ترسیلات زر بڑھنے کے ساتھ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ، ماہرین کا انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستانی معیشت کے لیے ایک جانب بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر نے وقتی سہارا فراہم کیا ہے، تو دوسری طرف بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ماہرین کے نزدیک خطرے کی نئی گھنٹی بجا رہا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2025 کے دوران بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے وطن عزیز میں 3.
اسٹیٹ بینک کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025-26 کے ابتدائی چار ماہ (جولائی تا اکتوبر) میں ترسیلات زر 12.96 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 9.3 فیصد زیادہ ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب بدستور سب سے بڑا ذریعہ ہے جہاں سے اکتوبر میں 820.9 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو ماہانہ بنیاد پر 9.3 فیصد اور سالانہ بنیاد پر 7.1 فیصد زیادہ ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات سے 697.7 ملین ڈالر (15 فیصد اضافہ)، برطانیہ سے 487.7 ملین ڈالر (4.7 فیصد اضافہ) جب کہ امریکا سے ترسیلات 290 ملین ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 8.8 فیصد کم ہیں۔
اسی طرح یورپی یونین کے ممالک سے مجموعی طور پر 457.4 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو 19.7 فیصد سالانہ اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری سمت صورتِ حال تشویشناک ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں تجارتی خسارہ 12.6 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔ اس عرصے میں درآمدات 15.1 فیصد اضافے سے 23 ارب ڈالر تک جاپہنچیں جب کہ برآمدات 4 فیصد کمی کے ساتھ 10.5 ارب ڈالر پر سکڑ گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں درآمدات 6.1 ارب ڈالر تک پہنچیں جو مارچ 2022 کے بعد سب سے زیادہ سطح ہے جب کہ برآمدات 2.8 ارب ڈالر رہیں، یوں ماہانہ تجارتی خسارہ 3.2 ارب ڈالر تک جا پہنچا — جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترسیلات میں اضافہ وقتی ریلیف ضرور ہے، لیکن مستقل حل برآمدات میں اضافے اور درآمدی انحصار میں کمی سے ہی ممکن ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر برآمدی پالیسی میں اصلاحات نہ کیں، تو موجودہ درآمدی دباؤ ایک بار پھر بیرونی کھاتوں پر شدید بوجھ ڈال سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو اب درآمدی معیشت سے نکل کر پیداواری معیشت کی طرف جانا ہوگا تاکہ پائیدار اقتصادی استحکام حاصل کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم نے بڑھتے خسارے سے نمٹنے کے لیے توانائی، ٹیکس اصلاحات اور برآمدی پالیسیوں پر مشتمل آٹھ ورکنگ گروپس قائم کر دیے ہیں، جو رواں ماہ کے وسط تک اپنی سفارشات پیش کریں گے، تاہم معیشت پر دباؤ کم کرنے کے لیے عملی اقدامات، صنعتی شعبے کی بحالی اور برآمدکنندگان کو سہولتیں دینے کے بغیر کوئی پائیدار بہتری ممکن نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ارب ڈالر تک فیصد زیادہ ملین ڈالر کے مطابق برا مدات کے لیے
پڑھیں:
ذیابیطیس — پاکستان میں مرض بڑھنے کی وجوہات
14 نومبر کا دن عالمی سطح پر یومِ ذیابیطیس کے نام سے منایا جاتا ہے، تاکہ ذیابیطیس کے بڑھتے ہوئے رجحان، اس کے اثرات اور روک تھام کے اہم اقدامات کو اجاگر کیا جائے۔
اس موقع پر عالمی ادارے اور پاکستان دونوں نے مرض کے پھیلاؤ، علاج کی رسائی اور ممکنہ احتیاطی تدابیر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ذیابیطس ایک ایسی طبی حالت کا نام ہے، جس میں مریض کے خون میں گلوکوز کی سطح کو کنٹرول کرنے کی قدرتی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے اس بیماری کو عرف عام میں شوگر کا مرض بھی کہا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطیس کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں 537 ملین (یعنی تقریباً 54 کروڑ) افراد ذیابیطیس کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زائد افراد علاج نہ کروانے والے ممالک میں ہیں۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ بالغ افراد میں ذیابیطیس کی شرح 1990 کے بعد تقریباً دگنی ہوچکی ہے۔ جبکہ 2030 تک یہ تعداد بڑھ کر 64 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، جس سے بیماری کی بڑھتی ہوئی شدت کا اندازہ ہوتا ہے.
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں اس مرض کا پھیلاؤ تیز تر ہے جہاں علاج اور تشخیص کے وسائل محدود ہیں۔ پاکستان کی صورتحال مزید غیر مستحکم ہے۔
ذیابیطس کی عالمی فیڈریشن کے مطابق، پاکستان میں بالغ افراد میں ذیابیطیس کی شرح 30 فیصد سے زائد ہے اور تقریباً 34.5 ملین افراد ذیابیطیس کے مریض ہیں، اس اعتبار سے پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ شرح والا ملک ہے۔ پاکستان کا ہر چوتھا بالغ فرد اس بیماری کا شکار ہوچکا ہے۔
ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطیس کا اندازاً تناسب 14.62 فیصد ریکارڈ ہوا تھا، جبکہ پری ڈایابیٹیز (Prediabetes) کی شرح بھی 11 فیصد کے قریب ہے۔
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے ڈیٹا کے مطابق 2021 میں اس مرض نے 40 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جان لے لی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔
ذیابیطیس کے باعث دل کی بیماری، گردے کی ناکامی، بینائی کا نقصان اور ٹانگوں کی ناکارہ ہونے جیسی پیچیدگیاں عام ہیں۔ پاکستان کے اسپتالوں میں اکثر مریض بروقت تشخیص اور مناسب علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔
عالمی اور مقامی تحقیق کے مطابق، ذیابیطیس کی وبا کا سبب زیادہ وزن، جسمانی سرگرمی کی کمی، فاسٹ فوڈ کا بڑھتا استعمال، شہری زندگی کا مقام اور خاندانی اسباب ہیں۔ خصوصاً پاکستان میں شہری علاقوں میں یہ مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔
یومِ ذیابیطیس 2025 کی تھیم کے مطابق یہ دن ’’ذیابیطیس اور خوشحالی‘‘ (Diabetes and Well-being) کے عنوان سے منایا جارہا ہے، جس میں خاص طور پر کام کی جگہ، ذہنی صحت اور جسمانی فلاح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اس سال پاکستان میں بھی سرکاری اور نجی اداروں نے ذیابیطیس کی تشخیص، آگاہی اور احتیاطی مہمات شروع کی ہیں تاکہ بیماری کے خاموش پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور مریضوں کو بہتر علاج تک رسائی دی جا سکے۔