Jasarat News:
2025-11-11@14:43:04 GMT

سائنسی تجربے کے تحت 36 افراد رضاکارانہ طور پر زندہ دفن

اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان سائنسی تحقیق کے لیے زندہ دفن ہونے جیسے خوفناک تجربے سے بھی گزر سکتا ہے؟ اٹلی میں ہونے والا ایک حیرت انگیز تجربہ اسی جرات مندانہ عمل کی مثال بن گیا، جہاں 36 رضاکاروں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ایک ایسی ڈیوائس کی آزمائش میں حصہ لیا جو برفانی تودوں کے نیچے دبے افراد کو سانس لینے میں مدد دے سکتی ہے۔

یہ تجربہ جنوری سے مارچ 2023 کے دوران اٹلی کے ایک برف پوش علاقے میں کیا گیا۔ ہر رضاکار کو تقریباً 50 سینٹی میٹر گہرائی تک برف کے نیچے دفن کیا گیا اور اس دوران اُن کی صحت کی نگرانی جدید آلات سے کی جاتی رہی۔ تجربے میں شامل تمام افراد کی عمریں 18 سے 60 سال کے درمیان تھیں اور وہ مکمل طور پر صحت مند تھے۔

رضاکاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا—ایک گروپ کے پاس “سیف بیک” (SafeBCK) نامی ڈیوائس موجود تھی، جبکہ دوسرا گروپ اس کے بغیر تھا۔ یہ جدید ڈیوائس برف کے اندر سے ہوا کھینچ کر براہِ راست سانس کی نالی تک پہنچاتی ہے، جس سے آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے کا عمل سست ہوجاتا ہے۔ اسے چلانے کے لیے کسی اضافی آکسیجن سلنڈر یا ماؤتھ پیس کی ضرورت نہیں پڑتی۔

نتائج حیران کن رہے، جن رضاکاروں نے سیف بیک کا استعمال کیا، وہ برف کے نیچے اوسطاً 35 منٹ تک زندہ رہے، جبکہ بغیر ڈیوائس والے رضاکار صرف 6 منٹ بعد ہی دم گھٹنے کے قریب پہنچ گئے۔ تجربے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈیوائس والے گروپ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 1.

3 فیصد رہی، جب کہ دوسرے گروپ میں یہ 6.1 فیصد تک جا پہنچی۔

محققین کا کہنا ہے کہ برفانی تودے گرنے سے ہونے والی زیادہ تر اموات پہلے 35 منٹ میں دم گھٹنے کے باعث ہوتی ہیں، اور اگر اس عرصے میں سانس لینے کا وقت بڑھایا جاسکے تو سیکڑوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

یہ انوکھا تجربہ نہ صرف انسانی حوصلے کی مثال ہے بلکہ جدید سائنسی اختراع کی ایک امید افزا جھلک بھی—ایک ایسی ٹیکنالوجی جو مستقبل میں زندگی اور موت کے درمیان فرق بن سکتی ہے۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

جب 50 سال پرانے برگد نے دوبارہ سانس لی، محکمہ جنگلات کا ریسکیو آپریشن

لاہور:

کاہنہ کے قریب حویلی چیتو والی کے علاقے میں پچاس سالہ پرانا برگد کا درخت تیز ہواؤں کے باعث راجباہ کے اندر گر گیا تھا، محکمہ جنگلات نے کامیاب کارروائی کے بعد دوبارہ اسی جگہ لگا دیا۔

یہ درخت گاؤں کی بزرگ خاتون مجیداں بی بی کے مرحوم شوہر نے اپنے ہاتھوں سے نصف صدی قبل لگایا تھا۔ ان کے لیے یہ درخت صرف ایک سایہ دار شجر نہیں بلکہ زندگی بھر کی یادوں کا محافظ تھا۔

جب یہ تناور درخت زمین میں گرا تو مجیداں بی بی کے بقول انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کی زندگی کا آخری سہارا بھی چھن گیا ہو وہ اور ان کے بچے کئی گھنٹے اس کے گرد بیٹھے روتے رہے، جمعہ کے روز جب کرین کی مدد سے محکمہ جنگلات کے عملے نے اس عظیم برگد کو دوبارہ کھڑا کرنے کا عمل شروع کیا تو مجیداں بی بی کی آنکھوں میں آنسوؤں کی بجائے خوشی کی چمک ابھرنے لگی۔

جیسے جیسے درخت کا بھاری تنا سیدھا ہوتا گیا، گاؤں کے بچے جو برسوں سے اس کے سائے میں کھیلتے رہے تھے جوش سے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔ منظر کچھ ایسا تھا جیسے کسی حادثے کا شکار زخمی انسان کو زندگی میں واپس لایا جا رہا ہو۔

یہ ریسکیو مشن شجر دوست عبدالباسط بلوچ اور محکمہ جنگلات کے افسران کی کوششوں سے ممکن ہوا۔ عبدالباسط بلوچ نے بتایا کہ جب انہیں اطلاع ملی کہ برگد کا قدیم درخت پانی کے بہاؤ اور تیز ہواؤں سے اکھڑ گیا ہے تو انہوں نے فوری طور پر جنگلات کے محکمے سے رابطہ کیا۔

ان کے مطابق ہم نے کرینوں اور ماہرین کی مدد سے درخت کو دوبارہ اسی جگہ نصب کیا جہاں یہ پہلے موجود تھا۔ کچھ شاخیں کاٹنا ضروری تھیں تاکہ جڑوں کو دوبارہ زمین میں پیوست کیا جا سکے۔ ان زخموں پر ہم نے ہلدی کا لیپ کیا اور کپڑے سے باندھ دیا تاکہ نئی کونپلیں پھوٹ سکیں۔ ایک صحت مند درخت 37 انسانوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے، اس لحاظ سے آج ہم نے صرف ایک درخت نہیں بلکہ 37 زندگیاں بچائی ہیں۔"

چیف کنزرویٹر فاریسٹ سینٹرل پنجاب ثاقب محمود کے مطابق درختوں کی منتقلی اب جدید مشینری اور مہارتوں کی بدولت ممکن ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برگد ہزاروں سال تک زندہ رہنے والا درخت ہے جو فضا کو صاف کرنے، آکسیجن پیدا کرنے اور سموگ کے تدارک میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند برس میں ایسے درجنوں درخت جو کاٹے جانے والے تھے یا قدرتی طور پر گر گئے تھے انہیں محفوظ طریقے سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا جہاں وہ دوبارہ سے بڑھنے لگے ہیں۔

سب ڈویژنل فاریسٹ آفیسر عائشہ نواز نے بتایا کہ برگد صرف ایک درخت نہیں بلکہ خطے کی تاریخ، ثقافت اور روایت کا استعارہ ہے۔ صدیوں سے لوگ اسے بوڑھ یا بوہڑ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کی جڑوں سے پھوٹتی ریشے دار شاخیں زمین میں پیوست ہو کر نئے درختوں کو جنم دیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ برگد کو زندگی کی تسلسل اور تجدید کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

ہندو مت اور بدھ مت کے پیروکار بھی برگد کو مقدس درخت مانتے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق قدیم زمانے میں برگد کے نیچے عبادت اور پوجا کا رواج تھا۔ 

ماہرین کے مطابق دو سے تین برس میں اس کی جڑیں پھر سے زمین کے اندر مضبوطبی پکڑنا شروع کردیں گی، کئی روز سے اکھڑے ہوئے اس درخت کو جب پھر سے کھڑا کردیا گیا تو جہاں مقامی نوجوان اور بچے  اسے دیکھ کرخوشی کا اظہار کررہے تھے وہیں پرندوں کی واپسی بھی شروع ہوگئی جبکہ مجیداں بی بی خاموشی سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں جیسے زندگی نے ایک بار پھر اپنی جڑوں سے جنم لیا ہو۔

 

متعلقہ مضامین

  • مغرب کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اب ایران کی سائنسی ترقی کو تسلیم کرلیں: ایرانی وزیر خارجہ
  • عدالت میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی گروپ میں فائرنگ، 4 زخمی
  • انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے زیراہتمام زید اسلامک ریسرچ سینٹر کی سماعت گاہ میںسالانہ تقریب کے شرکاکاوائس چانسلر کے ہمراہ گروپ فوٹو
  • پی ٹی آئی کا بڑا ایکشن‘ سیف اللہ ابڑو کو پارلیمانی پارٹی واٹس ایپ گروپ سے نکال دیا
  • عرفان صدیقی سانس کی تکلیف کے باعث اسپتال میں زیر علاج ہیں، اہل خانہ
  • عرفان صدیقی سانس کی تکلیف کے باعثآئی سی یو میں زیر علاج ہیں، اہلخانہ
  • فرقان قریشی کو ایوارڈ میں کس تلخ تجربے کا سامنا رہا؟ اداکار نے کہانی سنادی
  • پیوٹن نے جوہری تجربے کی تیاری کا حکم دے دیا‘ روسی وزارت خارجہ کی تصدیق
  • ویگروگروپ کے تحت ریسرچ بیس سیمینار کا انعقاد ، زمینداروں کی شرکت
  • جب 50 سال پرانے برگد نے دوبارہ سانس لی، محکمہ جنگلات کا ریسکیو آپریشن