Juraat:
2025-11-10@01:59:35 GMT

آئین کی ترمیم یا اقتدار کی تحکیم

اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT

آئین کی ترمیم یا اقتدار کی تحکیم

محمد آصف

پاکستان کی سیاسی تاریخ آئینی ترامیم، اقتدار کی کشمکش، اور طاقت کی مرکزیت سے عبارت ہے ۔قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے ہی ملک کو ایسے آئینی بحرانوں کا سامنا رہا جنہوں نے جمہوری روایات کو کمزور اور ادارہ جاتی توازن کو متزلزل کیا۔ آئین کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے جو اقتدار کی تقسیم، عوامی حقوق، اور قومی یکجہتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے ، مگر جب آئین کو بار بار ذاتی یا جماعتی مفادات کے تابع کیا جائے تو یہ قومی اتفاقِ رائے کے بجائے اختلافِ رائے اور انتشار کو جنم دیتا ہے ۔ پاکستان کی آئینی تاریخ میں متعدد ایسی ترامیم کی مثالیں موجود ہیں جن کا مقصد جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ مخصوص افراد یا جماعتوں کے اقتدار کو دوام بخشنا رہا ہے ۔
ابتدائی دنوں میں پاکستان کو ایک ایسا آئین دینے میں تاخیر ہوئی جو عوامی امنگوں کے مطابق ہوتا۔1956ء میں پہلا آئین نافذ ہوا مگر محض دو سال بعد اسے منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔1962ء کا آئین صدارتی نظام کے تحت ایک فرد کے گرد مرکوز طاقت کی علامت بن گیا۔ اسی طرح1973ء کا متفقہ آئین بلاشبہ ایک تاریخی پیش رفت تھی، مگر جلد ہی اس میں ترامیم کے ذریعے اختیارات کے توازن کو بگاڑ دیا گیا۔ ہر حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے مطابق آئین میں ردوبدل کیا کسی نے صدر کو طاقتور بنایا تو کسی نے وزیراعظم کو، مگر عوام کے بنیادی حقوق ہمیشہ کمزور ہوتے گئے ۔
آئینی ترمیم کا مقصد بنیادی طور پر ریاستی ڈھانچے کو بہتر بنانا اور نظام کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر ترامیم عوامی فلاح کی بجائے اقتدار کے تحفظ کے لیے کی گئیں۔ 8ویں ترمیم نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دے کر جمہوری نظام کو عدم استحکام کا شکار کیا، جبکہ 17ویں ترمیم نے اسی سوچ کو مزید تقویت دی۔ دوسری جانب 18ویں ترمیم بظاہر پارلیمان کی بالادستی کے لیے تھی، مگر اس نے مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ یوں ہر ترمیم کے پیچھے سیاسی نعرہ ضرور تھا، مگر عمل میں اکثر ذاتی یا جماعتی مفاد غالب رہا۔
پاکستان میں آئین کو اکثر ایک سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے مخالف جماعتوں کو کمزور کرنے ، اداروں کو قابو میں رکھنے ، اور اپنی سیاسی بقا یقینی بنانے کے لیے آئینی تبدیلیوں کا سہارا لیا۔ عدالتوں کے فیصلے بھی بعض اوقات اسی سیاسی ماحول کا حصہ بنے ۔ یوں ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جہاں آئین محض الفاظ کا مجموعہ بن کر رہ گیا، جبکہ اس کی روح یعنی انصاف، مساوات اور عوامی شراکت پس منظر میں چلی گئی۔اقتدار کی تحکیم کا یہ رجحان نہ صرف سیاسی عدم استحکام کو بڑھاتا ہے بلکہ اداروں کے درمیان تصادم کو بھی جنم دیتا ہے ۔ پارلیمان، عدلیہ، اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کا توازن آئینی نظام کی بنیاد ہے ، مگر جب کوئی فریق دوسروں پر بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرے تو ریاستی ڈھانچہ متزلزل ہو جاتا ہے ۔ اقبال نے کہا تھا: افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ مگر جب افراد خود کو آئین سے برتر سمجھنے لگیں تو قوموں کی تقدیر کمزور ہو جاتی ہے ۔
آئین میں ترامیم ناگزیر ہیں کیونکہ زمانہ بدلتا ہے ، مسائل نئے پیدا ہوتے ہیں، اور معاشرتی تقاضے تبدیل ہوتے ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترامیم عوامی ضرورت کے لیے کی جاتی ہیں یا اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے ؟ اگر ترمیم کا مقصد عوامی نمائندگی میں اضافہ، شفاف نظام، اور عدل و مساوات کی فراہمی ہو تو وہ ترمیم جمہوریت کی خدمت ہے ، لیکن اگر مقصد سیاسی مخالفین کو کچلنا، طاقت کو مرکوز رکھنا، یا ذاتی اقتدار کو طول دینا ہو تو وہ ترمیم دراصل جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے ۔ اقتدار کی تحکیم کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ عوام آئین اور سیاست سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ قانون اور آئین صرف طاقتوروں کے لیے ہیں، تو ان کے دلوں میں نظام کے لیے اعتماد باقی نہیں رہتا۔ یہی بیگانگی عوامی بے بسی، مایوسی اور بالآخر ریاستی کمزوری کا باعث بنتی ہے ۔ آئینی عمل میں شفافیت، شمولیت، اور احتساب کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ ترمیم عوام کے مفاد میں ہو، کسی فرد یا طبقے کے لیے نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آئین کوئی کھیل نہیں جسے ہر حکومت اپنے مفاد کے مطابق بدل دے ۔ اگر آئین کی بالادستی برقرار نہ رکھی گئی تو جمہوری تسلسل خطرے میں پڑ جائے گا۔
اقتدار کے حصول کی خواہش فطری ہے ، مگر اس کے لیے آئینی حدود کی پاسداری ضروری ہے ۔ اقتدار کی تحکیم وقتی تسکین تو دے سکتی ہے مگر طویل المیعاد نقصان پہنچاتی ہے ۔ قوموں کی تعمیر ان اصولوں پر ہوتی ہے جہاں قانون سب پر یکساں ہو اور ریاست کا نظام شخصیات نہیں بلکہ اداروں کے تابع ہو۔آج کے پاکستان کو آئینی استحکام، ادارہ جاتی توازن، اور عوامی اعتماد کی ضرورت ہے ۔ اگر ہر حکومت آئین کو اپنی مرضی سے ڈھالتی رہے تو نہ قانون رہے گا نہ نظام۔ آئینی ترمیم صرف اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے جب وہ قومی مفاد میں، شفاف طریقے سے ، اور تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے کی جائے ۔اختتاماً کہا جا سکتا ہے کہ آئین کی ترمیم اور اقتدار کی تحکیم کے درمیان فرق سمجھنا ضروری ہے ۔
آئین کی ترمیم اصلاحِ نظام کے لیے ہو تو یہ ترقی کی علامت ہے ، مگر اگر ترمیم محض اقتدار کو دوام دینے کے لیے ہو تو یہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی ہے ۔ پاکستان کی اصل ضرورت ایک ایسا نظام ہے جہاں آئین محکم ہو، قانون بالادست ہو، اور اقتدار خدمت کا ذریعہ بنے ،حکمرانی کا ہتھیار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اقتدار کی تحکیم اقتدار کو کے درمیان کے مطابق ہر حکومت آئین کی آئین کو کے لیے

پڑھیں:

27ویں ترمیم پر اپوزیشن پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہی ہے: شیری رحمٰن

— فائل فوٹو

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ 27ویں ترمیم پر اپوزیشن پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہی ہے، ہم 73 کے آئین پر کوئی قدغن نہیں آنے دی اور قربانی دی ہے۔

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے یہ اتفاق رائے کا دن ہے، ذرا سا پیچھے ہٹ کر مطالعہ کر لیں، پیپلز پارٹی نے اپنا تشخص برقرار رکھا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ آئینی ترمیم ان ایوانوں کا حق ہوتا ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سب کے حقوق کے ضامن ہیں، اس آئینی ترمیم پر ہم نے طویل مشاورت نہیں کی۔

آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دینے کی تجویز، 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آگیا

مسودہ کے مطابق وفاقی آئینی عدالت، آئین کی تشریح اور آئینی تنازعات کے فیصلے کرے گی، سپریم کورٹ سے آئینی اختیارات واپس لے کر وفاقی آئینی عدالت کو دیے جائیں گے

شیری رحمٰن نے کہا کہ آپ آئین کا اور اس بل کا مطالعہ کر لیں، 18ویں آئینی ترمیم کا ریورس نہیں تحفظ ہو رہا ہے، وفاق پر پریشر بہت ہے اور ہم جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اصل ایشو پاکستان کے وسائل اور ان کی تقسیم کا ہے، ہم عوامی نمائندگی کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے حکومت سے کہا کہ ایوان میں لمبی بحث کروائی جائے، ہماری وجہ سے ہی یہاں بحث ہو رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ستائیسویں ترمیم ،آئینی توازن بگڑنے سے پورا نظام متاثر ہو سکتا ہے،پی ٹی آئی
  • پی ٹی آئی 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرتی ہے، سینیٹر علی ظفر
  • عدلیہ اور آئینی ترمیم: اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
  • 27ویں آئینی ترمیم، اپوزیشن اتحاد نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا
  • 27ویں ترمیم پر اپوزیشن پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہی ہے: شیری رحمٰن
  • 27ویں آئینی ترمیم پر نئی سیاسی صف بندی، سہیل آفریدی کا جارحانہ مؤقف ، بلاول بھٹو نے سیاسی فضا گرما دی
  • سپریم کورٹ میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کو چیلنج
  • پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان رابطے بحال، 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت
  • ستائیسویں آئینی ترمیم پر مشاورت کیلیے جے یو آئی کا اہم پارلیمانی اجلاس طلب