مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسی نے بھارت میں فرقہ واریت میں خطرناک اضافہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارت میں حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی کھلی نفرت انگیز تقاریر اور عسکری و مذہبی حلقوں کے باہمی رابطوں نے ایک بار پھر ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو زہر آلود کر دیا ہے اور ملک کے اندر اقلیتوں، خصوصاً مسلم کمیونٹی میں خوف و بے چینی فروغ پا رہی ہے۔
مختلف ذرائع اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ریکارڈنگز اور بیانات کے مطابق چند متحرک ہندو مذہبی رہنماؤں نے ایسی زبان استعمال کی ہے جسے انسانی حقوق تنظیموں اور متعدد سول سوسائٹی گروپس نے اشتعال انگیز اور انتہا پسند قرار دیا ہے۔
ان متنازع بیانات میں بعض رہنماؤں کے ایسے الفاظ شامل ہیں جو اسلام کو ملک یا دنیا سے ختم کرنے کی دھمکیوں کے مترادف سمجھے گئے ہیں، جس نے عام طور پر تحمل اور برداشت کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق یہ رجحان محض چند شرپسند اور انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعض سرکاری یا نیم سرکاری عہدیداروں کے اقدامات اور تقاربات سے ان گروپوں کو تقویت ملی ہے۔
اس سلسلے میں فوجی سربراہ کے حالیہ دورے اور بعض مذہبی مقامات کی وردی میں زیارت کو بھی مختلف حلقوں نے تشویش انگیز قرار دیا ہے۔
سیاسی منظرنامے میں یہ کشیدگی اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے جب اتر پردیش کے ایک بااثر وزیراعلیٰ کے بیانات میں ایسا پیغام ملتا ہے جسے بعض مبصرین سناتن دھرم کو فروغ دیتے ہوئے تنوع اور مذہبی آزادیاں محدود کرنے کی سمت قدم تصور کر رہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف اقلیتی نمائندوں نے حکومت اور سیکورٹی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے بیانات اور مظاہروں کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہوئے فوری کارروائی کریں اور مذہبی منافرت کو ہوا دینے والوں کے خلاف مؤثر تحقیقات کروائیں۔
قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ آئین و قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت مذہبی آزادی اور اقلیتی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور حکومت کو ایسے تمام اقدامات سے باز رکھنا چاہیے جو فرقہ وارانہ تقسیم کو ملک میں مزید گہرا کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دیا ہے
پڑھیں:
بھارت کی پسماندہ ترین ریاست بہار میں آج انتخابات کا پہلا مرحلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت کی پسماندہ ترین ریاست بہار میں آج صوبائی انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ ہو رہی ہے۔ ریاست کی 243 نشستوں میں سے 121 پر آج جبکہ بقیہ نشستوں پر منگل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔
یہ انتخابات حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے ایک بڑا سیاسی امتحان سمجھے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ جنگ میں ناکامی اور اس کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی ملک گیر تنقید نے پارٹی کی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
مزید یہ کہ امریکا کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد مودی حکومت کو معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔ معیشت سست روی کا شکار ہے، دیہی علاقوں میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج گہری ہو چکی ہے، بے روزگاری بڑھ گئی ہے جبکہ تعلیمی و طبی سہولیات بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔
بی جے پی، جو بنیادی طور پر اونچی ذات کے ہندوؤں کی نمائندہ جماعت سمجھی جاتی ہے، نے 2020 میں جنتا دل یونائٹڈ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔
اس بار اپوزیشن جماعتیں، خصوصاً کانگریس اور راشٹریا جنتا دل، مودی کو سخت مقابلہ دینے کے لیے متحد ہیں۔ تاہم الیکشن سے قبل ووٹر فہرستوں میں بڑی تبدیلیاں متنازع بن چکی ہیں، کیونکہ 8 کروڑ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے تقریباً 65 لاکھ کے نام شہریت کی تصدیق کی بنیاد پر خارج کر دیے گئے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی کامیاب ہو گئی تو انتخابی نتائج پر شفافیت کے حوالے سے سوالات اٹھنے کا امکان ہے۔ حتمی نتائج 16 نومبر کو متوقع ہیں۔