زندہ رہنا سیکھئے! (دوسرا اور آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT
گزشتہ کالم کے اہم نکات‘ توجہ کے لیے پیش کر کے آگے بڑھتا ہوں۔ معمولی سی ورزش‘ معتدل غذا اور وقت کے بہتر استعمال کو ذہن میں رکھیئے۔ تھوڑی دیر کے لیے مکمل اکیلے خاموشی سے بیٹھ جایئے ۔ سوچیے کہ کون سی ایسی چیزیں ہیں جو آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار لاتی ہیں۔
اس کے بالکل متضاد‘ وہ کون سے عناصر ہیں جن سے رنج پہنچتا ہے۔ اب ان تمام کی فہرست بنایئے ۔ یہ لسٹ صرف اور صرف آپ کی ذات کے لیے ہے۔ اسے کسی کو بھی نہ دکھایئے۔ جو معمولات آزار کا باعث بنتے ہیں، ان پر لکیر لگایئے اور ساتھ ہی انھیں زندگی سے نکال دیجیے ۔ مت سوچیے کہ یہ کتنے قربت کے واسطے ہیں۔ ان میں تلخ انسان اور مشکل رشتے دونوں شامل ہیں۔ بالکل گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جیسے ہی ترش عناصر‘ راستے سے ہٹ جائیں گے پچاس فیصد مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے۔
ہاں رشتوں کو ترک کرتے وقت‘ حد درجہ عزت و احترام کا دامن پکڑیے۔ آخری ملاقات ‘ مسکراہٹ پر ختم ہونی چاہیے۔نوٹ فرمائیے گا کہ فوراً ذہن نہیں بلکہ روح ہلکی ہو جائے گی۔ اب ذرا سکے کے دوسرے رخ پر غور کیجیے۔ خوشی فراہم کرنے والے معمولات کو توانا فرمایئے۔ اگر ایک دوست سے مل کر بے ساختہ قہقہے لگاتے تھے اور وہ آپ سے فاصلے یا کسی بھی اور وجہ سے ذرا سا دور ہو گیا ہے تو اسے خود جا کر ملیے۔ خوب ہنسیے ۔ اس سے کہیں کہ آؤ‘ کہیں باہر جا کر کسی کیفے میں کافی پیتے ہیں۔ یا کسی تھڑے پر براجمان ہو کر‘ چوکڑی بھر کر‘ عام سی پیالیوں میں شڑ شڑ کر کے چائے پیتے ہیں۔ دو چار گھنٹے‘ اپنے دوست کے ساتھ گزار کرگھر واپس آئیں گے۔ تو اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ مگر یہ تو صرف اور صرف ابتداء ہے۔
یاد رکھیے! کہ زندگی‘ آپ کی سب سے بڑی جائیداد ہے۔ اسے ضایع مت ہونے دیں۔اکثر لوگ جوانی یا عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قنوطیت پسند ہو جاتے ہیں۔ بہترین معاملے میں بھی منفی رنگ نکالنا ان کے لیے معمولی سا کام ہے۔ ان سے تو خیر اجتناب ہی فرمائیے۔ یاد رکھیے زندگی کا ریموٹ کنٹرول آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر کسی اور کو دے رکھا ہے تو فوراً واپس لیجیے۔ دن اور رات‘ اپنی سوچ کے مطابق صرف کریں۔ کوئی بڑی بات نہیں کر رہا۔ بالکل سادہ سی باتیں ہیں جو آپ کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیں گی۔ گھر کے نزدیک کسی میدان میں وقت گزاریے۔ درختوں ‘ پودوں‘ پتوں اورپرندوں کے رنگوں پر غور فرمائیے۔ ہوا کے جھونکوں کی سرسراہٹ کو اپنے اندر سمو لیجیے۔ خود کو اس کیفیت کے حوالے کر دیجیے۔ پندرہ بیس منٹ کے قلیل وقت میں روح ہری ہو جائے گی۔
اب ذرا بیرونی معاملات پر بھی نظر دوڑایئے۔ ہر گلی‘ محلہ یا پوش علاقے میں ایسے کئی ضعیف افراد مل جائیں گے جو شدید تنہائی کا شکار ہیں۔ ان سے گفتگو کرنی شروع کردیجیے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شروع میں قدرے حیران ہوں۔ پر پیچھے مت ہٹیے۔ میل جول جاری رکھیں۔ اگر بازار جا رہے ہیں تو ان سے پوچھ لیں کہ کیا کوئی چیز تو نہیں منگوانی؟ دیکھیے گا کہ تھوڑے سے عرصے میں وہ آپ کو دن میں تلاش کر کے ملنا شروع کر دیں گے۔ یہ تو میں ذرا پختہ عمر کے مرد اور خواتین کی بات کر رہا ہوں۔ اگر اوائل عمری میں ہیں تو ایک نیا کام کریں۔ اکثر گھروں میں مائیں کھانا بناتی ہیں۔ ویسے ماں سے بہتر کوئی کھانا بنا ہی نہیں سکتا۔اس لیے کہ ان کی بنائی ہوئی اشیاء میں محبت اور خلوص کی آمیزش ہوتی ہے جو بازار سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔
ایک دن اسکول یا کالج یا دفتر سے واپس آ کر ‘ باورچی خانے میں کھانا بنانے میں والدہ کی مدد کرنی شروع کر دیں۔ سبزی کاٹنے کی کوشش کریں۔ اگر پوری زندگی کچن میں نہیں گئے تو پھر بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ مصالوں کے ڈبوں سے مصالحہ جات نکالنے میں ماں کی مدد کریں۔ پھر ڈبے ترتیب سے واپس رکھیں۔ ہفتے میں کم از کم دو چار بار یہ کرنے کی ضرورہمت کریں، گھر کا ماحول بدل جائے گا۔ دعائیں ملنی تو خیر لازم ہیں۔ چہروں پر خوشی کا رنگ بکھر جائے گا۔ اور جناب‘ شخصیت میں مسرت کا وہ نور بکھرے گا کہ اندر سے خوشبودار ہو جائیں گے۔
والدین‘ اپنے بچوں سے محبت تو کرتے ہیں مگر ان کو ہر دم ٹوکتے بھی رہتے ہیں۔ اکثر اوقات ‘ والد یا والدہ کو علم نہیں ہوتا کہ اس سے بچوں کے ذہن پر کتنا برا اثر پڑتا ہے۔ ان میں سے متعدد بچے تو احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کہ پتہ نہیں ان کی شخصیت میں کیا کمی ہے کہ عزیز ترین رشتے بھی بس خامیاں ہی نکالتے رہتے ہیں۔ اپنے بچوں پر نکتہ چینی کرنا چھوڑ دیں۔ ان کو ہر بات پر بار بار نہ ٹوکیں۔ اگر کسی بچے یا بچی کے امتحان کا نتیجہ ‘ توقع پر پورا نہیں اترا۔ تو اپنے غصے کو باہر نہ نکلنے دیں۔
صرف یہ کہیں کہ آپ کو ان سے ہر حال میں محبت ہے۔ بس آنے والے امتحان میں تھوڑی اور محنت کر لوں۔ حیران رہ جائیں گے۔ جب آپ کی اولاد‘ اگلے امتحان کے لیے خود بخود اتنی شدید محنت شروع کر دے گی جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ بچوں کا حوصلہ بڑھائیے۔ باقی خدا پر چھوڑ دیجیے۔ اس عمل سے آپ کی اپنی شخصیت پر جتنے مثبت اثرات پڑیں گے۔ اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ذی روح کو حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو اپنا وطیرہ بنا لیجیے کہ دوسروں کا حوصلہ بن جائیں۔ مثبت جملے کہنے سے آپ کے اندر انقلابی تبدیلی آئے گی جو کہ بہتر ہو گی۔
پاکستان کے تقریباً اسی لاکھ سے ایک کروڑ لوگ‘ ملک سے باہر زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کو چھوڑنا قطعاً آسان بات نہیں ہے۔ مصروفیت اور کئی مزید وجوہات کی بنا پر باہمی رابطہ کمزور پڑتا جاتا ہے۔ اگر آپ ‘ صرف ایک فون کر کے دوسروں کی خیریت معلوم کرنا شروع کر دیں۔ اس کو اپنی عادت میں شامل کر لیں۔ دو تین دن یا کسی بھی متعین وقت سے ‘ فاصلوں کو سمیٹنے کی کوشش کریں تو ہر چیز بدل جائے گی۔ خوشی کسی پیڑ پر نہیں اگتی۔ کسی درخت کے ساتھ بھی لٹکی نہیں ہوتی ۔ یہ تو آپ کے اردگرد ہر وقت موجود ہوتی ہے۔
بس کوشش کر کے اسے واپس لانا ہے۔ پھر اپنی شخصیت کے پنجرے میں اسے قید کر لینا ہے۔ اس واپسی کا کوئی ایک لگا بندھا کلیہ یا طریقہ نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی ایک مستند اصول موجود نہیں ہے۔ جس سے آپ خوشی کی وادی کے دروازے کو عبور کر کے‘ پر سکون مقام پر پہنچ جائیں۔ دراصل یہ تو تلاش کرنے سے فوراً خود بخود‘ دروازے پر دستک دینی شروع کر دے گی۔جس کالونی میں رہتے ہوں۔ ہوسکتا ہے‘ وہاں ہمسائیگی کا کوئی رواج نہ ہو۔ پر روایت کو توڑیے ۔ ایک دن کھانا بنا کر ‘ ساتھ والوں کے گھر بھجوا دیجیے۔ ان کی طرف سے شکریہ کا پیغام ضرور آئے گا۔ تھوڑے دن بعد‘ حیران رہ جائیں گے کہ وہ بھی قاب میں ‘ آپ کی طرف‘ سویٹ ڈش یا کھانا ضرور بھجوائیں گے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ اپنے نزدیک رہنے والوں کے معمولات میں دخل دیں مگر بہتر طرز عمل سے دلوں میں آویزہ دیواروں کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس کو بھی رہنے دیجیے۔ آپ گاڑی میں جا رہے ہیں۔
سڑک پر اینٹیں پڑی نظر آ رہی ہیں۔ گاڑی سے اتریے۔ اینٹوں کو اٹھا کر راہ گزر سے دور رکھ دیجیے۔ دل کے اندر ایک مثبت جذبہ آئے گا۔ ایک اطمینان حاصل ہو گا جو اجنبی سا ہو گا۔ بہتر محسوس کریں گے، عام لوگوں کی مدد کرنا شروع کر دیں۔ بلا کسی صلہ کے توقع کے‘ کسی بزرگ یا بچے کو ٹریفک سے اٹی ہوئی شاہراہ سہارا دے کر پار کروا دیں۔ یہ فعل شاید معمولی سا لگے۔ مگر یہ غیر معمولی اچھائی ہے۔ گھر میں وہ تمام کپڑے‘ جو آپ نہیں پہنتے ۔
انھیں ڈرائی کلین کروا لیں یا گھر پر ہی صاف کروائیں اور جہاں بھی سمجھتے ہیں کہ اس جگہ پر لوگوں کو کپڑوں کی ضرورت ہے۔ وہاں خاموشی سے تقسیم کر آئیں۔ کوئی تشہیر نہ کریں۔ یہ چھوٹا سا عمل زندگی میں خاموش بہار لے آئے گا، اپنے اوپر اعتماد کیجیے۔ خود اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ کسی قسم کے مصنوعی پن یا بناوٹ کے بغیر‘ اپنے اردگرد کی خوشیوں کو تلاش کر کے اپنی روح کے اندر موجود لاکر میں ڈالتے جائیں۔ تھوڑے عرصے بعد ‘ اندازہ ہو گا کہ آپ نے اب دوبارہ زندہ رہنا شروع کر دیا ہے!یا شاید زندہ ہی اب ہوئے ہیں۔ پہلے صرف سانس لینے کی مشق کر رہے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کھانا بنا جائیں گے کے لیے
پڑھیں:
سندھ کے فنکار نے موہنجودڑو کا 5ہزار سالہ قدیم بھورینڈو نامی مٹی کا ساز دوبارہ زندہ کر دیا
موہنجودڑو کی 5ہزارسالہ قدیم تاریخ میں پیوستہ بھورینڈو نامی مٹی کے ساز کو سندھ کے فنکار فقیر ذوالفقار نے دوبارہ زندہ کردیا، بانسری جیسی آوازیں بکھیرنے والا آلہ موسیقی لمبائی کے بجائے ایک چھوٹے گلک سے مشابہہ ہے، گولائی کے حامل اس ساز میں بیک وقت 8 سوراخوں پر فنکار کی انگلیاں متحرک رہتی ہیں، جن سے نکلنے والی مسحورکن آوازوں سے سننے والے سر دھننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بھورینڈو ساز کو دوام بخشنے کےلیے اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں ہیں، بھورینڈو کو مٹی سے بنانے والے کمہار کی بینائی بھی زائل ہوچکی ہے۔
تیاری کے بعد بھورینڈو کو جاذب نظر بنانے کے بعد مختلف رنگوں کے ذریعے ان پر نقش نگاری بھی کی جاتی ہے، ماضی کے بھورینڈو میں تین سر ہوا کرتے تھے، اب یہ سات سروں کا حامل سازہے، جس سےنئی نسل کو روشناس کروایا جارہا ہے۔
سندھ کے آثارقدیمہ موہنجودڑو کے5 ہزار سال پرانی تہذیب یقینا دیکھنے والوں پر سحرطاری کردیتی ہے، جس کی کھدائی کے دوران کھنڈرات سےملنے والی انسانی استعمال کی اشیا آج بھی عقل انسانی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔اسی قدیم تہذیب کے بطن سے ملنے والا ایک ساز جیسے بھورینڈو (مقامی زبان میں معنی مٹی سے بنا خالی اور چند سوراخوں کا حامل برتن) کی مدھر آوازیں آج بھی دیہی سندھ کےگاوں، دیہات اور کھیت کھلیانوں میں کہیں نہ کہیں گونج رہی ہیں۔
مگر دیہی سندھ کے فنکار فقیرذوالفقار اور ان کےآباواجداد کا ذکر یقینا ضروری ہے جنھوں نے اس ہزاروں سال قدیم ساز کو مسلسل زندہ رکھا ہوا ہے، جس کی جڑیں موہنجودڑو کی قدیم تہذیب میں پیوستہ ہیں،گمان ہےکہ کبھی اس بھولے بسرےساز کو موہنجودڑو کی تہذیب میں خوشی کے مواقعوں پر بجایا جاتا ہوگا۔
یہ کہا جائے تو بےجانہ ہوگا کہ اس ساز کو فقیر ذوالفقارکےگھرانے نے دوبارہ دوام بخشنےمیں کلیدی کردار ادا کیا اور یوں ماضی اس قدیم ساز سے مدھر آوازیں پھوٹ کر کانوں میں رس گھول رہی ہیں، یہ نادرو نایاب ساز گولائی نما چھوٹے سے مٹی کے پیسے جمع کرنے والے ایک گلک سے ملتا جلتا ہے، جس میں 8 باریک سوراخوں پرجب فنکار جب اپنی انگلیوں کوایک خاص ترتیب سے حرکت دیتا ہے، تو مدھر سر سننے والوں پر سحرطاری کر دیتےہیں۔
اس قیدم ساز پر عبور رکھنے والے فنکار فقیر ذوالفقار کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہناتھا کہ ان کے خاندان کی تیسری نسل اس بھوریندو ساز کو بجا رہی ہے، جس کی ابتدا ان کے والد میر محمد لوند نےکی تھی، بھورینڈو صرف ایک ساز نہیں بلکہ سندھ دھرتی کی قدیم تہذیب کی پہچان ہے، بظاہر یہ ساز کئی صدیوں تک خاموش رہا، مگرماضی اور حال کا وہ رشتہ اس وقت بحال ہوا اور انسانی ہاتھوں میں پہنچ کر اس آلہ موسیقی کو دوبارہ زبان مل گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ بھورینڈو کو اکثر کمہار آسانی سے بنا لیتے ہیں کیونکہ اس کی تیاری ہر وہ کمہار باآسانی کر سکتا ہے جو عموما برتن تیار کر سکتےہیں، مگر ایک کمہار ایسا ہے جو بھوریندو کو انتہائی چاہ سے تیار کرتےہیں، جس سےاس آلہ موسیقی کے سرکا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، عمر رسیدہ اللہ جڑیو کی بینائی اب کافی حد تک زائل ہوچکی ہے، مگر ان کا جذبہ ماند نہیں ہوا، وہ آج بھی ایک عام چکنی مٹی سے اس ساز کو بنانےکی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فقیر ذوالفقار کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ دور اور قدیم دور کے بھوریندو میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں،پہلے کے بھورینڈو میں دوسوراخ ہوا کرتےتھے،جو 2 ہی سر بجانے کا حامل تھا،مگر موجودہ بھورینڈو کےذریعے7سر بجائے جاسکتےہیں۔
محققین کے مطابق موہنجودڑو کے آثار میں اس جیسے ساز کی شکلیں مٹی کے مجسموں میں دیکھی گئی تھیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ 5 ہزارسال قبل اس ساز کے ذریعے فنکار سر بکھیرا کرتے تھے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ عادل احمد کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے سندھ انسٹیٹوٹ آف میوزک اینڈ پرفارمنگ آرٹس میں یہ ساز بچوں کو سکھانے کے منصوبے پر کام جاری ہے، بھورینڈو کو یونیسف کے غیر محسوس ورثے کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے، اس فہرست میں تاریخی رسومات، زبانی روایا،فنون لطیفہ اور ورثہ جبکہ کئی قدیمی چیزیں شامل ہیں۔