Express News:
2025-11-09@00:00:16 GMT

ڈپریشن ایک خاموش قاتل

اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT

ڈپریشن ایک خاموش قاتل، حضرت انسان نے بلاشبہ اپنی محنت و لگن سے ترقی کے کئی ناقابل یقین سنگ میل عبورکر لیے ہیں۔ روبوٹ بنانے سے لے کر چاند پر قدم رکھنے تک کے سارے مراحل طے ہو چکے ہیں۔ مگر بقول شاعر مشرق علامہ اقبال۔

 ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکارکی دنیا میں سفرکر نہ سکا

 بنی نوع انسان نے دنیاوی سہولیات اور جسمانی آسائشات کا تو ڈھیر لگا دیا لیکن اس کی ذہنی اور روحانی تشنگی آج اپنی انتہا پر ہے، اسی محرومی نے ڈپریشن نامی عفریت کو جنم دیا، جو آج کل اتنا عام ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر دوسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ 

جدید تحقیقات کے مطابق ڈپریشن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وہ جو دماغی خلیوں میں کچھ کیمیائی مادوں کی بے ترتیبی کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کو صرف اور صرف دواؤں سے ہی اورکچھ بدترین کیسز میں بجلی کے جھٹکوں سے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے جب کہ دوسری قسم وہ ہے جس کو ہم مایوسی کی انتہا کہہ سکتے ہیں اور اس میں انسان کے حالات، صحبت اور دیگر عوامل بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔

نوے کی دہائی تک ہمارے معاشرے میں نفسا نفسی اور آسائشات کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگنے کا رواج نہیں تھا۔ زندگی نسبتا سادہ تھی، چیزوں سے زیادہ انسانوں کی اہمیت تھی اور امن و سکون بھی تھا مگر اکیسویں صدی کی آمد گویا ایک طوفان بلاخیز تھی جس نے انسانی زندگیوں کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔

ایک کے بعد ایک ایجادکردہ سہولت اور ان کو حاصل کرنے کے لیے پیسہ حاصل کرنے کی ایک دوڑ شروع ہوگئی جو فی زمانہ اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ گھرگھر موبائل فون اور پھر سوشل میڈیا پہنچا توگویا کوئی طلسم کدہ ہی کھل گیا، جہاں سب کچھ بہت مہنگا، خوبصورت مگر مکمل ہے۔

رہی سہی کسر بلاگرز نے پوری کی ہے جو اپنے نت نئے ملبوسات، مہنگے گھر، غیر ملکی دورے اور بہت آئیڈیل فیملی دکھا کر دوسروں کو محرومی اور احساس کمتری میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ناظرکو یہی لگتا ہے کہ بس اس کے پاس ہی کچھ نہیں ہے، باقی سب تو بہت خوش اور مطمئن ہیں۔

دوسروں کی نعمت کو دیکھ کر خود کو محروم سمجھنا کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر پہلے یہ ہوتا تھا کہ وہ چیزکچھ وقت آنکھوں کے سامنے رہی اور پھر ہٹ گئی تو انسان اس کیفیت سے جلد باہرآجاتا تھا مگر اب تو 24 گھنٹے موبائل فون ہاتھ میں ہے اورکچھ کو اپنی زندگیاں، نعمتیں اور انتہائی ذاتی پہلو تک دکھانے کا بہت شوق ہے اورکچھ کو ان سب کو دیکھنے کا اور یہ جانے بغیرکہ اس میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا شامل ہے خود کو ڈپریشن کا مریض بنا لینے کا شوق ہے۔

ڈپریشن کی دوسری وجہ تنہائی ہے، ہم بچپن سے پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ اللہ نے انسان کو جوڑے کی شکل میں پیدا کیا اور پھر مزید رشتوں نے جنم لیا، ان رشتوں کا مقصد انسانی نسل کو بڑھانا بھی تھا اور ساتھ ساتھ اسے ذہنی، جسمانی، مالی تحفظ اور سہارا دینا بھی تھا، دن بھرکا تھکا ہارا انسان جب گھر پہنچتا تھا تو بھرا پرا گھر اس کی ساری تھکن ختم کردیتا تھا۔

گھر میں موجود افراد کے علاوہ محلے دار پھر رشتے دار دوست احباب سے ملنا جلنا، گویا ایک کتھارسس تھا مگر پھر وقت بدلا پہلے مشترکہ خاندانی نظام پرائیویسی کے نام پر ٹوٹا، پھر محلے داروں سے بھی تعلقات ختم ہوئے۔ رشتے داروں سے بھی شادی یا فوتگی پر ملاقات ہونے لگی اور اپنے خول میں بند انسان ریشم کا وہ کیڑا بن گیا، جو اپنی ہی پیدا کردہ ریشم میں لپٹ کر دم توڑ دیتا ہے۔

سہولیات اور آسائشات کی دوڑ میں بھاگتے ہانپتے انسان کو اب یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ رہنے والے شریک حیات، اولاد، ماں باپ یا بہن بھائی پرکیا گزر رہی ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ سننے کے لیے وقت ہی نہیں اور جو ہے بھی، وہ بھی موبائل فون کی نذر ہو جاتا ہے، ایسے میں اپنے اندرونی خلفشار اور درد سے لڑتے کب انسان ڈپریشن اور پھر موت کا شکار ہوتا ہے۔

یہ اس وقت پتہ چلتا ہے جب کوئی اپنے آفس پہنچ کر خود کشی کا پیغام بھیج کر خود کو ہلاک کر لیتا ہے یا کوئی کسی تنہا فلیٹ میں دم توڑ دیتا ہے۔ ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ بے مقصد زندگی بھی ہے، جب انسان کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا یا وہ خود بھی کچھ نہیں کرنا چاہتا، تو جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے، تو اس کے دماغ میں منفی سوچیں جنم لیتی ہیں۔

انسان کو لگتا ہے نہ اس کے پاس جینے کا کوئی مقصد ہے نہ وہ کسی کی ضرورت ہے وہ کچھ کرنا بھی چاہتا ہے تو پہلے ہی ذہن منفی خیالات کی آماجگاہ ہونے کے باعث بے دلی سے ہی کرتا ہے اور جیسا کہ اب تو تحقیق سے بھی ثابت ہے کہ جیسے کہ آپ کی سوچ ہوگی، ویسا ہی نتیجہ نکلے گا تو پھر ایسا انسان زیادہ تر ناکامی کا ہی منہ دیکھتا ہے۔

یہ ناکامی اس کو مزید ڈپریشن میں لے جانے کا سبب بنتی ہے، ڈپریشن کی جو بھی وجہ یا وجوہات ہوں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس کا سدباب کیا جائے اور اس میں سب سے زیادہ بہترین حل یہ ہے کہ دین کی سمجھ حاصل کی جائے جب انسان دین کی روح تک پہنچتا ہے تو اس کو نہ صرف دنیا میں جینے کا اصل طریقہ اور مقصد سمجھ آتا ہے بلکہ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری بھی اس پر عیاں ہوتی ہے جب اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کا رب اس کے لیے بہتر فیصلہ کرتا ہے اور اس کے معاملات سنبھال لے گا تو وہ ہر حال میں پرسکون رہتا ہے۔

اس کے علاوہ ایسے لوگوں کی صحبت اپنانا بھی بہت ضروری ہے، جو منفی سوچ کے حامل نہ ہو جن سے آپ دل کی کوئی بھی بات کریں تو وہ آپ کو جج کیے بغیر مثبت اور بہترین مشورہ دے سکیں۔

مثبت سوچ اور مثبت صحبت یقینا ڈپریشن کوکم کرنے میں بہت زیادہ مددگار ہے، اگر ہم ایک صحت مند اور متوازن معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ڈپریشن کی اس بیماری کو قابوکرنا ہوگا، جو بہت تیزی سے ہماری نسل نو کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈپریشن کی اور پھر ہوتا ہے اور اس کے لیے ہے اور

پڑھیں:

امریکی شہریت بھی کام نہیں آ رہی

ویسے تو امریکی آئین کی نگاہ میں بلاامتیازِ رنگ و نسل و عقیدہ سب شہری برابر ہیں۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی امریکی پھنس جائے ، پکڑا جائے یا کسی اور ریاست کے قانون کے مطابق سزا یافتہ بھی ہو جائے تب بھی امریکی انتظامیہ اس کی واپسی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے ۔امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ جرم کسی بھی سرزمین پر ہو مگر مقدمہ امریکی قانون کے تحت امریکی سرزمین پر چلے۔اور اس معاملے کو کئی بار قومی انا کا مسئلہ بھی بنا لیا جاتا ہے۔

مگر جب فلسطینی نژاد امریکیوں کا معاملہ ہو یا کسی غیر فلسطینی ( ریچل کوری ) کی ’’ غلطی ‘‘ سے ہلاکت کا سانحہ ہو یا اسرائیل بھولے سے امریکا کے درجنوں فوجی ( یو ایس ایس لبرٹی ) مار دے یا جان بوجھ کر کسی نوعمر امریکی کو قتل یا قید کردے تو امریکا اپنے ہی شہریوں سے لاتعلق ہونے میں دیر بھی نہیں لگاتا۔

مثلاً دوسرے انتفادہ کے عین عروج کے دور میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے وارننگ جاری کی کہ امریکی شہری اسرائیل ، غزہ اور غربِ اردن کے غیر ضروری سفر اور بلامقصد قیام سے پرہیز کریں۔

اس ہدائیت پر عمل کرتے ہوئے جب چار جون دو ہزار بائیس کو چالیس فلسطینی نژاد امریکی شہری وطن واپسی کے لیے تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پہنچے تو امیگریشن حکام نے انھیں روک لیا۔ان سے کہا گیا کہ اسکریننگ کے بعد واپسی کی اجازت ملے گی کہ کہیں وہ اسرائیل یا مقبوضہ علاقوں میں اپنے قیام کے دوران کسی ہنگامہ آرائی یا دھشت گردوں سے رابطوں یا ان کی مدد میں تو ملوث نہیں تھے۔امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاویل کو اسرائیل سے ذاتی طور پر سر کھپا کے ان امریکی فلسطینیوں کی گلوخلاصی کروانا پڑی۔

سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے اسرائیل نے امریکی و مقامی کا امتیاز ختم کر دیا ہے۔ جنوری دو ہزار چوبیس میں نیو آرلینز کا رہائشی سترہ سالہ توفیق عبدالجبار کچھ عرصے کے لیے مغربی کنارے میں اپنے رشتے داروں سے ملنے آیا۔ ایک روز وہ مسلح یہودی آبادکاروں کے ہتھے چڑھ گیا اور اسے پولیس کی موجودگی میں گولی مار کے ہلاک کر دیا گیا۔اس کا قاتل تین روز بعد ضمانت پر رہا ہو گیا۔

 پام بے فلوریڈا کا رہائشی پندرہ سالہ محمد ابراہیم اپنے والد زاہر اور والدہ مونا کے ہمراہ تعطیلات گذارنے اس سال فروری میں مغربی کنارے کے شہر رملہ کے نواحی گاؤں مزرا الشرقیہ پہنچا۔اس گاؤں کو مغربی کنارے کا میامی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے اکثر باشندے ریاست فلوریڈا میں رہتے ہیں۔

ایک رات گھر کا دروازہ ٹوٹا ، مسلح اسرائیلی فوجی گھس آئے اور محمد ابراہیم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کے فوجی گاڑی میں پٹخا اور بندوق کے بٹوں سے مارتے ہوئے اوفر ملٹری کیمپ میں لے گئے۔

فوجیوں نے گھر والوں میں سے کسی کو نہیں بتایا کہ بچے کا جرم کیا ہے۔اوفر کیمپ سے محمد ابراہیم کو تھانے میں منتقل کیا گیا۔جہاں اس سے ایک نقاب پوش افسر نے تفتیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے اعتراف نامے پر دستخط نہ کیے تو تمہیں اور مارا جائے گا۔محمد نے مزید تشدد کے خوف سے اعتراف نامے پر دستخط کر دیے۔اس میں اقرار کیا گیا کہ میں نے چند دیگر بچوں کے ہمراہ سڑک پر ایک آبادکار کی گاڑی پر پتھراؤ کیا ( اسرائیلی قانون کے مطابق پتھراؤ کی سزا بیس برس قید ہے ) ۔

محمد ابراہیم کو قید میں لگ بھگ نو ماہ بیت چکے ہیں۔یروشلم میں امریکی سفارت خانہ اس کے والدین کو کئی ماہ سے یقین دلا رہا ہے کہ رہائی کی کوششیں جاری ہیں۔امریکی کانگریس کے ستائیس ارکان نے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیل میں امریکی سفیر مائک ہوکابی کو مشترکہ خط میں محمد ابراہیم کو جلد از جلد رہا کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

جیل میں قید محمد کو اب تک نہیں بتایا گیا کہ اس کے بیس سالہ سالہ کزن سعید مسلت اور دوست محمد الشلابی کو گیارہ جولائی کو اسرائیلی آبادکاروں نے المرا قصبے میں زمین پر قبضے کی مزاحمت کرنے پر مار مار کے قتل کر دیا۔

سعید مسلت بھی امریکی شہری تھا۔چنانچہ امریکی سفیر مائک ہوکابی کو بادلِ نخواستہ سعید کے گاؤں میں تعزیت کے لیے آنا پڑا۔مگر سفیرِ موصوف نے اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں اپنے شہری کی ہلاکت پر ایک احتجاجی لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔دو امریکی سینیٹروں نے بھی سعید کے گھر جا کر تعزیت کی۔

گذرے ستمبر میں بچوں کی قانونی معاونت کرنے والی ایک اسرائیلی تنظیم ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کی وکیل سحر فرانسس کو کئی انتظامی پاپڑ بیلنے کے بعد بالاخر محمد ابراہیم سے ملنے کی اجازت ملی۔سحر کا کہنا ہے کہ دورانِ قید محمد کا وزن تیس پاؤنڈ تک گر چکا ہے۔اس کی کوٹھڑی میں کل آٹھ بچے اور چار بینک بیڈ ہیں۔چوبیس گھنٹے میں دو بار کھانا ملتا ہے۔

یعنی ناشتے میں ایک بڑا چمچ دہی اور بریڈ کے چند ٹکڑے۔ دوپہر کو ایک کپ ابلے چاول ، ایک چھوٹا سوسییج اور کھیرے اور ٹماٹر کے دو تین ٹکڑے دیے جاتے ہیں۔محمد ابراہیم اور دیگر بچوں کو جلدی خارش ہو گئی ہے اور جسم اکثر کھجاتے رہنے سے خراشیں پڑ جاتی ہیں۔ان سب کو پتلے پتلے سے گدے ملے ہوئے ہیں جن کی کبھی دھلائی نہیں ہوتی۔سیل میں قرآنِ مجید کا ایک نسخہ بھی رکھا ہوا ہے۔ہفتے میں ایک بار نہانے کی اجازت ہے مگر قیدیوں کی قطار اتنی لمبی ہے کہ بہت سے بچوں کی باری نہیں آتی۔

اسرائیلی قید خانوں میں اس وقت اٹھارہ برس سے کم عمر کے لگ بھگ تین سو ساٹھ بچے قید ہیں۔ان میں سے چالیس فیصد پر کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی باضابطہ فردِ جرم عائد نہیں ہو سکی۔بیشتر بچوں کو سزا میں کمی کا لالچ دے کر اعترافی بیانات پر پیشگی دستخط کرانے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔نہ ہی انھیں گھر والوں سے رابطے کی اجازت ہے۔

محمد ابراہیم کے مقدمے کی اگلی سماعت نو نومبر کو ہے اور والدین کو قوی امید ہے کہ شاید ان کا بیٹا رہا ہو جائے۔گزشتہ سماعت کے موقع پر محمد کے والد نے میڈیا سے کہا کہ اگر کوئی اور امریکی شہری اسی طرح وینزویلا کی قید میں ہوتا تو ٹرمپ اب تک چڑھائی کر چکا ہوتا۔

 مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو محمد ابراہیم اور اس کا قتل ہونے والا عم زاد سعید مسلت فلسطینی ہیں۔ لہٰذا وہ امریکی شہری ہیں یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔وہ امریکی ہو کر بھی انصاف کی قطار میں پیچھے ہی رہیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • ستائیسویں ترمیم
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • ہیں کواکب کچھ
  • انسان کی جسمانی خوشبو کا تعلق اس کی خوراک سے بھی ہوتا ہے: تحقیق
  • امریکی شہریت بھی کام نہیں آ رہی
  • ’لغو‘ کیا ہے؟
  • جرمنی میں مریضوں کی قاتل نرس کو عمر قید کی سزا
  • کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، ہم سب انسان ہیں، امیتابھ بچن نے ایسا کیوں کہا؟
  • غزہ سے سوڈان تک: ایک امت، ایک ہی درد