ایل پی جی سے بھرے ٹرک اور مسافر کوچ میں تصادم، 7 افراد زندہ جل گئے
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
ویب ڈیسک: بلوچستان مکران کوسٹل ہائی وے کنڈ ملیر نلی اترائی کے قریب کوچ اور ایل پی جی گیس کے ٹرک میں تصادم ہوگیا۔
حادثہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا، حادثے کی اطلاع پر فوری طور پر پولیس کی بھاری نفری اور امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں، مقامی افراد کی بڑی تعداد بھی آگئی، حادثے میں 7 افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے، حادثے کے باعث کوچ کو آگ لگ گئی جس کے شعلے دور دور تک دکھائے دینے لگے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کل سرکاری دورے پر برازیل روانہ ہوں گی
امدادی ٹیمیوں نے لاشوں کو سراب گوٹھ کے ایدھی سرد خانے میں منتقل کر دیا، پولیس نے بھی حادثے کی تحقیقات شروع کر دی۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
سائنسی تجربے کے تحت 36 افراد رضاکارانہ طور پر زندہ دفن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان سائنسی تحقیق کے لیے زندہ دفن ہونے جیسے خوفناک تجربے سے بھی گزر سکتا ہے؟ اٹلی میں ہونے والا ایک حیرت انگیز تجربہ اسی جرات مندانہ عمل کی مثال بن گیا، جہاں 36 رضاکاروں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ایک ایسی ڈیوائس کی آزمائش میں حصہ لیا جو برفانی تودوں کے نیچے دبے افراد کو سانس لینے میں مدد دے سکتی ہے۔
یہ تجربہ جنوری سے مارچ 2023 کے دوران اٹلی کے ایک برف پوش علاقے میں کیا گیا۔ ہر رضاکار کو تقریباً 50 سینٹی میٹر گہرائی تک برف کے نیچے دفن کیا گیا اور اس دوران اُن کی صحت کی نگرانی جدید آلات سے کی جاتی رہی۔ تجربے میں شامل تمام افراد کی عمریں 18 سے 60 سال کے درمیان تھیں اور وہ مکمل طور پر صحت مند تھے۔
رضاکاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا—ایک گروپ کے پاس “سیف بیک” (SafeBCK) نامی ڈیوائس موجود تھی، جبکہ دوسرا گروپ اس کے بغیر تھا۔ یہ جدید ڈیوائس برف کے اندر سے ہوا کھینچ کر براہِ راست سانس کی نالی تک پہنچاتی ہے، جس سے آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے کا عمل سست ہوجاتا ہے۔ اسے چلانے کے لیے کسی اضافی آکسیجن سلنڈر یا ماؤتھ پیس کی ضرورت نہیں پڑتی۔
نتائج حیران کن رہے، جن رضاکاروں نے سیف بیک کا استعمال کیا، وہ برف کے نیچے اوسطاً 35 منٹ تک زندہ رہے، جبکہ بغیر ڈیوائس والے رضاکار صرف 6 منٹ بعد ہی دم گھٹنے کے قریب پہنچ گئے۔ تجربے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈیوائس والے گروپ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 1.3 فیصد رہی، جب کہ دوسرے گروپ میں یہ 6.1 فیصد تک جا پہنچی۔
محققین کا کہنا ہے کہ برفانی تودے گرنے سے ہونے والی زیادہ تر اموات پہلے 35 منٹ میں دم گھٹنے کے باعث ہوتی ہیں، اور اگر اس عرصے میں سانس لینے کا وقت بڑھایا جاسکے تو سیکڑوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
یہ انوکھا تجربہ نہ صرف انسانی حوصلے کی مثال ہے بلکہ جدید سائنسی اختراع کی ایک امید افزا جھلک بھی—ایک ایسی ٹیکنالوجی جو مستقبل میں زندگی اور موت کے درمیان فرق بن سکتی ہے۔