سالانہ روح پرور تبلیغی اجتماعی
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
زبان پر ذکر الٰہی ، آنکھوں میں شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے نشان، کاندھوں پر بستر، ایک ہاتھ میں ضروری سامان اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح لیے بے شمار قافلے اپنے مخصوص انداز اور ترتیب سے پوری دنیا میں ملک ملک شہر شہر، نگرنگر اور قریہ قریہ اپنے قدموں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے اﷲ کے راستہ میں بڑی دلسوزی کے ساتھ امت کے ایک ایک فرد کے دروازے پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔
ان قافلوں کو عرف عام میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ کہا جاتا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت اور لمحہ نہیں گزرتا جس میں تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں جا ری نہ ہو۔
رائیونڈ لاہور میں سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع کے حسبِ سابق اس مرتبہ بھی دو سیشن ہیں۔ پہلا سیشن6 نومبر 2025 بعد نماز عصر سے شروع ہوکر 9 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔
جب کہ دوسرا سیشن13 نومبرکو عصر کی نماز سے شروع ہوکر 16 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔اس عالمی اجتماع میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شریک ہوں گے اورآخری روز ’’اجتماعی دعا‘‘ میں یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔
آج جس تبلیغی تحریک کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس حمتہ اللہ علیہ ہیں جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی۔ پوری دنیا میں تبلیغی جماعت جس دعوت و تبلیغ والے کام کو پوری محنت، اخلاص وللہیت اور ایک نظم کے ساتھ کر رہی ہے اور اس کام کے اثرات و ثمرات سے آج کوئی بھی ذی ہوش انسان انکاری نہیں۔
اللہ کی مدد و نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔ دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد اس تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خوب نوازا تھا۔ اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ صدیوں تک یکے بعد دیگرے نسل درنسل اس خاندان میں علماء وفضلاء، اہل کمال، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے رہے۔
آپ کے والد مولانا محمد اسماعیل ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ’’رابعہ سیرت‘‘ خاتون تھیں جنہو ں نے آپ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپ کے اندر نمایاں اور خاندان میں آپ کی شہرت ولی کامل کی تھی۔
آپ نے جہاں ایک طرف اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود الحسن جیسے مجاہد عالم دین اور دیگر نامور علماء سے علم دین حاصل کیا ، وہاں آپ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔
ایک مرتبہ آپ نے اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے عرض کیا کہ حضرت ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے، حضرت گنگوہی یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کی شکایت کی تھی توحاجی امداد اللہ صاحب نے جواب فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ آپ سے کام لیں گے‘‘۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو اردگرد دین سے دوری دیکھی تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہؐ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے۔
آپ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی، اب سمٹتی چلی جا رہی ہے، جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں، اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انھوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے، اس لیے آپ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس اور خواص میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے۔
اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں۔
اس لیے مولانا الیاس کاندھلوی ضروری سمجھتے تھے کہ اس ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ’’احیاء‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہو۔
اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاء کرام علیہم السلام کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرام جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فیضاء دینی بنے گی تو لوگوں میں دین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہوگا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔۔۔
حضرت مولانا محمد الیاس کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔
بعض اوقات اسی فکر میں آپ ’’ماہی بے آب‘‘ کی طرح تڑپتے، آہیں بھرتے اور فرماتے تھے، میرے اﷲ میں کیا کروں ،کچھ ہوتا ہی نہیں۔ کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔
اور پھر مولانا محمد الیاس خود سراپا دعوت بن کر ’’دعوت و تبلیغ ‘‘ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ دیوانہ وار ’’میوات‘‘ کے ہر علاقہ میں پھرے، ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کیے۔
راتوں کو خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے۔ اور پھر اپنی اہمت و طاقت ، مال ودولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔ اس دوران اپنے رفقاء اور ساتھیوں کو ایک خط میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ! تم غور کرو، دنیائے فانی میں کام کے لیے تو گھر کے سارے افراد ہوں او ر اس دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے صرف ایک آدمی کو کہا جائے اور اس پر بھی نباہ نہ ہو تو آخرت کو دنیا سے گھٹایا ،یا نہیں گھٹایا؟
حضرت مولانا الیاس کی یہ عالمگیر’’احیائے اسلام کی تحریک‘‘ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔
مولانا الیاس نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹے وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال کی پابندی کرناروزانہ دو تعلیمیں کروانا ایک مسجد میں اور ایک گھر میں، ہفتہ میں دو گشت کرنا، جس کے تحت کچھ وقت نکال کر اپنے ماحول میں ضروریات دین کی تبلیغ کے لیے باقاعدہ جماعت بنا کرایک امیر اور ایک نظام کی ماتحتی میں اپنی جگہ اور قرب و جوار میں تبلیغی گشت کرنا۔
ہر مہینہ میں تین دن اس دعوت و تبلیغ والے کام میں لگاتے ہوئے اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقہ میں گشت و اجتماع کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کے لیے امادہ اور تیار کرنا، سال میں ایک ’’چلہ‘‘ یعنی چالیس دن اللہ کے راستہ میں دعوت و تبلیغ کے لیے لگانا، اور پھر چار مہینے(تین چلے) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نکل کر لگاتے ہوئے دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ بقول حضرت مولانا پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کے کہ ’’اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا اور مرتے مرتے کرناہے‘‘۔
مولانا محمد الیاس نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزراتی ہیں۔ ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم، گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ، متحرک دینی مدرسہ، اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ اس تبلیغی جماعت کی افادیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اصلاح نفس کے چار طریقے ہیں اور حْسنِ اتفاق سے ’’تبلیغ‘‘ کے اندر یہ چاروں طریقے جمع ہیں، صحبتِ صالح بھی ہے، ذکر و فکر بھی، مواخات فی اللہ بھی ہے، دشمن سے عبرت و موعظت بھی اور محاسبہ نفس بھی ہے۔
اور انھی چاروں کے مجموعہ کا نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہے عام لوگوں کے لیے اصلاح نفس کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ، اس طریقہ کار سے دین عام ہوتا جا رہا ہے اور ہر ملک کے اندر یہ صدا پہنچتی چلی جا رہی ہے اور اس کے ذریعہ لوگوں کے عقائد درست ہو رہے ہیں، لوگ تیزی کے ساتھ اعمال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو حضورؐ کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اس دعوت و تبلیغ والے کام تبلیغی جماعت ایک وقت میں والے کام کو اللہ تعالی کرتے ہوئے پوری دنیا اللہ علیہ کے ساتھ کے اندر پیدا ہو اور پھر رہے ہیں اور دین رہی ہے تھے کہ دین کے کام کے اور اس کے لیے
پڑھیں:
آذربائیجان کے صدر کی دعوت پر وزیراعظم باکو پہنچ گئے
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف آذربائیجان کے صدر الہام علییوو کی دعوت پر آذربائیجان کے یوم فتح کی تقریب میں شرکت کے لیے دارالحکومت باکو پہنچ گئے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں۔
باکو کے حیدر علیوو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر آذزربائیجان کے اول نائب وزیراعظم یعقوب ایوبوو، آذربائیجان کے اول نائب وزیر خارجہ فریز رضایوو، آذر بائیجان میں تعینات پاکستان کے سفیر قاسم محی الدین اور سفارتی عملے نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔
دورے کے دوران وزیراعظم کی آذربائیجان کے صدر الہام علیوو سے دو طرفہ ملاقات بھی ہوگی۔