WE News:
2025-11-08@21:58:09 GMT

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی عبوری حکومت سے مذاکرات پر رضامند

اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی عبوری حکومت سے مذاکرات پر رضامند

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے کہا ہے کہ اگر نگران حکومت کے چیف ایڈوائزر کی جانب سے براہ راست دعوت دی گئی تو وہ سیاسی مذاکرات میں شریک ہونے کے لیے تیار ہے، تاہم جماعتِ اسلامی کے ذریعے پیغام رسانی قابل قبول نہیں۔

ڈھاکا میں انسٹیٹیوٹ آف ڈپلومہ انجینئرز میں ’نیشنل ریولوشن اینڈ سولڈیریٹی ڈے‘ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر بی این پی کی طلبہ تنظیم جتیہ تابد چاترا دل کے زیراہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن صلاح الدین احمد نے کہا کہ نگران حکومت کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: عوامی لیگ کے دور میں ہونے والے غیرمنصفانہ معاہدوں پر بھارت سے مذاکرات کریں گے: بنگلہ دیش

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ منتخب حکومت نہیں ہیں، یہ کبھی نہ بھولیں۔ طاقت کا غیر ضروری مظاہرہ آپ کے منصب کے شایانِ شان نہیں۔ ‘

جماعتِ اسلامی کے ذریعے مذاکراتی دعوت پر اعتراض

صلاح الدین احمد نے کہا کہ اگر چیف ایڈوائزر ہمیں مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں تو ہم ضرور جائیں گے، لیکن کسی دوسری سیاسی جماعت کے ذریعے یہ پیغام کیوں دیا جا رہا ہے؟ ’یہ کون ہیں جو ہمیں مذاکرات کے لیے بلا رہے ہیں؟ ‘

واضح رہے کہ جمعرات کو جماعتِ اسلامی کے رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر کو فون کرکے جولائی چارٹر اور آئندہ ریفرنڈم سے متعلق سیاسی مذاکرات پر گفتگو کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ

صلاح الدین نے کہا کہ بی این پی تمام سیاسی جماعتوں بشمول جماعتِ اسلامی اور نیشنلِسٹ سٹیزن پارٹی (این سی پی) سے جمہوری رابطے رکھتی ہے، تاہم کسی سیاسی جماعت کو مذاکرات میں ’’ریفری‘‘ کا کردار ادا کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔

جولائی چارٹر پر اختلاف

بی این پی نے نگران حکومت کو 28 اکتوبر کو نیشنل کنسینسس کمیشن کی سفارشات پر سخت اعتراض کیا ہے، جن کے مطابق جولائی چارٹر کے نفاذ کا مسودہ ’اصل معاہدے‘ سے کافی مختلف ہے جو 17 اکتوبر کو سیاسی جماعتوں نے دستخط کیا تھا۔

بی این پی کا مؤقف ہے کہ ریفرنڈم قومی انتخابات کے دن ہی ہونا چاہیے، جبکہ جماعتِ اسلامی ریفرنڈم کو پہلے کرانے کی حامی ہے تاکہ جولائی چارٹر کو انتخابات سے قبل قانونی حیثیت مل سکے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کا عالمی پلاسٹک معاہدے کے مسودے کو مسترد کرنے کا اعلان

نگران حکومت نے سیاسی جماعتوں سے ایک ہفتے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا کہا ہے، بصورتِ دیگر حکومت یکطرفہ فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس پر ردِعمل دیتے ہوئے صلاح الدین نے کہا کہ ’آپ کو یہ اختیار نہیں کہ ہمیں سات دن میں شرائط منوانے کا حکم دیں۔ ایک غیر منتخب حکومت کے لیے ایسی دھمکیاں زیب نہیں دیتیں۔ ‘

جماعت اور عوامی لیگ پر تنقید

صلاح الدین احمد نے جماعتِ اسلامی کو متنبہ کیا کہ ’جن لوگوں نے 1971 کی روح کے خلاف کردار ادا کیا اور بعد میں ارشاد کے دور میں شامل ہوئے، اگر اب وہ عوامی لیگ کے ساتھ اتحاد کے ذریعے دوبارہ سیاست میں آنے کی کوشش کریں گے تو انجام اللہ ہی جانتا ہے۔ اس سے صرف آمرانہ قوتیں ہی مضبوط ہوں گی۔ ‘

انہوں نے کہا کہ’سیاسی مفادات کے لیے عوامی تحریک کو نقصان نہ پہنچائیں، عوام بنگلہ دیش کی جمہوری جدوجہد کو ذاتی مفادات کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ ‘

عوامی لیگ کے ’لاک ڈاؤن‘ پروگرام پر تبصرہ

صلاح الدین نے 13 نومبر کو عوامی لیگ کے اعلان کردہ ’لاک ڈاؤن‘ پروگرام پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ عوام ان کی کال پر لبیک کہیں گے؟ اگر ایسا ہوتا تو وہ 5 اگست کو اقتدار سے کیوں ہٹائے گئے؟ آئیں اور دیکھیں کہ اب عوام ان کا استقبال کیسے کرتے ہیں۔‘

طلبہ رہنماؤں کا انتباہ

چاترا دل کے صدر رکیبول اسلام نے کہا کہ ملک میں انتشار اور عدم استحکام مخصوص حلقوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ ’جو قوتیں بھارت کے مفادات کے لیے سڑکوں پر تشدد اور افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں، تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔‘

تقریب کی نظامت جنرل سیکریٹری نصیر الدین نے کی، جبکہ تنظیمی سیکریٹری امان اللہ امان اور ڈھاکا یونیورسٹی یونٹ کے صدر گنیش چندر رائے سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

’نیشنل ریولوشن اینڈ سولڈیریٹی ڈے we news بنگلہ دیشن نیشنل پارٹی بی این پی بنگلہ دیش جتیہ تابد چاترا دل جماعت اسلامی چیف ایڈوائزر طلبہ تنظیم عبوری حکومت مذاکرات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بنگلہ دیشن نیشنل پارٹی بی این پی بنگلہ دیش جماعت اسلامی چیف ایڈوائزر عبوری حکومت مذاکرات جولائی چارٹر عوامی لیگ کے نگران حکومت سیاسی جماعت صلاح الدین بنگلہ دیش بی این پی نے کہا کہ کے ذریعے الدین نے کرنے کا کے لیے

پڑھیں:

صوبے میں کسی بھی عسکری کارروائی کی اجازت نہیں دینگے، اسپیکر کے پی اسمبلی

خیبرپختونخوا حکومت نے 12 نومبر کو امن جرگہ بلانے کا اعلان کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر واضح کیا ہے کہ صوبے میں کسی بھی عسکری کاروائی کی اجازت نہیں دینگے۔تیسری بار حکومت میں آئے ہیں۔جو فیصلہ ہوگا وہ بھی ہماری مرضی سے ہوگا، صوبے کے امن و امان کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔

ان باتوں کا اظہار گزشتہ روز اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے معان خصوصی اطلاعات شفیع جان، صوبائی سیکرٹری علی اصغر،جنرل سیکرٹری پشاور ریجن شیر علی،عرفان سلیم اور کامران بنگش کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

اسپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں امن وامان پر دو ماہ تک تفصیلی بحث ہوئی۔صوبے میں امن و امان کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے سیاسی قیادت کا واضح موقف ارہا ہے کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے۔

بنائیں جائیں گے۔امن جرگے کے بعد کور کمانڈر کے ساتھ بیٹھیں گے۔انہوں نے کہا پارلیمانی سیکورٹی کمیٹی ٹی او آرز تشکیل دیکر وزیر اعلی کو پیش کرے گی۔

امن جرگے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ افراد کے علاوہ سیاسی شخصیات کو بھی مدعو کیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ صوبے میں طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز ہورہے ہیں۔صوبے میں ایک لاکھ 23 ہزار پولیس جبکہ وزیرستان میں دو ڈویژن فوج بھی ہے اور ہماری فوج کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا وسیع تجربہ ہے۔

ہم سوچتے ہیں کہ آخر آپریشنز میں ہمارے لوگ کیوں متاثر ہورہے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کے دل بھی اس صورتحال پر دکھتے ہیں یہ بھی اس صوبے کے باشندے ہیں۔تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔

امن جرگہ میں تمام سیاسی قیادت کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔کسی سیاسی شخصیت کے منہ پر ٹیپ نہیں لگائی جاسکتی ہے سب کے سامنے صورتحال رکھیں گے تب ہی وفاقی حکومت کوئی فیصلہ کرسکے گی۔ہم چاہتے ہیں کہ اداروں اور لوگوں کے مابین فاصلے کم ہوں۔

وزیراعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج امن و امان کی صورتحال ہے۔

گورنر کے پی کو بھی کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی تھی۔12 نومبر کو امن جرگہ میں تمام سیاسی قیادت کو دعوت دی جائے گی۔پارلیمانی سیکورٹی کمیٹی خی ٹی او آرز میں تمام سیاسی قیادت کی تجاویز شامل کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا بند کمروں میں فیصلے نہیں ہونے چاہیے۔جن لوگوں نے کئی سال شہادتیں دیکھی ہیں۔انکو علاقے کے فیصلوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا 26 ویں آئینی ترمیم پر جو فلم چلی ہے وہ دوبارہ چلے گی۔صوبے میں کسی بھی عسکری کاروائی کی اجازت نہیں دینگے ۔ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ فیلڈ مارشل نے یہاں کی سیاسی لیڈرشپ کو کیوں نہیں بلایا۔پوست کی کاشت کا الزام ہے۔بلوچستان جسکو ٹیلیگراف کی رپورٹ میں پوست کا منبع قرار دیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر سے سادہ سا سوال ہے کہ بلوچستان میں کس کی حکومت ہے۔انہوں نے کہا روز اول سے مزاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔

صوبائی جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی علی اصغر نے کہا قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔چیرمین کا قبائلی علاقوں کے حوالے سے واضح موقف تھا کہ آپریشن نہیں ہونے چاہیے اس لئے امن جرگہ میں سب سول سوسائٹی،وکلاء برادری،میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے مشران کوبلا رہے ہیں۔کیوں کہ اس صوبے کے یہ سارے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ہماری پارٹی کا بھی موقف ہے کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے ان علاقوں سے لوگوں کو بیدخلی کا سامنا ہوتا ہے۔

خیبرپختونخوا کے حالات تمام ملک میں پھیل رہے ہیں۔جنرل سیکرٹری پشاور ریجن شیر علی کا کہنا تھا ہمارا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ۔جتنے بھی آپریشنز ہوئے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔اب کم از کم جو فیصلہ ہو وہ خیبرپختونخوا کی عوام کے حق میں ہونا چاہیے۔ہم اجتماعی وزڈم کے تحت اقدامات کی بات کرتے ہیں۔

سابق صوبائی وزیر کامران بنگش نے کہا خیبرپختونخوا حکومت کا اعزاز ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چل رہی ہے ورنہ فارم 47 والے کس طرح اور جماعتوں کو دبا رہے ہیں سب کے سامنے ہے۔خیبرپختونخوا حکومت دریا دلی کا مظاہرہ کررہی ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین اپنے رائے امن جرگہ میں ضرور شامل کریں۔

متعلقہ مضامین

  • کسی جماعت سے انتخابی اتحاد نہیں ہو گا، غلام شہزاد آغا
  • خوفزدہ حکومت کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں دے رہی، پی ٹی آئی بلوچستان
  • اپوزیشن 27ویں ترمیم پر حکومت سے کسی قسم کی بات چیت کا حصہ نہ بنے،حافظ نعیم الرحمن
  • افغان عبوری حکومت نے علاقائی وعدے پورے نہیں کیے، پاکستان اپنے مؤوف پر قائم ہے، عطاتارڑ
  • پنجاب میں سیاسی ہلچل: حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان پاور شیئرنگ پر بریک تھرو
  • کرپشن اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا عزم
  • کرپشن اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی، امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش ڈاکٹر شفیق الرحمان کا عزم
  • صوبے میں کسی بھی عسکری کارروائی کی اجازت نہیں دینگے، اسپیکر کے پی اسمبلی
  • سیاسی انار کی نے ملکی ترقی کو روک دیا ہے، جاوید قصوری