27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ، این ایف سی اور فوجی کمان سے متعلق کون سی اہم ترامیم تجویز کی جائیں گی؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT
حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور اتحادی پیپلزپارٹی کے درمیان آئینی ترمیم پر مشاورت جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا 27ویں ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم واپس ہونے جا رہی ہے؟
وی نیوز کے ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ، این ایف سی ایوارڈ، صوبائی خودمختاری، مسلح افواج کی کمان اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت متعدد آئینی دفعات میں بنیادی تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہیں تاہم فی الحال حتمی تجاویز پر اتفاق نہیں کیا جا سکا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 160، شق 3A، آرٹیکل 213، آرٹیکل 243، آرٹیکل 191A اور آرٹیکل 200 سمیت کئی اہم دفعات میں ترامیم شامل ہیں۔
ان کا کہنا مزید کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ایک جامع آئینی پیکج متعارف کرائے جانے کا امکان ہے کہ جس کا مقصد عدلیہ، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کے توازن کو ازسر نو متعین کرنا اور گورننس کے نظام کو مؤثر بنانا ہے۔
ذرائع کے مطابق 27ویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 160 اور اس کی شق 3A میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے جس کے ذریعے صوبوں کے وفاقی محصولات میں حصے کی آئینی ضمانت ختم کر دی جائے گی۔
مزید پڑھیے: 27ویں آئینی ترمیم کے اثرات انتہائی خطرناک ہوں گے، منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد
18ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو محصولات کا طے شدہ حصہ دیا جاتا تھا جو صوبائی خودمختاری کی ایک بڑی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق نئی ترمیم کے تحت وفاق کو محصولات کی تقسیم میں زیادہ لچک اور فیصلہ سازی کا اختیار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 191A کے تحت ایک آئینی عدالت (Constitutional Court) کے قیام کی سفارش کی جائے گی، یہ عدالت آئینی نوعیت کے مقدمات، وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات اور آئین کی تشریح سے متعلق امور پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
اس اقدام کا مقصد سپریم کورٹ کے بوجھ میں کمی اور آئینی معاملات کو الگ دائرہ کار میں لانا بتایا جا رہا ہے اس کے علاؤہ آرٹیکل 200 کے تحت ہائی کورٹ کے ججز کی منتقلی کے طریقہ کار میں تبدیلی کی سفارش کی گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ آئینی عدالتوں کی قیام کی بات 26ویں ترمیم کے وقت بھی کی گئی تھی لیکن اس وقت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئینی عدالتوں کے قیام کی جگہ آئینی بینچ تشکیل دے دیا جائے جس پر آئینی بینچ کی تشکیل کی گئی تھی تاہم اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ آئینی بینچ کے ذریعے مسائل کا حل نہیں ہوا اس لیے آئینی عدالتوں کا ہی قیام کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا، ملک محمد احمد خان
ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم میں ضلعی سطح پر ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے نظام کی بحالی کی تجویز بھی شامل ہے جس کے تحت انتظامی افسران کو محدود عدالتی اختیارات دیے جائیں گے تاکہ ضلعی سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔
18ویں ترمیم کے بعد تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے محکمے صوبوں کو منتقل کیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق اب 27ویں ترمیم میں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی دوبارہ وفاق کے ماتحت کرنے کی تجویز زیر غور ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب نافذ کیا جا سکے اور آبادی کے انتظامی منصوبوں میں ہم آہنگی پیدا ہو۔
ذرائع کے مطابق آرٹیکل 243 میں بھی اہم تبدیلی کی تجویز زیر غور ہے جس کے ذریعے آرمی چیف کو دیے گئے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی حیثیت دینے اور اسے آئین کا باقاعدہ حصہ بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 213 میں ترمیم بھی زیر غور ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی تجویز ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے اس ضمن میں بتایا ہے کہ 27ویں ترمیم پر بات چیت جاری ہے تاہم باضابطہ کام ابھی شروع نہیں ہوا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
18 ویں ترمیم 27 ویں ترمیم آئینی پیکج پیپلز پارٹی ن لیگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 18 ویں ترمیم 27 ویں ترمیم ا ئینی پیکج پیپلز پارٹی ن لیگ 27ویں آئینی ترمیم میں ذرائع کے مطابق 27ویں ترمیم کہنا ہے کہ کے درمیان کی تجویز ترمیم کے کے ذریعے قیام کی کا کہنا کیا جا کی گئی گئی ہے کے تحت
پڑھیں:
کیا 27ویں ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم واپس ہونے جا رہی ہے؟
ملکی سیاست میں ایک بار پھر نئی آئینی ترمیم کے حوالے سے مختلف قیاص آرائیاں جاری ہیں، اس ترمیم میں ماضی میں پیپلزپارٹی کی جانب سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے لیے 18ویں آئینی ترمیم کو بھی تبدیل کرنے سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔
اب سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا صوبوں کے اختیارات کم کرنے یا 18ویں ترمیم میں تبدیلی کی جا رہی ہے؟
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، البتہ مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جیسے دفاع وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کا بھی کیا جا تا ہے لیکن دفاعی بجٹ میں صرف وفاق ہی حصہ دیتا ہے، وفاقی حکومت کے پاس معمولی اخراجات کے لیے بجٹ نہیں جبکہ صوبوں کے پاس وسیع بجٹ موجود ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے وقت وسائل کی تقسیم پر تفصیلی بات ہوئی تھی، اس وقت کے حساب سے وسائل کی تقسیم کا فارمولا طے کیا گیا تھا، اب اگر کچھ فرق آ گیا ہے اور ترمیم کی ضرورت ہے اور اگر سب کی مشاورت سے اس معاملے کو آگے بڑھایا جا رہا ہو تو وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی کے لیے آئینی ترمیم ہو سکتی ہے، اگر دو تہائی ارکان پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہو گی تو اسی کے بعد ہی ترمیم ہو سکے گی۔
رانا ثنا اللہ نے واضح کیا کہ آئین کوئی جامد چیز نہیں، اس میں بہتری کے لیے ترامیم کی جاتی ہیں، اگر وقت کے ساتھ وسائل کی تقسیم میں فرق آیا ہے تو اس پر بات چیت اور غور و فکر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، حکومت فوری طور پر 27ویں ترمیم نہیں لا رہی بلکہ ابھی محض مشاورت اور سیاسی مکالمے کا عمل جاری ہے، تمام جماعتیں متفق ہیں کہ آئینی عدالت یا آئینی بینچ کے قیام سے نظام بہتر ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وزیراعظم کی قیادت میں لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، 27ویں ترمیم پر حمایت کی درخواست
پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری کا کہنا ہے کہ حکومت نے باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے رابطہ کیا ہے اور حمایت مانگی ہے لیکن 18ویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ہے، 18ویں ترمیم صوبوں کے دلوں کے بہت قریب ہے اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صوبوں کے اختیارات پر پیپلز پارٹی نے اتفاقِ رائے پیدا کیا تھا اب ان اختیارات سے پیچھے ہٹنا نہ مناسب ہوگا اور نہ ممکن ہے، کوئی بھی ترمیم اگر 18ویں ترمیم کے متصادم ہو گی تو اس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
شازیہ مری نے کہا کہ حکومت کا تجویز کردہ مسودہ 6 نومبر کو پیپلز پارٹی کی سی ای سی اجلاس میں پیش کیا جائے گا، جہاں اس پر غور اور فکر کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا، پیپلزپارٹی پارٹی ہر معاملے کو اپنے اصولی مؤقف کے مطابق دیکھے گی، البتہ عوامی مفاد میں اگر کسی بات پر اتفاق کی گنجائش ہوئی تو اس پر بات ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 18ویں ترمیم 2010 میں منظور کی گئی تھی جس کے ذریعے صوبوں کو وسیع اختیارات اور مالی خودمختاری ملی تھی اور پیپلز پارٹی اس ترمیم کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
18ویں آئینی ترمیم 26ویں آئینی ترمیم 27ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ