اسرائیلی جارحیت میں نئی شدت: غزہ میں سرنگوں کی فوری تباہی کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: قابض اسرائیلی فوج کی جارحیت اور جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیلی آرمی چیف ایال زمیر نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ غزہ میں موجود تمام سرنگوں کو فوری طور پر نشانہ بنا کر تباہ کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سرنگوں کے ذریعے مبینہ طور پر ان کے خلاف خفیہ کارروائیاں جاری ہیں، لہٰذا فوج کو ہرممکن حد تک جلد کارروائی مکمل کرنی چاہیے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کے مختلف علاقوں میں بمباری کے ساتھ ساتھ ڈرون حملوں میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ شجاعیہ میں قابض فوج کے ایک ڈرون حملے میں ایک کم سن فلسطینی بچہ شدید زخمی ہوگیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیل کی جانب سے یہ حملے واضح طور پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔
دوسری جانب مغربی کنارے میں بھی صہیونی فوج کی کارروائیاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اسرائیلی فوج نے رہائشی علاقوں میں چھاپے کے دوران فائرنگ کرکے دو نہتے فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ قابض فوج عام شہریوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے رات کے اندھیرے میں گھروں پر دھاوا بولتی ہے اور لوگوں کو زبردستی گرفتار کرتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی ہمدردی نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مغربی کنارے میں اکتوبر کے مہینے کے دوران 260 سے زائد حملے کیے گئے، جو اس سال کے دوران کسی بھی ماہ میں سب سے زیادہ ہیں۔ ادارے نے خبردار کیا کہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں بڑھتی جارہی ہیں، جن سے خطے میں بڑے انسانی بحران کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسرائیلی جنگی جرائم: یو ٹیوب نے سیکڑوں ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گوگل، مائیکروسافٹ اور ایمیزون جیسے بڑی ٹیکنالوجی اداروں پر طویل عرصے سے اسرائیل کی غزہ پر جنگ میں تعاون کے الزامات لگتے رہے ہیں، اور اب ایک اور بڑا پلیٹ فارم یوٹیوب بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق امریکا میں بائیں بازو کے نمائندہ سمجھے جانے والے میڈیا گروپ دی انٹرسیپٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ مطابق گوگل کی ملکیت والے اس پلیٹ فارم نے خاموشی سے فلسطینی انسانی حقوق کی 3 بڑی تنظیموں کے اکاؤنٹس حذف کر دیے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی تشدد کو دستاویز کرنے والی 700 سے زائد ویڈیوز غائب ہو گئیں، یہ اقدام سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد کیا گیا۔
یہ تین تنظیمیں الحق، المیزان سینٹر فار ہیومن رائٹس، اور فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو شواہد فراہم کر چکی تھیں، جس نے بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
اکتوبر کے آغاز میں آئی سی سی کے فیصلے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے دفاع میں شدت اختیار کرتے ہوئے عدالت کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں اور ان افراد کو نشانہ بنایا جو عدالت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔
سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس کی وکیل کیتھرین گیلاگر نے دی انٹرسیپٹ کو ایک بیان میں بتایا کہ یوٹیوب کا ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد عوامی نظروں سے ہٹانا افسوسناک ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان حذف شدہ ویڈیوز میں امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تشدد کا شکار فلسطینیوں کی گواہیاں، اور دی بیچ جیسی دستاویزی فلمیں شامل تھیں، جو اسرائیلی فضائی حملے میں ساحل پر کھیلتے ہوئے بچوں کی شہادت کی کہانی بیان کرتی تھیں۔
الحق کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا یوٹیوب چینل 3 اکتوبر کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حذف کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ یوٹیوب کا انسانی حقوق کی تنظیم کا پلیٹ فارم ختم کرنا اصولی ناکامی اور اظہارِ رائے و انسانی حقوق کے لیے خطرناک رجحان ہے۔
فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے قانونی مشیر باسل السورانی نے کہا کہ یوٹیوب اس اقدام سے فلسطینی متاثرین کی آواز دبانے میں شریک جرم بن گیا ہے۔
یوٹیوب کے ترجمان بوٹ بولوِنکل نے تصدیق کی کہ ویڈیوز یہ کہتے ہوئے حذف کر دی گئی ہیں کہ گوگل متعلقہ پابندیوں اور تجارتی قوانین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اقدام صرف تنظیموں کی سرکاری اکاؤنٹس تک محدود تھا، اگرچہ کچھ حذف شدہ ویڈیوز فیس بک، ویمیو اور وے بیک مشین جیسے پلیٹ فارمز پر جزوی طور پر دستیاب ہیں، لیکن مکمل ریکارڈ موجود نہیں رہا،جس سے شواہد کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ سے غائب ہو گیا۔