ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ WhatsAppFacebookTwitter 0 6 November, 2025 سب نیوز

تحریر ذوالقرنین حیدر


ان دنوں ملک میں 27ویں آئینی ترامیم کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ کہیں آرٹیکل 243تھی زیر بحث ہے تو کہیں صوبوں کے اختیارات میں کمی کی بات جارہی ہے۔ مگر جو سسٹم سے جڑی بات ہے وہ دراصل مجسٹریٹی نظام کی واپسی کی بات ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ہم نے1860میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

برطانوی تسلط میں یہ قانون بنایا گیا جس میں ملکی اداروں کا نظام ایگزیکٹو مجسٹریٹی کے سپرد کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں وہ بھی ایک طرح کا وائسرے تھا۔ پولیس سے لیکر تمام ادارے انہی کی مرہون منت ہوا کرتے تھے۔ مگر وقت بدلہ حالات بدلے اور بالآخر مشرف دور میں اس قانون سے جان چھڑا لی گئی اور پولیس آرڈر 2002 لایا گیا۔ جس کی وجہ سے پولیس اپنے فیصلوں میں کسی حد تک آزاد ہوئی اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی پولیس آرڈر 2002اپنی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے پولیس نے گزشتہ بیس سالوں سے امن اوامان کی صورتحال کو سنبھالا ہوا ہے۔ نئے ادارے بنا دئے گئے۔

اختیارات تقسیم ہوئے۔ ایک طرف روزگار کے مواقع ملے تو دوسری طرف کئی معاملات میں عوام کو بھی سہولت میسر آئی۔ اب اگر بات کی جائے کہ مجسٹریٹی نظام واپس لایا جائیگا تو ہوگا کیا۔ دراصل اب تک تین مرتبہ یہ کوشش کی جا چکی ہے پولیس آرڈر واپس ہو مگر ایسا نہ ہوا۔ اس بار پھر سے ایک کوشش کی گئی ہے۔ نظام واپس آنے سے پولیس آرڈر ختم ہو جائیگا۔ نئے بنائے جانے اداروں کو بھی ختم کرنا پڑ جائیگا۔

یہاں تک کہ عدلیہ کی طاقت بھی کم ہو جائیگی کیونکہ عدلیہ کے اختیارات بھی ایگزیکٹو کے پاس آجائیں گے۔ پھر ہوگا بادشاہی نظام بادشاہ کو کیا پسند ہے اسی کے مطابق آپ کو بھی چلنا ہوگا۔ بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی ہو یا امن وامان کا معاملہ پولیس اپنی جانیں قربان کر رہی ہے۔ دھرنے ہوں یا احتجاج نمٹا جارہا ہے۔ مگر اس کے بعد صاحب کا ایک حکم ہوگا اور پورا شہر اسی پر چلے گا۔ آج اگر پولیس اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو آپ کے پاس کئی فورم ہے آپ عدلیہ سے بھی ریلیف لے سکتے ہیں مگر یہ اختیارات بھی کم ہو گئے تو جو ریلیف مل رہا ہے اس سے بھی جائیں گے۔

پنجاب میں لوکل گورنمنٹ آرڈنینس میں بھی تمام اختیارات سیکرٹری کو دئیے گئے اس سے تو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا راگ جو الاپا جاتا ہے وہ بھی ختم ہو گیا۔ دنیا کے تمام ملکوں میں ایسے قوانین ختم ہو چکے ہیں یہاں تک کے برطانیہ بھی اس نظام سے باہر آچکا ہے۔ مگر ہم نے ایک بار پھر فرسودہ نظام کو اپنانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ سپشلائیزیشن کا دور ہے نا کہ جنرلائزیشن کا دور


مجوزہ لائے جانے والے نظام سے عدلیہ اور پولیس کو جہاں دھچکا لگے گا وہاں عوام بھی شدید متاثر ہوگی۔ جس کی واضح مثال تھری ایم پی او کے آرڈر ہیں کہ صاحب کو پسند نہیں کہ آپ ان کے سامنے آئیں اور پھر آپ ان کے اگلے حکم تک ااندر ہی رہیں گے۔ یہی کچھ برطانوی راج میں بھی ہوتا تھا۔

جس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس ہوا کہ اس نظام سے جان چھٹرائی جائے۔ نظام سے جان تو چھڑا لی گئی مگر اس نظام کا مائنڈ سیٹ ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اسی لئے ایک بار پھر کوشش کی جارہی ہے کہ عدلیہ کے اختیارات کم ہوں جو واپس ایگزیکٹو کو دئیے جا سکیں۔ پولیس پھر سے مجسٹریٹ کے تابع ہو۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکی صدر نے پاک بھارت جنگ میں 8 طیارے گرائے جانے کا دعویٰ کردیا بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے.

کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مجسٹریٹی نظام

پڑھیں:

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

سیاسی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر سے آئینی ترمیم کی باتیں ہورہی ہیں، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلے کا اختیار، این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر ڈیڈلاک ختم کرنا ہے۔

’وی نیوز‘ نے قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے آئینی ترمیم کے ذریعے کون سے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق سربراہ حسن رضا پاشا نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے عدلیہ سے متعلق مجوزہ حکومتی اقدامات پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا اور کہاکہ اطلاعات کے مطابق حکومت ایگزیکٹو مجسٹریٹس کا نظام دوبارہ متعارف کرانے جا رہی ہے جو ماضی میں ختم کیے جا چکے تھے۔

انہوں نے کہاکہ 1973 کے آئین کے تحت عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ رکھا گیا تھا تاکہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار حیثیت میں کام کر سکے، لیکن اب اگر حکومت ان حدود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی تصور ہوگا۔

حسن رضا پاشا نے کہاکہ اگر کسی نئے قانون کے تحت حکومت کو عدالتی ٹرائل یا جوڈیشل امور میں براہِ راست مداخلت کا اختیار دیا گیا تو یہ نہ صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ اس سے عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ججز کی تقرری، تبادلوں اور تعیناتیوں کے حوالے سے آئین میں پہلے سے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی باہمی مشاورت سے ہی کسی جج کا تبادلہ یا تقرری ممکن ہے۔

’اگر حکومت اس میں ترمیم کرکے جج کی مرضی یا رضامندی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو یہ آئینی اور قانونی لحاظ سے ایک سنگین مسئلہ پیدا کرے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ججز کے تبادلوں کے چند معاملات، جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کو لاہور ہائیکورٹ میں بھیجنے اور دیگر صوبوں سے ججز کی تعیناتی کے فیصلے پہلے ہی بار اور عدلیہ کے درمیان بحث کا باعث بنے ہیں، ایسے میں کسی بھی ترمیم سے مزید تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔

حسن رضا پاشا نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ دیگر سرکاری محکموں کی طرح ایک معمول کی انتظامی کارروائی ہو سکتی ہے، لیکن عدلیہ کے حساس کردار کے پیش نظر اس میں شفافیت، میرٹ اور جج کی رضامندی لازمی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ کسی جج کو محض ناپسندیدگی یا ذاتی اختلاف کی بنیاد پر ہٹانا یا تبدیل کرنا عدالتی آزادی کے منافی ہوگا۔

انہوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت کو ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے تاکہ ججز کی تعیناتی یا تبادلوں کے عمل میں کسی قسم کی جانبداری یا سیاسی اثر و رسوخ شامل نہ ہو۔

ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیاکہ اگر ججوں کی رضامندی کا اصول ختم کر دیا گیا تو عدلیہ میں عدم تحفظ اور بے چینی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ عدلیہ کو سیاست یا انتقامی عمل سے دور رکھا جائے، کیونکہ یہ ادارہ ریاست کا ستون ہے اور اس کی غیرجانبداری ہی جمہوریت اور انصاف کے نظام کی بنیاد ہے۔

سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کی بیان کردہ مجوزہ آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلوں کا اختیار اور آرٹیکل 243 میں ترمیم جیسی تجاویز شامل ہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہ تجاویز بظاہر اصلاحات کا لبادہ رکھتی ہیں مگر ان کے اثرات عدلیہ کی آزادی اور آئینی توازن پر انتہائی خطرناک ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اس نظام کی واپسی ہے جس میں انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود خلط ملط ہو جاتی تھیں۔ ججوں کے تبادلے کا اختیار کسی غیر عدالتی اتھارٹی کو دینا ناقابلِ قبول ہے۔ ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔

عمران شفیق نے کہاکہ آئینی عدالت دراصل سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی ایک غیر ضروری توسیع ہے، جو عدلیہ کے اندر تقسیم اور دباؤ پیدا کرے گی۔ ایسی عدالت عدلیہ کے چند ارکان کو خصوصی مراعات دے کر باقی ججوں سے الگ حیثیت دینے کے مترادف ہے، جو ایک طرح کی ادارہ جاتی رشوت اور داخلی تقسیم ہے۔

مزید پڑھیں: 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہاکہ آئین میں کسی بھی ترمیم کا مقصد اداروں کو مضبوط بنانا ہونا چاہیے، ان کی حدود کمزور کرنا نہیں، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہ آئینی ہو سکتا ہے، نہ جمہوری۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی ترمیم پیپلز پارٹی حسن رضا پاشا حکومت پاکستان مشاورتی عمل وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • دبئی کو دنیا کا خوبصورت ترین شہر بنانے کیلیے 18 ارب درہم کا منصوبہ منظور
  • دبئی کو دنیا کا خوبصورت ترین شہر بنانے کیلئے 18 ارب درہم کا منصوبہ منظور
  • امریکہ کا داعش کی سازش ناکام بنانے کا دعویٰ
  • 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ، این ایف سی اور فوجی کمان سے متعلق کون سی اہم ترامیم تجویز کی جائیں گی؟
  • 27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر مشاورت جاری ہے، عطا تارڑ
  • حکومت عدالتی نظام کو مزید مؤثر اور مضبوط بنانے کے لیے آئینی ترمیم پر غور کر رہی ہے، عطا اللہ تارڑ
  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
  • ایم کیو ایم نے مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے کیلئے آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی قرارداد سندھ اسمبلی میں جمع کرادی
  • ستائیسویں آئینی ترمیم ،فیلڈ مارشل کاعہدہ آئینی بنانے کیلئے آرٹیکل243میں ترمیم کی جائیگی،حکومتی ذرائع