غزہ سے سوڈان تک: ایک امت، ایک ہی درد
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251106-03-5
میر بابر مشتاق
دنیا کے نقشے پر دو خطے اس وقت انسانی المیے کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ ایک مشرقِ وسطیٰ کا غزہ اور دوسرا افریقا کا سوڈان۔ دونوں جگہوں پر کہانیاں الگ ہیں، کردار مختلف ہیں، مگر انجام ایک ہی ہے۔ خون، آنسو، بھوک، لاشیں، اور ایک خاموش دنیا۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے گھر، ملبے تلے دبے بچوں کے جسم، بھوک سے تڑپتے ماں باپ؛ اور دوسری جانب سوڈان کے الفاشر میں وہ خوفناک مناظر جہاں انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ یہ دو الگ جنگیں نہیں، بلکہ ایک ہی درد کی دو تصویریں ہیں۔ ایک امت، ایک زخم، ایک چیخ؛ جو شاید اب بھی ہماری سماعتوں تک نہیں پہنچی۔ سوڈان اس وقت تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ خانہ جنگی نے اس ملک کو صرف عسکری تنازع نہیں بلکہ جغرافیائی تقسیم کی شکل دے دی ہے۔ ریپڈ سپورٹ فورسز (الدعم السریع) نے حال ہی میں مغربی سوڈان کے اہم شہر الفاشر پر قبضہ کر لیا ہے، جو سوڈانی فوج کا آخری گڑھ تھا۔ اس قبضے کا مطلب ہے کہ سوڈان اب حقیقتاً دو حصوں میں بٹنے کے قریب ہے۔ ایک طرف فوج کے زیر ِ انتظام مشرقی سوڈان، اور دوسری طرف حمیدتی کی قیادت میں ایک بغاوتی مغربی ریاست، جو بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی میں وجود پا رہی ہے۔ الفاشر کے بارے میں جو خبریں آ رہی ہیں، وہ روح کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ گلیوں میں بکھری لاشیں، اجتماعی قبریں، خواتین کی منظم آبروریزی، اور بچوں کے قتل کی ویڈیوز۔ یہ سب وہ مناظر ہیں جنہیں دیکھنا بھی ممکن نہیں۔ مقامی رپورٹس کے مطابق، شہر میں سب سے زیادہ مطلوب دوا اب حمل روکنے کی گولیاں بن چکی ہیں۔ یہ جملہ خود انسانی ضمیر پر طمانچہ ہے۔
اس کہانی کی جڑیں 2019 میں پیچھے جاتی ہیں، جب عوامی احتجاج کے نتیجے میں صدر عمر البشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ملک میں ایک عبوری حکومت بنی، جس میں اقتدار دو عسکری قوتوں میں تقسیم ہوا: ایک طرف جنرل عبدالفتاح البرہان کی قومی فوج، اور دوسری جانب محمد حمدان دقلو، المعروف حمیدتی کی ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF)۔ ابتدا میں دونوں نے اقتدار کی شراکت پر اتفاق کیا، مگر جب یہ فیصلہ ہوا کہ آر ایس ایف کو قومی فوج میں ضم کیا جائے، تو اختلاف بھڑک اٹھا۔ فوج چاہتی تھی کہ یہ عمل دو سال میں مکمل ہو، مگر حمیدتی نے دس سال مانگے۔ بات چیت ٹوٹی، اور 15 اپریل 2023 کو خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس جنگ نے دیکھتے ہی دیکھتے دارفور سے لے کر خرطوم تک پورے سوڈان کو لپیٹ میں لے لیا۔
حمیدتی کون ہے؟ حمیدتی کا اصل نام محمد حمدان دقلو ہے، جو چاڈ نژاد ہے۔ 1980 کی دہائی میں خشک سالی کے باعث اپنے قبیلے سمیت دارفور کے علاقے میں آ بسا۔ پہلے وہ اونٹوں کا چرواہا تھا، پھر قبائلی جنگجو بنا، اور بعد میں عمر البشیر کے قریب آ گیا۔ اسی کے زیر ِ اثر بدنام زمانہ جنجوید ملیشیا وجود میں آئی، جس نے 2003 میں دارفور میں بغاوت کچلنے کے نام پر ہزاروں شہریوں کو قتل کیا۔
عمر البشیر نے جنجوید ملیشیا کو قانونی حیثیت دے کر ریپڈ سپورٹ فورسز کا نام دیا۔ بعد میں حمیدتی نے ملک کے سونے کے ذخائر پر قبضہ کر لیا، اور اندازوں کے مطابق سالانہ 20 ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کرنے لگا۔ یعنی ایک چرواہا چند برسوں میں ارب پتی جنگجو بن گیا، جو آج سوڈان کی تباہی کا سب سے بڑا کردار ہے۔ دارفور سوڈان کا وہ علاقہ ہے جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا ایک چوتھائی ہے، اور یہ خطہ سونا، تیل، یورینیم، تانبا، اور پانی کے وسیع ذخائر سے مالامال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے پر قبضہ صرف طاقت کی جنگ نہیں بلکہ وسائل پر قبضے کی عالمی دوڑ بھی ہے۔ کئی رپورٹیں اور انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق، متحدہ عرب امارات ریپڈ سپورٹ فورسز کو مالی، عسکری اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اماراتی کمپنیوں کے ذریعے سوڈان کا سونا اسمگل کیا جا رہا ہے، جس کا بڑا حصہ حمیدتی کے قبضے میں جاتا ہے۔ اسی سونے سے اس کی جنگی مشین چل رہی ہے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس نے سوڈان کی جنگ کو ایک نجی کاروبار میں بدل دیا ہے۔ جہاں بندوق، تیل، اور سونا ایک ہی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنے بڑے انسانی المیے کے باوجود عالمی میڈیا تقریباً خاموش ہے۔ غزہ میں بمباری پر کم از کم کچھ رپورٹس شائع ہو جاتی ہیں، مگر سوڈان کے الفاشر سے آتی چیخیں کسی بین الاقوامی اسکرین پر جگہ نہیں پاتیں۔ شاید اس لیے کہ سوڈان میں نہ اسرائیل شامل ہے، نہ مغربی مفادات کو خطرہ۔ یہ وہی دوہرا معیار ہے جو امت ِ مسلمہ کے زخموں کو گہرا کرتا جا رہا ہے۔ ایک طرف انسانی حقوق کے دعوے، اور دوسری جانب لاکھوں بے گھر، بھوکے، اور تڑپتے انسان جنہیں کوئی عالمی فورم ’’ہیڈ لائن‘‘ کے قابل نہیں سمجھتا۔ غزہ میں بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتیں اور سوڈان میں جلتے گاؤں؛ دونوں میں ایک ہی کہانی لکھی جا رہی ہے: طاقت کے نشے میں ڈوبی دنیا، بے حس قیادتیں، اور ایک بے یار و مددگار امت۔ غزہ میں بچوں کے جسم ملبے تلے دبے ہیں، سوڈان میں بچوں کی لاشیں گلیوں میں پڑی ہیں۔ غزہ میں عورتیں بمباری سے لقمہ ٔ اجل بن رہی ہیں، سوڈان میں وہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہیں۔ اور دونوں جگہ ایک ہی جملہ سنائی دیتا ہے: ’’کہاں ہے امت؟ کہاں ہیں وہ جو ہمیں اپنا بھائی کہتے ہیں؟‘‘ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم بطور امت جذباتی تو بہت ہیں، مگر عملی طور پر بے بس اور منتشر۔
ہمارے حکمران بین الاقوامی فورمز پر خاموش، ہمارے میڈیا چینل تفریح میں مصروف اور ہمارے عوام سوشل میڈیا کے شور میں اپنے ضمیر کی تسکین ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا تھا: ’’تمہاری مثال ایک جسم کی مانند ہے، اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ مگر آج وہ جسم سسک رہا ہے، اور باقی حصے بے خبر ہیں۔ سوڈان کا بکھرنا پورے خطے کے لیے خطرہ اگر سوڈان واقعی دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات پورے مشرقِ وسطیٰ پر محسوس ہوں گے۔ مصر کے جنوبی حصے میں ایک نئی مسلح ریاست کا وجود، لیبیا اور چاڈ کی سرحدوں پر عدم استحکام، اور خطے میں سونے و معدنیات کی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس؛ یہ سب آنے والے وقت میں ایک بڑے علاقائی بحران کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ سوڈان کا بکھرنا محض ایک ملک کا مسئلہ نہیں، بلکہ افریقا کے قلب میں ایک نئی شام، ایک نیا یمن، ایک نیا غزہ پیدا ہونے کے مترادف ہے۔ سب کچھ خاموشی کے سائے میں ہو رہا ہے۔ دنیا کے طاقتور ملک صرف اس لیے تماشائی ہیں کہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ امارات، اسرائیل، اور مغربی طاقتیں اپنے اپنے اقتصادی ایجنڈے کے تحت ایک پورے ملک کو راکھ میں بدل رہی ہیں۔ اور ہم جو خود کو امت ِ واحدہ کہتے ہیں! محض پوسٹس اور بیانات تک محدود ہیں۔
سوڈان میں جلتے گھروں کی راکھ میں ہمیں اپنا مستقبل نظر آنا چاہیے۔ غزہ کی تباہ حال گلیوں میں ہمیں اپنی بے بسی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ یہ دونوں خطے ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر ہم نے اب بھی اپنے ضمیر کو نہ جگایا تو اگلی باری کسی اور شہر، کسی اور قوم کی ہو سکتی ہے۔ ’’غزہ سے سوڈان تک‘‘ صرف جغرافیہ نہیں، ایک درد کی لکیر ہے جو پوری امت کے سینے پر کھنچ چکی ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اس لکیر کے ساتھ جینا سیکھ لیں گے؟ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان مظلوموں پر رحم فرمائے، اور ہمیں وہ حوصلہ دے کہ ہم ان کی آواز بن سکیں، محض لفظوں میں نہیں، عمل میں بھی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ریپڈ سپورٹ فورسز اور دوسری سوڈان میں سوڈان کا میں ایک ایک ہی
پڑھیں:
علامہ صادق جعفری کا سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور لرزہ خیز مظالم پر شدید تشویش کا اظہار
رہنما ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین عالمی اداروں، بالخصوص اقوام متحدہ، او آئی سی، افریقی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالیں اور انسانی بنیادوں پر امدادی راہیں کھولیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے صدر علامہ صادق جعفری کا کہنا تھا کہ سوڈان میں جاری خانہ جنگی، انسانی المیے اور مظلوم عوام پر ہونے والے لرزہ خیز مظالم پر شدید تشویش اور افسوس کا اظہار کرتی ہے، گزشتہ دو برس سے سوڈان کے مختلف شہروں خصوصاً دارفور اور الفاشر میں فوجی گروہوں کے مابین جاری خونریز جھڑپوں نے پورے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، ہزاروں معصوم شہری، خواتین اور بچے قتل و دربدری کا شکار ہیں، لاکھوں افراد بھوک، پیاس اور علاج کی سہولیات کے بغیر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اسپتال، عبادت گاہیں اور رہائشی علاقے نشانہ بنائے جا رہے ہیں، یہ صورتحال واضح طور پر انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور اسلامی اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے، مجلس وحدت مسلمین عالمی اداروں، بالخصوص اقوام متحدہ، او آئی سی، افریقی یونین اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالیں اور انسانی بنیادوں پر امدادی راہیں کھولیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بے گناہ شہریوں کے قتلِ عام اور جنگی جرائم کی شفاف تحقیقات کی جائیں، متاثرہ علاقوں میں اقوامِ متحدہ کی زیر نگرانی امن مشن تعینات کیا جائے تاکہ شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے، عالمی ضمیر کو بیدار کیا جائے تاکہ دنیا سوڈان کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑی ہو، نہ کہ خاموش تماشائی بنے، مجلس وحدت مسلمین اس امر پر یقین رکھتی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ظلم و جارحیت کے خلاف آواز اٹھانا ایمان کا تقاضا ہے، سوڈان کے مظلوم عوام آج امتِ مسلمہ کی اجتماعی حمایت کے منتظر ہیں، ہم ہر سطح پر ان کی آواز بننے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد و یکجہتی جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، ہم سوڈان کے مظلوم عوام کے ساتھ ہیں، انشاءاللہ ظلم کے ایوان ایک روز ضرور لرزیں گے اور عدل و انصاف کی صبح طلوع ہوگی۔