنیا کے کئی خطوں میں بچہ صرف زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ غزہ ہو یا سوڈان یا کراچی کے کسی فٹ پاتھ پر بیٹھا وہ بچہ جو شیشے صاف کرتا ہے سب کی ایک ہی چیخ ہے ایک ہی سوال ہے، کیا ہم واقعی بچوں کا دن منانے کے قابل ہیں؟

 میں سوچتی ہوں شاید ہم اس دن کو جشن نہیں احتجاج بنا دیں۔ احتجاج اس نظام کے خلاف جو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتا ہے۔ احتجاج ان طاقتوں کے خلاف جو جنگوں کو استحکام کا نام دیتی ہیں اور احتجاج اپنے ضمیر کے خلاف جو خاموش رہنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

یہ دنیا ہمارے پاس بچوں کی امانت ہے، مگر اگر ہم نے اس امانت کو خون بھوک اور خوف میں لپیٹ دیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کیسے معاف کریں گی؟ یہ دن صرف بچوں کا دن نہیں انسانیت کے ضمیرکا دن ہے۔

ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ کل دیں۔ ہم ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ جہاں اس کے سر پہ چھت ہو۔ وہ تعلیم حاصل کرسکے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہا ہو جہاں جنگ نہ ہو اور جہاں وہ خواب دیکھ سکے۔

لیکن ابھی بھی امید باقی ہے۔ پاکستان کے کچھ گوشوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خاموشی کے بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں، وہ اساتذہ جو پہاڑی علاقوں میں بغیر تنخواہ کے بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ لڑکیاں جو خود مشکلات کے باوجود دوسری بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مہم چلاتی ہیں وہ والدین جو اپنی بھوک برداشت کر کے بچوں کو کتاب خرید کر دیتے ہیں۔ 

یہی وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی بن سکتے ہیں، اگر ریاست ان چھوٹے چھوٹے خوابوں کا ساتھ دے تو شاید یہ ملک واقعی بچوں کے لیے ایک محفوظ گھر بن سکے۔

ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک ایک ایسی دنیا دیں جہاں بچہ نہ صرف محفوظ ہو بلکہ خوش بھی ہو۔ جہاں وہ خواب دیکھ سکے، محبت پا سکے اور جہاں کسی بچے کی آنکھ آنسوؤں سے نہیں بلکہ روشنی سے بھری ہو۔

متعلقہ مضامین

  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • ہانگ کانگ سکسز، بھارت کو مسلسل تیسری شکست، نیپال کیخلاف 45 رنز پر ڈھیر
  • رائیونڈ عالمی تبلیغی اجتماع، معاشرے سے قبل اپنی اصلاح ضروری، گھروں میں اسلام نافذ کریں: علما
  • یونیورسکو کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر سویرا شامی کی عالمی فورم میں نمائندگی
  • پاکستان کا بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے پر پھر شدید احتجاج
  • گرین لینڈ، برف کے نیچے چھپی عالمی طاقتوں کی جنگ
  • فیشن کمیشن کی جانب سے ’سعودی فیبرک آف دی فیوچر‘ لانچ کرنے کا اعلان
  • دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 1.5 ڈگری تک محدود رکھنے میں ناکام ، اقوام متحدہ
  • دنیا بھر میں پائی جانے والی افیون کا کتنا فیصد افغانستان میں اگ رہا ہے؟