رواں مالی سال کے ابتدائی 44 مہینوں (جولائی تا اکتوبر 2025) میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 38 فیصد سے بڑھ کر 12.58 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی بتائی جا رہی ہے، اسی عرصے میں ملک کی مجموعی برآمدات میں 4 فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جولائی سے اکتوبر 2025 کے دوران درآمدات میں 15.

1 فیصد اضافہ ہوا، جو 23.03 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

اس عدم توازن کی کئی بڑی وجوہات ہیں جن میں معاشی، پالیسی اور عالمی عوامل شامل ہیں، غیر مسابقتی توانائی ٹیرف (بجلی اور گیس کے زیادہ نرخ) پاکستانی مصنوعات کی لاگت بڑھاتے ہیں، جس سے وہ عالمی مارکیٹ میں مہنگی ہو جاتی ہیں اور ان کی مسابقت کم ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر ٹرمپ کا درآمدات پر ٹیرف کا اعلان، پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد

مقامی صنعتوں، خاص طور پر ٹیکسٹائل کے لیے، خام مال (جیسے کپاس) کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے انہیں درآمدات پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے، جس سے درآمدی بل بڑھتا ہے۔ یورپی یونین اور شمالی امریکا جیسی بڑی برآمدی مارکیٹوں میں اقتصادی سست روی کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات کے آرڈرز میں کمی آئی ہے۔

روپے کی قدر میں کمی درآمدات کو مزید مہنگا بنا دیتی ہے، جس سے ملک کا مجموعی درآمدی بل بڑھ جاتا ہے۔ ملک میں غیر ملکی مصنوعات کو ترجیح دینے کا رجحان بھی درآمدات کو بڑھاتا ہے، جیسا کہ مختلف شعبوں میں مقامی مصنوعات ہونے کے باوجود غیر ملکی برانڈز کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ پاکستان کی معیشت کے لیے کئی سنگین نتائج کا حامل ہے، تجارتی خسارہ ملک کے مجموعی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بڑھاتا ہے۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو کرنٹ اکاؤنٹ جو پہلے سرپلس کی طرف جا رہا تھا، دوبارہ خسارے میں جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان: ٹیلی کام مشینری کی درآمدات میں 10 ماہ کے دوران 68 فیصد کمی ریکارڈ

درآمدات کے لیے ڈالر کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دباؤ پڑتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کی وجہ سے روپے کی قدر مزید گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

معاشی ماہر اور سینئیر صحافی تنویر ملک نے وی نیوز کو بتایا کہ یہ جو اعداد سامنے آرہی ہیں جس میں تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے امپورٹ میں اضافہ اور ایکسپورٹ میں کمی آرہی ہے یہ معامہ اس سال جولائی سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے ہماری ایکسپورٹ کبھی بڑھ جاتی ہے پھر کم ہو جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمیں بین الاقوامی آرڈرز جم ملتے ہیں تو ایکسپورٹ بڑھ جاتی ہیں۔

تنویر ملک کا کہنا ہے کہ جب تجارتی خسارہ بڑھتا ہے تو یہ براہ راست کرنٹ اکاونٹ پر منفی اثر ڈالتا ہے اور ڈیفسٹ بڑھ جاتا ہے ڈیفیسٹ بڑھنے سے بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن آجاتا ہے اور اسکا براہ راست اثر پاکستانی روپے پر پڑتا ہے اور روپے کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، تو ڈیمانڈ اور سپلائی کے میکنزم کو اگر دیکھا جائے تو روپے کمزور اور ڈالر تگڑا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کے لیے پاکستان لائف لائن، جنگ کے سبب افغانستان کو کتنا بڑا معاشی نقصان ہورہا ہے؟

انکا مزید کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس وقت ریمٹنسز رہ گئے جس پر ہم اس وقت انحصار کر رہے ہیں اور یہ واحد شعبہ ہے جو اس وقت آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی بڑی تعداد میں ملک سے باہر جا چکے ہیں جو پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں، روپے کی قدر میں کمی سے ڈالر مہنگا ہوگا جس کی وجہ سے ہمیں ضروری اشیا مہنگی خریدنا پڑیں گی، تیل کی قیمتوں ہر اثرات پڑ سکتے ہیں، اس کا مجموعی اثرات پاکستان کی معیشت پر پڑیں گے اور عام پاکستانی متاثر ہوگا، اس دور حکومت میں ایکسپورٹ پر کوئی سنجیدہ اقدام نظر نہیں آرہا۔

ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے وی نیوز کو بتایا کہ گزشتہ دور حکومت ختم ہونے کے بعد جب نگران حکومت آئی تھی تو انتظامی اقدامات اٹھائے گئے تھے، اس وقت ڈالر روپے کے مقابلے تگڑا بھی تھا اور چھلانگیں بھی لگا رہا تھا، انکا کہنا ہے کہ اس وقت ڈیفالٹ کی باتیں بھی گردش میں تھیں تب نگران دور حکومت میں چیف آف آرمی اسٹاف اور ان کی ٹیم نے اقدامات اٹھائے جو اس وقت کی ضرورت تھی۔

ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ اس دور کے برعکس اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امپورٹ پر پابندی ہے اور نا ہی باہر پیسہ لیجانے پر بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا منافع ملک سے باہر گیا ہے کم و بیش 350 ملین ڈالر بیرونی سرمایہ کاری گزشتہ 7 ماہ میں آئی ہے جس میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ناصرف منافع کمایا بلکہ اسے باہر منتقل بھی کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف کا نفاذ، پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر مگر کیسے؟

ان کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے کسی مہینے امپورٹ میں تو کسی میں ایکسپورٹ میں اضافہ ہو جاتا ہے، جیسے کہ تیل باہر سے امپورٹ کیا جاتا ہے کبھی اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تو کبھی کم ہو جاتی ہے اب سردی آگئی تو گیس کی ڈیمانڈ بڑھے گی اور اس کی ایل سیز کھلیں گی تو یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

سینیئر صحافی محمد حمزہ گیلانی کا کہنا ہے کہ ہمارا ٹریڈ ڈیفیسٹ بڑھ گیا ہے اگر بات کی جائے امپورٹ کی تو 6 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ہمارے ایکسپورٹ 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کے آس پاس رہی ہے یو ہماری ٹریڈ ڈیفسیٹ 3 ارب 20 کروڑ ڈالر کا ہے جو ایک تشو یشناک بات ہے، ہماری امپورٹ میں مسلسل اضافہ جبکہ ایکسپورٹ میں مسلسل کمی آرہی ہے۔

مزید پڑھیں: پاک امریکا تجارتی معاہدہ پاکستانی معیشت کے لیے کتنا اہم ہے؟

حمزہ گیلانی کے مطابق اس میں بہتری کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایکسپورٹ پر مراعات دے، صنعتوں کے لیے الیکٹرک ٹیرف پر نظرثانی کی جائے، گیس کے یونٹس پر نظر ثانی کی جائے جب تک مراعات نہیں دیے جائیں گے تو ایکسپورٹ گرتی رہے گی، میڈ ان پاکستان نا ہونے کے برابر ہے تو مجبوراً امپورٹ کرنا پڑی گی انکا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر اگر آپ نے جینز ایکسپورٹ کرنے ہے لیکن اسکی زیپ اور بٹن چین سے منگوانے ہیں، ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات اور آسانیاں دینا ہوں گی۔

انکا مزید کہنا ہے ریمٹینسز اچھی ہیں لیکن وہ خسارہ پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں، ہم امپورٹ بیسڈ کنٹری ہیں لیکن جب تک لوکلائزیشن پر نہیں جائیں گے تب تک کام نہیں چل پائے گا، ہمیں خودانحصاری کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے ہمیں لکثری اشیاء کو امپورٹ کرنے پر پابندی لگانا ہوں گے، ایکسپورٹ کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان کی درآمدات ٹیکسٹائل مسلسل اضافہ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان کی درا مدات ٹیکسٹائل مسلسل اضافہ تجارتی خسارہ کا کہنا ہے کہ مزید پڑھیں پاکستان کی کی وجہ سے مدات میں بڑھ جاتی درا مدات ہو جاتی جاتی ہے جاتا ہے رہا ہے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

2 دن قیمت میں کمی کے بعد سونا پھر مہنگا، فی تولہ نرخ میں 3700 روپے کا اضافہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: سونے کی قیمتوں میں 2 روز کمی کے بعد آج ایک بار پھر اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے نتیجے میں قیمتیں مقامی اور عالمی دونوں مارکیٹوں میں اوپر چلی گئیں۔

بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں جمعرات کے روز سونے کی فی اونس قیمت میں 37 ڈالر کا نمایاں اضافہ ہوا، جس سے نئی عالمی قیمت 4 ہزار 7 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی۔

عالمی نرخوں کے اس اضافے کے اثرات براہِ راست پاکستانی مارکیٹ میں بھی دیکھنے میں آئے، جہاں 24 قیراط سونا فی تولہ 3 ہزار 700 روپے مہنگا ہو کر 4 لاکھ 23 ہزار 62 روپے کی نئی بلند سطح پر جا پہنچا۔ اسی طرح فی 10 گرام سونا 3 ہزار 122 روپے کے اضافے کے ساتھ 3 لاکھ 62 ہزار 707 روپے میں فروخت ہونے لگا۔

صرافہ ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ دو روز تک سونے کی قیمتوں میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی تھی، تاہم آج عالمی منڈی میں ڈالر کی قدر میں معمولی اتار چڑھاؤ اور سرمایہ کاروں کے محفوظ سرمایہ کاری کے رجحان کے باعث قیمتی دھات ایک بار پھر تیزی کی جانب مائل ہو گئی۔

ماہرین کے مطابق بین الاقوامی سطح پر جغرافیائی غیر یقینی صورتحال، امریکی معاشی اشاریوں اور شرحِ سود سے متعلق پالیسیوں نے بھی سونے کی قیمتوں پر اثر ڈالا ہے۔ سرمایہ کار اس وقت دوبارہ محفوظ اثاثوں کی طرف رجحان بڑھا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر سونے کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔

اُدھر مقامی مارکیٹ میں تاجر برادری کا کہنا ہے کہ سونے کی قیمتوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ کے باعث زیورات کی خریداری میں کمی آئی ہے، تاہم بین الاقوامی منڈی میں استحکام آنے کے بعد آئندہ چند روز میں نرخوں میں معمولی کمی یا استحکام کی توقع کی جا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
  • 2 دن قیمت میں کمی کے بعد سونا پھر مہنگا، فی تولہ نرخ میں 3700 روپے کا اضافہ
  • اکتوبر میں مسلسل تیسرے ماہ ٹیکسٹائل برآمدات میں سالانہ بنیاد پر کمی ریکارڈ
  • رواں مالی سال کے 4 ماہ میں تجارتی خسارہ 38 فیصد بڑھ گیا
  • پاکستان کی برآمدات صلاحیت سے 60ارب ڈالر کم ہیں عالمی بنک 
  • مالی سال کے 4 ماہ میں تجارتی خسارے میں 38 فیصد اضافہ
  • مالی سال کے پہلے 4 ماہ، تجارتی خسارے میں 38 فیصد کا ریکارڈاضافہ
  • ملکی تجارتی خسارے میں 3ارب 46کررڑ70لاکھ ڈالر کا اضافہ ریکارڈ
  • مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں تجارتی خسارے میں 38 فیصد اضافہ ریکارڈ