پاکستان میں ترقی کا ماڈل
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
دنیا آج ہنگامہ خیز دور سے گذر رہی ہے اور انسانی تاریخ کا ریکارڈ یہ حقیقت ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل سے وابستہ خیالات ہی کسی بھی مملکت میں نئی معاشی اور سماجی ترتیب قائم کرنے کا سب سے طاقتور ذریعہ بنتے ہیں۔
پاکستان میں بھی اس وقت یہ رجحان دیکھا جا سکتا ہے کہ ماہرینِ معاشیات، تھنک ٹینکس اور سیاسی راہنما بشمول وہ لوگ جو حکومتی عہدوں پر فائز ہیں، قومی معاشی ترقی کے راستے کھولنے کے لیے کچھ نئے نظریات پیش کر رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات، احسن اقبال کا ایک بیان خاص طور پر قابلِ ذکر ہے:
’’ایک ملک کی اصل طاقت دولت یا اسلحے نہیں بلکہ وژن اور منظم عمل درآمد سے پیدا ہوتی ہے۔‘‘
مینجمنٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے 25ویں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’عظیم قومیں مالیاتی سرمائے نہیں بلکہ انتظامی سرمائے سے تعمیر ہوتی ہیں۔ ہمیں عذر تراشی کے بجائے کارکردگی، رائے کے بجائے ڈیٹا اور اندرونی کشمکش کے بجائے ٹیم ورک کو ترجیح دینی چاہیے۔‘‘
سماجی انصاف
اسی نوعیت کے خیالات کچھ تجزیہ کاروں نے بھی پیش کیے ہیں۔مثال کے طور پر معروف تجزیہ کار اسد حیات کے مطابق’’پائیدار ترقی کا انحصار صرف مالیاتی حساب کتاب نہیں بلکہ سماجی انصاف پر ہونا چاہیے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال ایسے پالیسی اقدامات کی متقاضی ہے جو انسانی فلاح کو معاشی بحالی کے مرکز میں رکھیں … ایسی پالیسیاں جو غریبوں کا تحفظ کریں، مزدوروں کو بااختیار بنائیں اور مستقبل کے جھٹکوں کے خلاف مزاحمت پیدا کریں۔‘‘
دو واقعات
ترقی کے فقدان پر تنقید کی جا رہی ہے مگر ترقیاتی وزیر کا اصرار ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن آج کے دور میں پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور فعال کردار ادا کر رہا ہے۔اس دوران 10 اکتوبر کو قومی اسمبلی میں یہ مطالبہ بھی گونجا کہ سابق فاٹا کو جو اب خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکا ، ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جائے کیونکہ اس خطے کی پسماندگی دہشت گردی کے لیے زمین ہموار کرتی ہے۔
اسی روز یہ خبر بھی سامنے آئی کہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے مزدور مسلسل دوسرے روز سڑکوں پر نکل آئے اور قراقرم ہائی وے کو بند کر دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مزدور قوانین کے مطابق ان کی اجرت فوری طور پر ادا کی جائے۔ مظاہرے میں شریک محمد جاوید نے وضاحت کی کہ حکومت نے حال ہی میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت 26 کام کے دنوں کی ماہانہ اجرت 40 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، مگر مزدوروں کو ابھی تک اس کا فائدہ نہیں ملا۔
مضبوط جمہوری نظامِ
یہ سچائی عیاں ہے کہ اگر کسی ملک میں مضبوط جمہوری نظامِ موجود نہ ہو جو شہریوں کو ملک کے نظم و نسق میں مؤثر کردار دیتا ہے، تو حالات صحیح سمت میں نہیں جا سکتے۔مینجمنٹ اور بزنس کے طلبہ سے ایک دلچسپ نشست میں منصوبہ بندی کے وزیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ صلاحیت یا وسائل کی کمی نہیں بلکہ سرمائے کے درست انتظام کرنا ہے ۔ منصوبہ بندی، عمل درآمد اور نتائج فراہم کرنے کی صلاحیت ہی قومی معاشی ، معاشرتی اور سیاسی ترقی کی کنجی ہے۔
تاہم موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کے طریقہ کار پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔مثلا21 اکتوبر کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں اپنی دو سندھی زبان میں لکھی کتابوں کی تقریبِ رونمائی میں صوبہ سندھ کے معروف دانشور و لکھاری، ڈاکٹر سکندر مغل نے کہا:’’ ملک صرف سائنسی علوم کے ذریعے ہی ترقی کر سکتا ہے۔‘‘ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سائنسی تحقیق اور تجسّس ترقی، جدت اور دنیا کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہیں۔
صنعتی پیداوار کا زوال
بعض ناقدین یہ بنیادی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا موجودہ حالات میں منصوبہ بندی کمیشن اب بھی اتنا ہی مؤثر ہے جتنا ہونا چاہیے ، خصوصاً جب ملک کے مینوفیکچرنگ (صنعتی پیداوار) کے شعبے کی کارکردگی کو دیکھا جائے۔ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ایک مضمون بعنوان ’’منصوبہ بندی کمیشن یا خوابوں کا قبرستان‘‘ (از امتیاز گل اور ارشد اے عباسی) کے مطابق مالی سال 2014 ء میں پاکستان کی بڑی صنعتوں کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 13.
طویل المدتی وژن کی حفاظت
ناقدین کے تبصروں کا جواب دیتے ہوئے جناب احسن اقبال نے ان کو بیانی طور پر مضبوط مگر حقائق کے لحاظ سے غیر مؤثر قرار دیا۔ انھوں نے ایکسپریس ٹریبیون ہی میں ایک مضمون ’’Vision 2025 was not a fantasy‘‘ لکھا جس میں بتایا: ’’ویژن 2025 کوئی خیالی منصوبہ نہیں۔ یہ ایک سنجیدہ، شواہد پر مبنی قومی فریم ورک ہے جو صوبوں، صنعت، جامعات اور سول سوسائٹی کے ساتھ سینکڑوں مشاورتوں کے بعد تیار کیا گیا ۔‘‘
اسی مضمون میں انہوں نے مزید وضاحت کی:’’غیر یقینی اور تغیرات کے اس دور میں پاکستان کو ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو طویل المدتی وژن کی حفاظت کرے۔ منتشر کاوشوں کو یکجا کردے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وقتی مسائل سے نمٹنے کے دوران طویل مدتی سمت کھوئی نہ جائے… پاکستان کے چیلنج حقیقی ہیں لیکن ان سے نمٹنے کی اس کی صلاحیت بھی اتنی ہی حقیقی ہے۔‘‘
چین سے ملتا سبق
اس ضمن میں ہم چین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو صرف پچاس برس قبل تک ہماری طرح ترقی پذیر ملک تھا ۔اس نے مینوفیکچرنگ کے ذریعے اپنی قسمت بدل دی۔ہفتہ وار رسالے،دی اکانومسٹ کے مطابق چین اس وقت عالمی پیداوار (مینوفیکچرنگ) کا 30 فیصد سے زیادہ حصہ رکھتا ہے جو امریکہ، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا کے مجموعی حصے سے بھی زیادہ ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں بیجنگ کے صنعتی سپر پاور بننے کے سفر کو روکنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ مزید یہ کہ خودمختار مقامی حکومتوں نے چین میں غربت کی سطح نمایاں طور پر کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں اس ضمن میں ایک مثبت پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ ’’ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (SMEDA) آرڈیننس 2002 ء ‘‘میں 13 ترامیم کی تجویز دی گئی ہیں تاکہ بین الوزارتی ہم آہنگی کو بہتر اور دیگر محکموں سے ایس ایم ای ترقیاتی مراعات کی فوری منظوری کو یقینی بنایا جا سکے۔مقصد یہی ہے کہ پاکستان میں مینوفیکچرنگ کی سرگرمیاں زور پکڑ سکیں۔
تین اہم مراحل
چین کی تسنگ ہوا یونیورسٹی سے منسلک دانشور، پروفیسر رین جیانتاو کہتے ہیں:’’ایک ریاست کو’ہابس، لیوایتھن اور لاک‘ (Hobbesian, Leviathan and Lockean ) مراحل سے گزرنا ہوتا ہے … یعنی ’جبری نظم‘ سے’تحفظِ ریاست*‘ اور پھر ’مشترکہ خوشحالی‘ تک کا سفر۔ چین نے اسی ماڈل پر عمل کیا۔ ایک تشریح کے مطابق یہ تینوں قوتیں بیک وقت کارفرما ہونی چاہیئں:
٭ہابس کا جبری اختیار جو نظم قائم کرے،
٭لیوایتھن کی صلاحیت جو عوامی خدمات مؤثر طریقے سے فراہم کرے اور
٭لاک کا عزم جو حقوق، قانون کی حکمرانی اور عوام کی شمولیتی ترقی کو یقینی بنائے۔
پاکستان کے معاملے میں جو وعدوں اور دائمی مایوسیوں کے سنگم پر کھڑا ہے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے:’’کیا یہ ریاست ان تینوں اہم قوتوں میں ہم آہنگی پیدا کر سکتی ہے؟‘‘ وہ کیا ایسا مربوط طرزِ حکمرانی تشکیل دے سکتی ہے جو نظم و ضبط برقرار رکھتے ہوئے عوامی خدمات فراہم کرے اور مواقع میں وسعت پیدا کردے؟
مسئلہ صلاحیت کی کمی نہیں
یہ وہ تضاد ہے جس نے پاکستان کے حوالے سے طویل عرصے سے ممکنہ سرمایہ کاروں اور مبصرین کو پریشان کر رکھا ہے۔ بحرانوں کی ہماری کہانیوں کے نیچے دراصل اہم حرکیات بھی کارفرما ہیں :انفراسٹرکچر کے وسیع منصوبے، نوجوان آبادی ہونے کا فائدہ اور قومی اتحاد کی اُمید ۔ لیکن ان سب پرادارہ جاتی رکاوٹوں کا سایہ ہے۔ مسئلہ صلاحیت کی کمی نہیں بلکہ اس صلاحیت کو پائیدار خوشحالی میں ڈھالنے میں ناکامی ہے۔
منجمند ترقی
پاکستان کا کاروباری ماحول تاحال ’’امید اور سچائی‘‘ کے درمیان میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ ورلڈ بینک کے’’ کاروبار میں آسانی انڈکس‘‘ (ease-of-doing-business) میں پاکستان کی درجہ بندی 108 کے آس پاس ایک دہائی سے جمی ہوئی ہے جو اصلاحات کی سست رفتاری کا ثبوت ہے۔
مسئلہ محض بیوروکریسی کی سستی نہیں بلکہ مالیاتی وفاقیت کی کمزوری اور بین الصوبائی ہم آہنگی میں کمی کا بھی ہے۔یہ کمزوریاں ایسی پالیسیوں کو جنم دیتی ہے جو غیر متوقع اور طاقتور طبقوں کے قبضے میں آ جاتی ہیں۔ٹیرف کے الجھاؤ، لائسنسنگ کی رکاوٹوں اور غیر شفاف قوانین نے پاکستان میں ایک ایسا ’’کرایہ خور طبقہ‘‘ پیدا کر دیا ہے جو جدت سے زیادہ مقابلے سے ڈرتا ہے۔صنعتی شعبہ جو چند بڑے گروپوں تک محدود ہے، اس کے پاس عالمی سطح پر مسابقت کی کم تر تحریک ملتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ترقی کی رفتار سست ہوئی اور عالمی معیشت میں پاکستان کی اہمیت کم ہو گئی ۔
منڈی کی لبرلائزیشن
پاکستان میں اکیسویں صدی کے آغاز سے لبرلائزیشن کا دور شروع ہوا۔ جلد ہی اس کو سی پیک (CPEC) کی سرمایہ کاری ملنے لگی۔ اور اب 10 کروڑ نوجوانوں کی آبادی ہونے کا فائدہ بھی موجود ہے ۔اس دوران پاکستان کو پرانے اقتصادی نظریات چھوڑ کر ایک متحرک و منڈی دوست نظام اپنانا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس سرکاری اداروں کی نجکاری کی رفتار انتہائی سست ہے۔ ریاستی ادارے اب بھی معیشت کے بڑے حصے پر قابض ہیں اور مالیاتی گہرائی محدود ہے۔
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کی کل قدر جی ڈی پی کے 20 فیصد سے بھی کم ہے، جب کہ بھارت میں یہ 100 فیصد سے زیادہ ہے۔حتیٰ کہ ایک ایسی لیبر مارکیٹ میں جہاں نوجوانوں کی بھرمار ہے، بے روزگاری اور نیم روزگاری عام ہے اور حکومتی نظام آبادی کے فائدے کو عملی پیداوار میں بدلنے میں ناکام رہا ہے۔
سیکورٹی کی کامیابیاں
گزشتہ بیس برسوں میں حاصل شدہ سیکورٹی کی کامیابیاں جو دہشت گردی کے خلاف طویل آپریشنز اور قبائلی علاقوں کے تاریخی انضمام کے نتیجے میں ممکن ہوئیں ، انھیں بھی اب خطرات لاحق ہیں۔دہشت گردی کے واقعات میں حوصلہ افزا دہائی بھر کی کمی کے بعد تشدد دوبارہ بڑھنے لگا ہے۔خصوصاًسرحدی علاقوںمیں موجودہ انتہا پسند گروہ غیریقینی حالات میں پھلنے پھولنے کے موقع تلاش کر رہے ہیں۔
اگر قانون کی بالادستی اور مقامی طرزِ حکمرانی میں مزید مثبت پیش رفت نہ ہوئی تو یہ سیکورٹی کامیابیاں بھی ضائع ہو سکتی ہیں…عین اس وقت جب سرمایہ کار پاکستان کے اگلے ترقیاتی مرحلے کے خطرات کا اندازہ لگانا شروع کر رہے ہیں۔
جب انفراسٹرکچر بوجھ بن جائے
سی پیک (CPEC) کا مقصد معاشی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا اورترقی کے دروازے کھولنا تھا۔ کچھ پہلوؤں میں پیش رفت واضح ہے: بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور بڑی شاہراہوں کی تعمیر بھی تیزی سے ہوئی۔تاہم اس کامیابی کی قیمت بھی چکانی پڑی ہے۔ گزشتہ سال بجلی کے استعمال کی شرح صرف 55 فیصدرہی، جب کہ غیر استعمال شدہ صلاحیت پر ہی سالانہ 5 ارب ڈالر کا ناقابلِ برداشت بوجھ پڑ گیا۔سڑکوں اور ہائی ویزکا استعمال بھی 70فیصد سے کم ہے۔
یوں ایک خوشحال چکر پیدا کرنے کے بجائے سی پیک کے منصوبوں میں غیر ضروری توسیع ایک نقصان دہ چکر شروع کر سکتی ہے جس میں مالی وسائل زائد صلاحیتوں میں دفن ہو جائیںگے۔ انسانی ترقی کے شعبے سے فنڈز ہٹ جائیں گے اور بغیر منصوبہ بندی کے پُرعزم سرمایہ کاری کا رجحان مضبوط ہو گا۔یہ ہمارا اکیسویں صدی کا المیہ ہے: پاکستان بظاہرپہلی دنیا کی زائد صلاحیت کا شکار ہے، مگر اس کی پیداواری سطح تیسری دنیا جیسی ہے۔
کیا ’’یوتھ کوریڈور ہائبرڈ ماڈل‘‘ حل ؟
پاکستان کی معاشی ترقی اور آگے بڑھنے کا راستہ ایسی پالیسیوں میں مضمرہے جو پاکستانی نوجوانوں کی توانائی کو پیداوار اور کاروباری مواقع میں ڈھال سکیں اور انہیں خطرہ مول لینے کے شفاف اور پیش گوئی کے قابل نظام میں مواقع فراہم کریں۔
اسی تصّور کو ’’یوتھ کوریڈور ہائبرڈ ماڈل ‘‘ کہا جا سکتا ہے جسے سی پیک کو ریڑھ کی ہڈی کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ یہ منصوبہ پاکستان کے نوجوانوں کو کاروباری سرگرمیوں میں متحرک کرے اور سرکاری و نجی شعبوں کو سبز اور شمولیتی ترقی کے معاملے میں جوڑ دے گا۔
اس منصوبے کا مقصد ادارہ جاتی ہم آہنگی پیدا کرنا ہونا چاہیے تاکہ حکمرانی آزاد عدلیہ یا ثالثی نظاموں، شفاف سرکاری خریداری اور کارکردگی پر مبنی بجٹنگ پر استوار ہو سکے یعنی وسائل کی تقسیم قابلِ پیمائش نتائج سے جڑی ہو۔
ریگولیٹری نظاموں کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ وہ نجی سرمایہ کاری کو راغب کریں مگر عوامی مفاد کا تحفظ بھی کرسکیں تاکہ ’نجی جدت‘ ایک ایسے ڈھانچے میں پھلے پھولے جو سیاسی کرایہ داری کم کرے اور قانون کی بالادستی کو مضبوط بنا دے ۔
سب سے بڑھ کر یہ ماڈل تعلیم، فنی تربیت اور سماجی تحفظ کے ایسے پروگرام معرض وجود میں لا سکتا ہے جو کام اور سرمایہ کاری کی ترغیب برقرار رکھیں گے۔اس کا ہدف یہ ہو گا کہ لاکھوں ہنر مند اور اعلیٰ اجرت والے روزگار پیدا کیے جائیں، جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کا حصہ بڑھے اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک متحرک ماحولیاتی نظام قائم ہو جائے۔
کامیابی ماڈل میں نہیں اس کے نفاذ میں ہے۔ تاہم کوئی بھی ماڈل اتنا ہی مؤثر ہوتا ہے جتنا اسے نافذ کرنے والا نظام۔اگر موثر حکمرانی، مسابقتی دباو اور قابلِ اعتماد اصلاحی راستہ موجود نہ ہوا، تو ’’یوتھ کوریڈور ہائبرڈ ماڈل ‘‘ صرف ایک خاکہ بن کر رہ جائے گا ، عملی تبدیلی کا راستہ نہیں بن سکے گا۔
پاکستان کا مستقبل اس سچائی پر منحصر ہے کہ کیا وہ ایسا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ قائم کر سکتا ہے جو خطرات کو جذب کرے،صلاحیت کو انعام دے اور ان جمود زدہ مفادات کو نظم میں لائے جو طویل عرصے سے اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
معاشرتی عدم مساوات
دنیا میں غربت مٹاؤ مہم چلانے والے برطانوی نجی ادارے، آکفسام (Oxfam) کی ایک نئی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ امیر 10 فیصد افراد ملک کی مجموعی قومی آمدن کا 42 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ یہ شرح اگرچہ کئی بڑی ایشیائی معیشتوں سے کم ہے پھر بھی اتنی زیادہ ہے کہ یہ پاکستان میں معاشرتی عدم مساوات گہرا کرتی اور ایک منصفانہ و پائیدار معاشرے کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ بنتی ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ایشیا میں معاشی ترقی غیر متوازن ہے جس پر بڑھتی دولت کی خلیج، ماحولیاتی دباؤ اور ڈیجیٹل محرومی جیسے عوامل اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ’’An Unequal Future: Asia’s Struggle for Justice in a Warming, Wired World‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور ایک تشویشناک تصویر پیش کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پورے ایشیا میں امیر ترین 10 فیصد لوگ قومی آمدن کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ آبادی کا غریب ترین نصف صرف 12 سے 15 فیصد آمدن پاتا ہے۔ سب سے امیر 1 فیصد افراد کل دولت کا تقریباً نصف حصّہ اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت کئی گنا بڑھ چکی، جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین 50 فیصد آبادی کے حصے میں آنے والی آمدن میں کمی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق غریب ترین نصف آبادی کا آمدنی میں حصہ زیادہ تر ایشیائی ممالک میں کم ہوا ہے، سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹے اور ویتنام کے۔ تاہم ان ممالک میں بھی چند استثناؤں کے علاوہ یہ اضافہ اوسطاً صرف ایک فیصد کے آس پاس رہا ہے۔
آمدنی اور دولت کے فرق
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات کے ماہر ڈاکٹر عابد امان برکی نے اس رپورٹ کو ایشیا میں آمدنی اور دولت کے فرق اجاگر کرنے کی معنی خیز کوشش قرار دیا۔آکفسام انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ،امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے نتائج پاکستان کے لیے براہِ راست اثرات رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات جھیل رہا ہے۔ لیکن دولت مند طبقے بدستور اثاثے جمع کر اور ٹیکس سے بچ رہے ہیں۔ نتیجے میں عام شہری قدرتی آفات کے بدترین اثرات کا سامنا کرتے ہیں۔
ماہرین نے عدم مساوات کو ملکی معاشی ڈھانچے سے جوڑا ہے۔ڈاکٹر برکی کے مطابق پاکستان میں بڑھتی عدم مساوات کی بڑی وجہ وہ معاشی ڈھانچہ ہے جو اشرافیہ کے مفادات کی تکمیل کرتا اور بالواسطہ (ان ڈائرکٹ) ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے۔ اس نظام کے باعث نچلے اور متوسط طبقے پر بوجھ زیادہ پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی اخراجات کا زیادہ تر حصہ قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور بااثر طبقات کے لیے سبسڈی پر صرف ہوتا ہے۔اس کے بعد صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لیے ناکافی وسائل بچتے ہیں۔
آکفسام کے اعداد و شمار اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 ء میں بھوٹان اور کرغزستان نے تعلیم پر اپنی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا 8 فیصد خرچ کیا جبکہ پاپوا نیوگنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاؤس اور سری لنکا میں یہ شرح 2 فیصد سے بھی کم رہی۔ رپورٹ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ بالواسطہ ٹیکس غریب گھرانوں پر زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔ 2022 ء میں ٹیکس برائے مجموعی قومی پیداوار تناسب جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا، جبکہ لاؤس اور پاکستان میں یہ محض 10 فیصد کے قریب پایا گیا۔
نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک نسبتاً معتدل ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) نظام اپنائے ہوئے ہیں اور سماجی اخراجات کے مضبوط ڈھانچے رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک اب بھی بالواسطہ ٹیکسوں پر بھاری انحصار کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق اس صورت حال کے نتیجے میں ٹیکس کا بوجھ نچلے آمدنی والے طبقوں پر ہی زیادہ پڑتا ہے۔
ماحولیاتی بحران
ٹیکسیشن اور سرکاری اخراجات سے ہٹ کر رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات اسی وقت کم کرنا ممکن ہے جب ماحولیاتی ہنگامی صورتحال اور ڈیجیٹل خلیج کو حل کیا جائے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم (World Meteorological Organisation) کے مطابق ایشیا دنیا کا سب سے زیادہ قدرتی آفات سے متاثرہ خطہ ہے، جہاں پچھلی دہائی میں 1,800 سے زائد شدید موسمی واقعات پیش آئے ۔ نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور 1.2 ارب سے زائد لوگ متاثر ہوئے۔ دنیا کے پانچ سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں…جن میں پاکستان بھی شامل ہے، 50 کروڑ سے زیادہ لوگ بستے ہیں۔
رپورٹ کی رو سے ایشیا کو ماحولیاتی جھٹکوں سے نمٹنے اور ان کے اثرات سے بچاؤ کے لیے سالانہ تقریباً 1.11 ٹریلین امریکی ڈالر درکار ہیں۔ لیکن اسے اس کے بدلے صرف 333 ارب ڈالر موصول ہوتے ہیں جن میں سے زیادہ تر ’’قرضوں‘‘ کی صورت میں ملتے ہیں۔آکفسام کے ڈائریکٹر امیتابھ بہار کے مطابق، امیر ممالک اب بھی اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک میں نقصانات اور تباہ کاریوں کے ازالے کے لیے خاص طور پر COP30 اجلاس سے قبل فنڈز فراہم کر دیں۔
ڈیجیٹل عدم مساوات
رپورٹ ایشیا میں بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل عدم مساوات کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ اس کی رو سے ایشیا-بحرالکاہل خطے میں شہری علاقوں میں 83 فیصد افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف 49 فیصد ہے۔خواتین اس فرق سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی 90 کروڑ خواتین میں سے، جو موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں، 33 کروڑ خواتین صرف جنوبی ایشیا میں رہتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق خرچ برداشت نہ کر پانا، کم ڈیجیٹل مہارت، سلامتی کے خدشات اور گھریلو غیر معاوضہ کام جیسے عوامل خواتین کی ڈیجیٹل رسائی میں رکاوٹ بنتے اور انہیں ٹیکنالوجی سے وابستہ روزگار کے شعبوں میں حصہ لینے سے محروم رکھتے ہیں۔یہ ’’ڈیجیٹل تقسیم‘‘ ان ممالک میں عوام کے لیے مزید دباؤ کا باعث بن رہی ہے جو پہلے ہی قومی آمدن کی غیر مساوی تقسیم سے دوچار ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری میں پاکستان پاکستان میں سب سے زیادہ عدم مساوات پاکستان کے جیسے ممالک پاکستان کی کہ پاکستان نتیجے میں رکھتے ہیں اور سماجی ممالک میں ایشیا میں نہیں بلکہ ہم ا ہنگی کرتے ہیں فراہم کر کے بجائے زیادہ ا کرے اور میں ایک فیصد سے پیش رفت رہے ہیں ا کفسام پیدا کر کرتی ہے ہوتا ہے ترقی کے سکتا ہے اور ان کے لیے کر رہے فیصد ا یہ شرح سی پیک میں یہ کی کمی ہوا ہے رہا ہے اب بھی
پڑھیں:
لندن، ایمرجنسی نمبر پر صرف 15 فیصد کالز ہنگامی صورت حال سے متعلق تھیں، پولیس
لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ برس ایمرجنسی نمبر 999 پر کی جانے والی صرف 15 فیصد کالز واقعی ہنگامی صورت حال سے متعلق تھیں۔
میٹرو پولیٹن پولیس کے مطابق ایمرجنسی نمبر پر کال کرنے والے بعض افراد نے اس لئے بھی کال کی کہ ان کے کمرے میں مکڑی گھس آئی ہے، کسی نے بتایا کہ ان کا کتا واپس گھر نہیں آیا، جبکہ کسی نے شکایت کی کہ ڈلیوری ڈرائیور کا پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں ہے۔
میٹ پولیس کا کہنا ہے کہ جولائی 2024 سے جولائی 2025 تک 1.87 ملین کالز نے کال ہینڈلر کا قیمتی وقت لیا اور انہیں حقیقی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے سے روکا۔
فورس کی کمانڈر کیرولائن ہینز کا کہنا ہے کہ جب کسی کی جان خطرے میں ہو یا جرم سرزد ہورہا ہو تو چند سیکنڈز بھی قیمتی ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایمرجنسی پر بہت زیادہ ایسی کالز موصول ہوتی ہیں جو ہنگامی صورت حال کے بارے میں نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ معاملہ پولیس کے نمٹنے کا ہوتا ہے۔
میٹ پولیس کے مطابق بعض غیر ہنگامی کالز میں گزشتہ جرائم کے بارے میں اپ ڈیٹس مانگی جاتی ہیں یا چوری ہونے والی اشیا کی کئی روز کے بعد رپورٹ کیلئے رابطہ کیا جاتا ہے۔
بعض افراد باہمی اختلافات مثلا کرائے دار اور مالک مکان کے تنازع پر بھی ایمرجنسی نمبر پر کال کردیتے ہیں، میٹ پولیس نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صرف جان کے خطرے یا سرزد ہوتے جرم کی اطلاع کیلئے ایمرجنسی نمبر پر کال کریں، دیگر معاملات 101 پر کال کرکے نمٹائے جاسکتے ہیں۔