Islam Times:
2025-11-06@21:25:49 GMT

گرین لینڈ، برف کے نیچے چھپی عالمی طاقتوں کی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT

گرین لینڈ، برف کے نیچے چھپی عالمی طاقتوں کی جنگ

اسلام ٹائمز: برف کے نیچے چھپے ریئر ارتھ منرلز، یورینیم، تیل اور قدرتی گیس نے گرین لینڈ کو نئی دنیا کا خزانہ بنا دیا ہے، چین نے خود کو “Near-Arctic State” قرار دے کر یہاں کی مائننگ میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، جبکہ امریکا 2019ء میں ایک تاریخی پیشکش کر چکا ہے۔ تحریر: ایچ ایس اے مغنیہ

تعارف:
یہ زمین کا سب سے خاموش خطہ ہے، مگر اس کی خاموشی کے نیچے طاقت کی ایک گونج سنائی دیتی ہے۔ گرین لینڈ، جس کی برف صدیوں سے سورج کی روشنی میں چمکتی رہی، آج دنیا کی بڑی طاقتوں کیلئے “سفید سونا” بن چکی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں برف کے نیچے چھپے خزانے نے انسانی تاریخ کی سب سے خاموش مگر خطرناک جنگ کو جنم دیا ہے، ایک ایسی جنگ جو بندوقوں سے نہیں بلکہ سرمایہ، سائنس اور سیاست سے لڑی جا رہی ہے۔

جغرافیائی اور اسٹریٹجک پس منظر:
گرین لینڈ صرف ایک جزیرہ نہیں، بلکہ دنیا کی جیوپولیٹیکل شطرنج کا مرکز بن چکا ہے، جیسے جیسے برف پگھل رہی ہے، نئے سمندری راستے (Arctic Sea Routes) سامنے آ رہے ہیں، جو ایشیا اور یورپ کے درمیان فاصلے گھٹا رہے ہیں، یہی وہ راستے ہیں جہاں امریکا، چین، روس اور یورپ اپنی موجودگی کو مستحکم کر رہے ہیں، تاکہ آنے والے صدیوں میں “نارتھ پول” پر ان کا جھنڈا لہرا سکے۔

معدنی خزانے — طاقت کا نیا ایندھن:
برف کے نیچے چھپے ریئر ارتھ منرلز، یورینیم، تیل اور قدرتی گیس نے گرین لینڈ کو نئی دنیا کا خزانہ بنا دیا ہے، چین نے خود کو “Near-Arctic State” قرار دے کر یہاں کی مائننگ میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، جبکہ امریکا 2019ء میں ایک تاریخی پیشکش کر چکا ہے۔ “گرین لینڈ خریدنے کی”۔ یہ پیشکش صرف ایک جزیرے کیلئے نہیں تھی، بلکہ عالمی طاقت کے توازن کو بدلنے کی خواہش کا اعلان تھی۔ روس، جو پہلے ہی آرکٹک کے پانیوں میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا رہا ہے، خاموشی سے وہاں اپنے آئس بریکر بحری جہازوں کے ذریعے “برف کے راستوں پر حکمرانی” کا خواب دیکھ رہا ہے۔

ترقی یا تباہی کی دہلیز؟
دنیا گرین لینڈ کو “معاشی موقع” کہتی ہے، مگر ماہرینِ ماحولیات اسے زمین کے مستقبل کیلئے تباہ کن الارم سمجھتے ہیں۔ برف کے تیزی سے پگھلنے سے جہاں معدنیات تک رسائی ممکن ہو رہی ہے، وہیں عالمی موسم کا توازن خطرے میں ہے، اگر یہی رفتار رہی تو 2100ء تک سمندری سطح کئی فٹ بلند ہو سکتی ہے اور دنیا کے ساحلی شہر نقشے سے مٹ سکتے ہیں۔

مقامی قوم اور تہذیبی خطرہ:
انویٹ (Inuit) قوم صدیوں سے برف، شکار اور فطرت کے ساتھ جینے کی ماہر ہے، لیکن اب ان کے سامنے ایک سوال کھڑا ہے کہ کیا وہ اپنی زمین پر اجنبی بن جائیں گے؟ دنیا ان کے وسائل چاہتی ہے، مگر ان کی زبان، ثقافت اور شناخت کیلئے کوئی جگہ نہیں چھوڑتی۔

اختتامیہ — برف کی گواہی:
گرین لینڈ کی برف صدیوں سے انسان کی فطرت کی خاموش گواہ رہی ہے، کبھی محبت، کبھی لالچ، کبھی طاقت کی۔ آج یہ گواہی پھر دہرائی جا رہی ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ اب برف پگھل رہی ہے اور اس کے ساتھ انسان کی ضمیر کی ٹھنڈک بھی، اگر دنیا نے اس دوڑ کو نہ روکا، تو شاید آنے والے زمانے میں تاریخ یہ لکھے:
"انسان نے زمین کا آخری خزانۂ برف تو پا لیا، مگر اپنی زمین کھو دی۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: برف کے نیچے گرین لینڈ رہی ہے

پڑھیں:

سائنسی تجربے کے تحت 36 افراد رضاکارانہ طور پر زندہ دفن

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان سائنسی تحقیق کے لیے زندہ دفن ہونے جیسے خوفناک تجربے سے بھی گزر سکتا ہے؟ اٹلی میں ہونے والا ایک حیرت انگیز تجربہ اسی جرات مندانہ عمل کی مثال بن گیا، جہاں 36 رضاکاروں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ایک ایسی ڈیوائس کی آزمائش میں حصہ لیا جو برفانی تودوں کے نیچے دبے افراد کو سانس لینے میں مدد دے سکتی ہے۔

یہ تجربہ جنوری سے مارچ 2023 کے دوران اٹلی کے ایک برف پوش علاقے میں کیا گیا۔ ہر رضاکار کو تقریباً 50 سینٹی میٹر گہرائی تک برف کے نیچے دفن کیا گیا اور اس دوران اُن کی صحت کی نگرانی جدید آلات سے کی جاتی رہی۔ تجربے میں شامل تمام افراد کی عمریں 18 سے 60 سال کے درمیان تھیں اور وہ مکمل طور پر صحت مند تھے۔

رضاکاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا—ایک گروپ کے پاس “سیف بیک” (SafeBCK) نامی ڈیوائس موجود تھی، جبکہ دوسرا گروپ اس کے بغیر تھا۔ یہ جدید ڈیوائس برف کے اندر سے ہوا کھینچ کر براہِ راست سانس کی نالی تک پہنچاتی ہے، جس سے آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے کا عمل سست ہوجاتا ہے۔ اسے چلانے کے لیے کسی اضافی آکسیجن سلنڈر یا ماؤتھ پیس کی ضرورت نہیں پڑتی۔

نتائج حیران کن رہے، جن رضاکاروں نے سیف بیک کا استعمال کیا، وہ برف کے نیچے اوسطاً 35 منٹ تک زندہ رہے، جبکہ بغیر ڈیوائس والے رضاکار صرف 6 منٹ بعد ہی دم گھٹنے کے قریب پہنچ گئے۔ تجربے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈیوائس والے گروپ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 1.3 فیصد رہی، جب کہ دوسرے گروپ میں یہ 6.1 فیصد تک جا پہنچی۔

محققین کا کہنا ہے کہ برفانی تودے گرنے سے ہونے والی زیادہ تر اموات پہلے 35 منٹ میں دم گھٹنے کے باعث ہوتی ہیں، اور اگر اس عرصے میں سانس لینے کا وقت بڑھایا جاسکے تو سیکڑوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

یہ انوکھا تجربہ نہ صرف انسانی حوصلے کی مثال ہے بلکہ جدید سائنسی اختراع کی ایک امید افزا جھلک بھی—ایک ایسی ٹیکنالوجی جو مستقبل میں زندگی اور موت کے درمیان فرق بن سکتی ہے۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 1.5 ڈگری تک محدود رکھنے میں ناکام ، اقوام متحدہ
  • دنیا بھر میں پائی جانے والی افیون کا کتنا فیصد افغانستان میں اگ رہا ہے؟
  • عزیزآباد پولیس کی ناک کے نیچے گٹکا و ماوا کھلے عام فروخت
  • سائنسی تجربے کے تحت 36 افراد رضاکارانہ طور پر زندہ دفن
  • بِٹ کوائن 100,000 ڈالر سے نیچے، کرپٹو مارکیٹ میں خوف کی لہر
  • دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری کے ہدف تک محدود رکھنے میں ناکام
  • پاکستان قابل اعتماد عالمی شراکت دار کے طور پر آبھر : خواجہ آصف : بھارت سازشوں میں مصروف : عطاء تارڑ 
  • مصروف ترین شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر گرین لائن منصوبے پر سڑک کو اکھاڑنے کے بعد تعمیراتی کام روک دیا گیا
  • پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ