اوپن اے آئی کی ویڈیو میکر ایپ ’سورا‘ اینڈرائیڈ صارفین کے لیے متعارف
اشاعت کی تاریخ: 7th, November 2025 GMT
معروف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپنی اوپن اے آئی نے اپنی ویڈیو میکر ایپلی کیشن ’سورا‘ اینڈرائیڈ صارفین کے لیے متعارف کرا دی۔
ٹیکنالوجی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایپ بالکل ٹک ٹاک کی طرز پر کام کرتی ہے اور صارفین کو صرف تحریری ہدایات دے کر ویڈیو بنانے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی صارف یہ لکھے کہ وہ ٹوکیو کی سڑک پر سگنلز کی روشنیوں میں چل رہا ہے، تو یہ ایپ اسی منظر کو ویڈیو کی شکل میں پیش کر دے گی۔
ابتدائی طور پر یہ ایپ صرف آئی او ایس صارفین کے لیے دستیاب تھی، جہاں اسے صرف پانچ دن میں 10 لاکھ سے زائد بار ڈاؤنلوڈ کیا گیا, تاہم اب یہ اینڈرائیڈ پر بھی متعارف کروا دی گئی ہے، جو اس وقت چند ممالک میں دستیاب ہے جن میں امریکا، کینیڈا، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں۔
نئے اینڈرائیڈ ورژن میں مفت صارفین 15 سیکنڈ تک کی ویڈیوز بنا سکتے ہیں، جب کہ پرو سبسکرائبرز 25 سیکنڈ تک کی ویڈیوز تیار کر سکتے ہیں, اس ایپ میں ویڈیوز کو عمودی (Vertical)، مربع (Square) اور افقی (Landscape) فارمیٹ میں بنایا جا سکتا ہے، جس سے انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کرنا مزید آسان ہو جاتا ہے۔
فی الحال اینڈرائیڈ ورژن ابھی بھی محدود ممالک میں دعوتی بنیادوں پر دستیاب ہے، یعنی ہر صارف اسے فوری طور پر استعمال نہیں کر سکتا، تاہم مستقبل میں یہ تمام ممالک کے صارفین کے لیے دستیاب کر دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: صارفین کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی جنگی جرائم: یو ٹیوب نے سیکڑوں ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گوگل، مائیکروسافٹ اور ایمیزون جیسے بڑی ٹیکنالوجی اداروں پر طویل عرصے سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں تعاون کے الزامات لگتے رہے ہیں، اور اب ایک اور بڑا پلیٹ فارم یوٹیوب بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق امریکا میں بائیں بازو کے نمائندہ سمجھے جانے والے میڈیا گروپ دی انٹرسیپٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ مطابق گوگل کی ملکیت والے اس پلیٹ فارم نے خاموشی سے فلسطینی انسانی حقوق کی 3 بڑی تنظیموں کے اکاؤنٹس حذف کر دیے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی تشدد کو دستاویز کرنے والی 700 سے زائد ویڈیوز غائب ہو گئیں، یہ اقدام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد کیا گیا۔
یہ تین تنظیمیں الحق، المیزان سینٹر فار ہیومن رائٹس، اور فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو شواہد فراہم کر چکی تھیں، جس نے بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
اکتوبر کے آغاز میں آئی سی سی کے فیصلے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے دفاع میں شدت اختیار کرتے ہوئے عدالت کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں اور ان افراد کو نشانہ بنایا جو عدالت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔
سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس کی وکیل کیتھرین گیلاگر نے دی انٹرسیپٹ کو ایک بیان میں بتایا کہ یوٹیوب کا ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد عوامی نظروں سے ہٹانا افسوسناک ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان حذف شدہ ویڈیوز میں امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تشدد کا شکار فلسطینیوں کی گواہیاں، اور دی بیچ جیسی دستاویزی فلمیں شامل تھیں، جو اسرائیلی فضائی حملے میں ساحل پر کھیلتے ہوئے بچوں کی شہادت کی کہانی بیان کرتی تھیں۔
الحق کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا یوٹیوب چینل 3 اکتوبر کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حذف کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ یوٹیوب کا انسانی حقوق کی تنظیم کا پلیٹ فارم ختم کرنا اصولی ناکامی اور اظہارِ رائے و انسانی حقوق کے لیے خطرناک رجحان ہے۔
فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے قانونی مشیر باسل السورانی نے کہا کہ یوٹیوب اس اقدام سے فلسطینی متاثرین کی آواز دبانے میں شریک جرم بن گیا ہے۔
یوٹیوب کے ترجمان بوٹ بولوِنکل نے تصدیق کی کہ ویڈیوز یہ کہتے ہوئے حذف کر دی گئی ہیں کہ گوگل متعلقہ پابندیوں اور تجارتی قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اقدام صرف تنظیموں کی سرکاری اکاؤنٹس تک محدود تھا، اگرچہ کچھ حذف شدہ ویڈیوز فیس بک، ویمیو اور وے بیک مشین جیسے پلیٹ فارمز پر جزوی طور پر دستیاب ہیں، لیکن مکمل ریکارڈ موجود نہیں رہا،جس سے شواہد کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ سے غائب ہو گیا۔