WE News:
2025-11-09@08:38:43 GMT

عدلیہ اور آئینی ترمیم: اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT

مجوزہ آئینی ترمیم میں عدلیہ کے بارے میں اصلاح احوال کی تجاویز دیکھیں تو شعیب بن عزیز یاد آ گئے :

اب اداس پھرتے ہو، سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

جوڈیشل ایکٹوزم نے اس ملک میں اب تک پارلیمان کے ساتھ جو ’حسن سلوک‘ فرمایا، اس پر پارلیمان کا جواب آں غزل کسی نہ کسی دن آنا ہی تھا، وہ اگر 27  ویں ترمیم کی شکل میں آ گیا ہےتو اس پر کم از کم مجھے کوئی حیرت نہیں ہے۔

جوڈیشل ایکٹوزم پارلیمان کے بارے میں مسلسل مطلع کہے جا رہا تھا ۔ اب ظاہر ہے غزل تب ہی مکمل ہونی تھی جب کوئی اٹھتا اور جواب میں مقطع کہہ دیتا۔ پارلیمان نےیہی کام کیا ہے ۔ نیا طرز مصرع آنے تک غزل مکمل سمجھی جائے۔ چاہے تو اب شمعیں گل کر دیجیے ، اور جی میں آئے تو مکرر مکررکی صدا اٹھائیے ۔

اس معاملے کو چند سادہ سی مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔

پارلیمان ہی ہے جو آئین بناتی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 5 میں لکھا ہے : ” آئین میں کی گئی کسی بھی ترمیم کو ، کسی بھی بنیاد پر ، کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا”۔ اسی آرٹیکل میں ذیلی دفعہ 6 میں ایک بار پھر لکھا گیا ہے کہ :” شک و شبہ کے ازالے کے لیے یہ واضح طور پر قرار دیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کو آئین کی کسی بھی شق میں ترمیم کرنے کے اختیار پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔”

اس قدر واضح آئینی ہدایت کے باوجود ہمارے ہاں ہوتا یہ آیا ہے کہ پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرتی اور اسے عدالت میں چیلنج کر دیا جاتا اور عدالت اس کی سماعت بھی شروع کر دیتی ۔ اس وقت بھی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سماعت عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس کے باوجود زیر سماعت ہے کہ آئین میں اس کی سرے سے کوئی گنجائش ہی موجود نہیں۔

 عدالت کے پاس یہ اختیار تو موجود ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو دیکھے کہ کیا یہ آئین میں دیے گئے اصولوں کے مطبق ہے یا ان سے متصادم ہے لیکن پاکستان کی کوئی بھی عدالت آئینی ترمیم کے خلاف کسی درخواست کی سماعت نہیں کر سکتی۔ آئین نے اس سے واضح طور پر روک دیا ہے۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی فرضی اختراع بھی آئین شکنی کا جواز نہیں بن سکتی۔

لیکن  عدالتوں میں پھر بھی سماعتیں ہوتی آئی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 239 کی خلاف ورزی ہے اور اس پر پارلیمان چاہے تو متعلقہ جج صاحبان کے خلاف ریفرنس بھی بھیجا جا سکتا ہے اور بات ریفرنس سے آگے بھی جا سکتی ہے کیونکہ چند سال پہلے آرٹیکل 6 میں ترمیم کے بعد اب آئینی پوزیشن یہ ہے کہ آئین  شکنی کا مقدمہ جج صاحبان پر بھی قائم ہو سکتا ہے۔ کمزور پارلیمان اگر اب تک ایسا کچھ نہیں کر سکی تو ضروری نہیں وہ ہمیشہ ایسی ہی کمزور رہے۔

عدالت آئین کی شرح ضرور کر سکتی ہے لیکن آئین کی واضح شق کے خلاف جانا ، شرح نہیں ہے۔ یہ آئین سے انحراف ہے۔ آئین کی تشریح کا ہر گز  یہ مطلب نہیں کہ چیف جسٹس صاحب کوئی ہم خیال بنچ بنا کر آئین ہی کو ری  رائٹ کر دیں یا آئین میں اپنی خواہشات کو شرح کا نام دے کر شامل کر دیا جائے ۔ نواز شریف کو نااہل کیا جائے تو تشریح فرمائی جائے کہ یہ تاحیات نا اہلی ہے اور کوئی محبوب نظر اس کی زد میں آتا دکھائی دے تو شرح فرما دی جائے کہ تاحیات نا اہلی تو مناسب بات نہیں ہے۔

ایک طرف پارلیمان ہے ، جو دو تہائی اکثریت سے آئین بناتی ہے یا اس میں ترمیم کرتی ہے اور آئین میں ممانعت کے باوجود عدالتیں اس کے خلاف درخواستیں سنتی بھی ہیں اور فیصلے بھی کرتی ہیں۔ دوسری جانب مشرف جیسے ڈکٹیٹر ہیں ، انہیں عدالت آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیتی ہے۔ یعنی جو اختیار خود عدالت کے پاس نہیں ہے ، وہ اختیار عدالت نے دوسروں کو دے دیا۔

یہی نہیں بلکہ بہت سارے پارلیمنٹیرین یہ سمجھتے ہیں کہ  عدالتیں بسا اوقات آئین کی شرح تک محدود نہیں رہتیں بلکہ چند جج صاحبان بیٹھ کر تشریح کے نام پر آئین کو ری رائٹ کر دیتے ہیں اور آئین میں ایسی بات ڈال دیتے ہیں جو آئین میں ہوتی ہی نہیں۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بھی ایک طرح کی آئین شکنی نہیں۔

پارلیمان کو عملا انجمن مزارعین بنا دیا گیا تھا۔ اس کا پارلیمان میں بیٹھے لوگوں کو احساس بھی تھا مگر پارلیمان کی رواایتی کمزوری آڑے آتی رہی۔ اب آ کر جیسے ہی پارلیمان کو موقع ملا ، اس نے پہلا سلام بھجوا دیا ہے۔ آپ اس سلام محبت سے اتفاق بھی کر سکتے ہی  اور اختلاف بھی لیکن یہ طے ہے کہ یہ جواب آں غزل نوشتہ دیور تھا  ۔ یہ ایک دن  ہونا ہی ہونا تھا۔ ہو گیا ، اچھا ہو گیا، یہ البتہ وقت بتائے گا کہ یہ پارلیمان کی داخلی قوت سے ہوا یا مستعار قوت سے۔

پارلیمان نے آئین میں اعلی عدلیہ کو از خود نوٹس کا اختیار دے رکھا  تھا ۔ اب یہ اختیار واپس لے لیا۔ خس کم جہاں پاک بھلے نہ کہا جائے لیکن اس پر اللہ کا شکر ضرور ادا کرنا چاہیے۔ یہ اختیار سپرم کورٹ کو مفاد عامہ کے معاملات میں دیا گیا لیکن مفاد عامہ کے نام پر کبھی عتیقہ اوڈھو کے پرس کے معاملات پر سوموٹو لے لیا  گیا ، کبھی اسلام آباد میں سموسے مہنگے ہوئے تو سوموٹو لے لیا گیا اور کبھی چپل کباب میں گوشت کی مقداد کم محسوس ہوئی تو سوموٹو صاحب حرکت میں آ گئے۔ اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا تھا لیکن عملا یہ چیف جسٹس کی ذات میں سمٹ گیا ۔ اس سے کوئی خیر برآمد ہوئی ہو تو یہ اس عہد کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز ہو گی۔

ججوں کے تبادلوں کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے اور جوجج اپنا تبادلہ قبول نہیں کرے گا وہ ریٹائر تصور ہو گا۔ ہاں کسی عدالت میں اس کے چیف جسٹس سے سینیئر کوئی جج نہیں لایا جائے گا۔ تا کہ ان کا منصب محفوظ رہے۔ یہ بھی بالکل درست تجویز  ہے۔ اسلام آباد میں ہم نے دیکھا کہ اسی شہر میں  رہنے اور اسی میں ساری عمر پریکٹس کرنے والے وکلا  اسی شہر میں ہائی کورٹ میں جج بن گئے، مزید یہ کہ انہوں نے رہنا بھی یہیں ہے کہ تبادلے کی تو کوئی صورت ہی نہیں تھی۔ چنانچہ مارگلہ سے کبھی گرم ہوا بھی نیچے اترتی ہے تو بار کے عہدیداران ” آزادی عدلیہ” کے نام پر میدان میں آ جاتے ہیں تا کہ سند رہے۔

یہی معاملہ آئینی عدالت کا ہے۔ اسے سر دست یہاں زیر بحث نہیں لا رہا کیونکہ اس پر  ” وی نیوز” کے لیے الگ سے ایک تفصیلی کالم پہلے ہی  لکھ چکا ہوں۔

 اطراف میں شور مچا ہے کہ عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ عدلیہ میں اصلاحات نہایت ضروری ہیں اور جو ہوئی ہیں یہ ناکافی ہیں ۔ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ بہت سے مقامات آہ و فغاں ابھی باقی ہیں۔

خلیل جبران کے pity the nation سے تو آپ فیض یاب ہو ہی چکے ہیں ، اب ذرا ( غالبا) حافظ شیرازی کی بھی سن لیجیے:

به تو هر چه کردم همه از دست و بود

حال خود ببر و بکش، گناه من چیست؟

“جو کچھ میں نے تمہارے ساتھ کیا، ذمہ دار تم ہی ہو

اب بھگتو اور مزے لو، اس میں میرا کیا گناہ؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: عدالت میں کے خلاف ہیں اور دیا گیا آئین کی نہیں ہے کسی بھی اور اس ہے اور

پڑھیں:

مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم: چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ، وفاقی آئینی عدالت اور تاحیات رینک کے انتظامات

27 ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ نکات سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق آرمی چیف کو نیا عہدہ ’چیف آف ڈیفنس فورسز‘ تفویض کیا جائے گا جبکہ فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کا رینک حاصل کرنے والا افسر تاحیات یونیفارم میں رہے گا۔

چیف آف ڈیفنس فورسز اور فوجی رینک

مجوزہ ترمیم کے مطابق آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا۔ فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے اور مراعات بھی تاحیات برقرار رہیں گی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ان افسران کو صدر کی طرح عدالتی استثنیٰ حاصل ہوگا اور کمانڈ مدت مکمل ہونے کے بعد وفاقی حکومت انہیں ریاست کے مفاد میں کوئی ذمہ داری سونپ سکتی ہے۔

تقرری کا عمل

آرمی چیف، نیول چیف اور ائیر چیف کی تقرری صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کریں گے۔ وزیراعظم چیف آف ڈیفنس فورسز کی تجویز پر پاک آرمی سے کمانڈر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کا تقرر کرے گا۔ اگر کوئی جج یا فوجی اعلیٰ افسر تقرری قبول نہ کرے تو انہیں ریٹائر تصور کیا جائے گا۔

وفاقی آئینی عدالت کا قیام

ترمیم کے مطابق ملک میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس میں ہر صوبے سے برابر نمائندگی ہوگی۔ صدر آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججز کا تقرر کرے گا۔

آئینی عدالت کے فیصلے پاکستان کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے علاوہ کوئی عدالت آئینی عدالت کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔

عدالتی اختیارات اور از خود نوٹس

سپریم کورٹ سے متعلق آرٹیکل 184 اور از خود نوٹس کی شق ختم کر دی گئی ہے۔ آئینی عدالت کے جج 68 سال کی عمر تک عہدے پر رہیں گے اور چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی۔ صدر آئینی عدالت کے کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کر سکتا ہے۔

صدر اور گورنر کا استثنیٰ

مجوزہ ترمیم کے مطابق صدر کے خلاف عمر بھر کے لیے فوجداری کارروائی نہیں ہوسکے گی۔ گورنر کے خلاف بھی ان کے عہدے کی مدت کے دوران کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوگی اور کوئی عدالت انہیں گرفتار یا جیل بھیجنے کا حکم نہیں دے سکتی۔

یہ مجوزہ آئینی ترمیم ملک کے دفاعی ڈھانچے اور عدالتی نظام میں اہم تبدیلیاں لانے کے لیے تیار کی گئی ہے، جس میں فوجی عہدوں کے حقوق، عدالتوں کی حدود اور اعلیٰ حکومتی عہدہ داروں کے استثنیٰ کو واضح کیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ستائیس ویں آئینی ترمیم پر پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس جاری
  • آئین میں27ویں ترمیم کیا ہے؛مکمل تفصیل سامنےآگئی
  • مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم: چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ، وفاقی آئینی عدالت اور تاحیات رینک کے انتظامات
  • 27ویں ترمیم پر اپوزیشن پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہی ہے: شیری رحمٰن
  • ایسا کوئی قانون نہیں ہوگا جس سے صوبوں کا اختیار کم ہوگا: ایمل ولی خان
  • مجوزہ آئینی ترمیم عدلیہ کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے، سپریم کورٹ میں درخواست دائر
  • اس پارلیمان کے پاس آئین میں تبدیلی کا استحقاق نہیں: بیرسٹر گوہر 
  • کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟
  • 27 ویں ترمیم میں کوئی جلد بازی نہیں اور آئین آسمانی صحیفہ نہیں جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا: وزیر مملکت قانون