یونیورسکو کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر سویرا شامی کی عالمی فورم میں نمائندگی
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) یونیورسکو پاکستان نے چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف ڈیجیٹل میڈیا، پروفیسر ڈاکٹر سویرا شامی کو قازقستان کے شہر الماتی میں منعقدہ بین الاقوامی فورم "MIL Bridge Central Asia: Regional Solutions for Global Media and Information Literacy (MIL) Challenges" میں شرکت کے لیے نامزد کیا۔
یہ فورم 30 اکتوبر 2025 کو یونیورسکو الماتی ریجنل آفس اور میڈیا نیٹ انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس کے اشتراک سے منعقد ہوا، جس میں قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور پاکستان کے ماہرین اور عملی شعبے کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس اجلاس کا مقصد خطے میں میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی (MIL) کے فروغ، تنقیدی سوچ کے استحکام اور علاقائی تعاون کو مضبوط بنانا تھا۔
پاکستان، سری لنکا ، زمبابوے کرکٹ سیریز ، سیکیورٹی کیلئے آرمی اور رینجرز کے دستے طلب
پروفیسر ڈاکٹر سویرا شامی نے اس موقع پر یونیورسکو کے اشتراک سے اپنے منصوبے "Strengthening the Media and Information Literacy (MIL) Policy Framework in Pakistan" پر تفصیلی پریزنٹیشن دی۔ انہوں نے پاکستان میں MIL کے فروغ کے لیے کیے گئے اقدامات جیسے کہ کثیر اسٹیک ہولڈر مشاورت، نوجوانوں کی شمولیت پر مبنی پروگرامز، اور پالیسی ڈائیلاگز پر بھی روشنی ڈالی، جن کا مقصد ڈیجیٹل لچک اور باشعور شہری شرکت کو فروغ دینا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں اس وقت Global MIL Week 2025 منایا جا رہا ہے، جس کا موضوع ہے:“Minds Over AI – MIL in Digital Spaces”
اس سلسلے میں الماتی کا یہ علاقائی ورکشاپ عالمی سطح پر اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی (MIL) کس طرح معاشروں کو ڈیجیٹل تبدیلی، شمولیت، اور باشعور فیصلوں کے عمل میں مدد دے سکتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی پنجاب قیادت نے پیپلزپارٹی کے تحفظات دورکردیئے،پاور شیئرنگ پربریک تھروکا امکان
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
افغانستان، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا
افغانستان میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن کے مطابق 2021ء کے بعد سے 539 واقعات ایسے سامنے آئے جن میں صحافیوں پر تشدد، گرفتاریوں اور زبردستی نشر شدہ اعترافی ویڈیوز شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد آزادیِ صحافت بری طرح متاثر ہوئی ہے، جہاں سنسرشپ، گرفتاریوں اور تشدد نے میڈیا کا ماحول مفلوج کر دیا ہے۔ آمو ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے دورِ حکومت میں میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور پریس فریڈم انڈیکس میں افغانستان کی درجہ بندی مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ 2024ء میں افغانستان 180 ممالک میں سے 178ویں نمبر پر آ گیا ہے، جو عالمی سطح پر تشویش کا باعث ہے۔ افغانستان میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن کے مطابق 2021ء کے بعد سے 539 واقعات ایسے سامنے آئے جن میں صحافیوں پر تشدد، گرفتاریوں اور زبردستی نشر شدہ اعترافی ویڈیوز شامل ہیں۔ تنظیم کے مطابق، متعدد صحافی اب بھی بے بنیاد الزامات پر طالبان کی قید میں ہیں۔ بین الاقوامی ادارہ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (RSF) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں 12 میڈیا ادارے بند کر دیے گئے، جب کہ خواتین صحافیوں کی 80 فیصد نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ معاون مشن برائے افغانستان (UNAMA) کے مطابق طالبان نے ٹی وی چینلز پر کسی بھی جاندار کی تصویر دکھانے پر پابندی لگا کر میڈیا کو مزید محدود کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر خبردار کیا کہ افغانستان میں آزادیِ اظہار شدید خطرے میں ہے۔ افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں سچ بولنا اب جرم بن چکا ہے، جب کہ خوف اور دباؤ کی فضا میں خاموشی مجبوری بن گئی ہے۔ عالمی برادری سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں آزادیِ صحافت اور اظہارِ رائے کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔