data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خرطوم: سوڈان میں جاری خانہ جنگی کے باعث ہزاروں شہری ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے،  شمالی دارفور کے شہر الفاشر پر نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے قبضے کے بعد 62 ہزار سے زائد افراد انتہائی کٹھن حالات میں شہر سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق  زیادہ تر بے گھر افراد نے کُرمہ، تاویلہ اور گارنی کے علاقوں کا رخ کیا جبکہ ہزاروں لوگ اب بھی راستوں میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نہ نقل و حمل کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی انسانی امداد۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سینکڑوں شہری 1,200 کلومیٹر طویل سفر طے کر کے الشمالی ریاست کے شہر الدبہ پہنچے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں،  کئی افراد نے یہ سفر پیدل طے کیا اور انہیں دورانِ سفر بھوک، پیاس اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

بین الاقوامی طبی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (MSF) نے فوری مطالبہ کیا کہ RSF اور اس کے اتحادی گروہ الفاشر کے شہریوں کو نکلنے کی اجازت دیں، کیونکہ شہر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

ایم ایس ایف کے ایمرجنسی سربراہ میشل اولیور لاشاریٹے نے ایک بیان میں کہا کہ  ہم فوری طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ شہریوں کو محفوظ راستہ دیا جائے اور انہیں جنگ سے نکلنے دیا جائے۔ الفاشر میں صورتِ حال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے۔

انہوں نے امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر پر زور دیا کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے  خونریزی کو روکنے  کے لیے فوری اقدامات کریں۔

مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق 26 اکتوبر کو RSF نے الفاشر پر قبضے کے بعد شہریوں پر مظالم ڈھائے اور اجتماعی قتلِ عام کیا، جس کے نتیجے میں سوڈان کی جغرافیائی تقسیم کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

یاد رہے کہ 15 اپریل 2023 سے سوڈانی فوج اور RSF کے درمیان جنگ جاری ہے، جس میں اب تک 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 1 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر لڑائی نہ رُکی تو سوڈان دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں شامل ہو جائے گا۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

سوڈان میں خونیں کھیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-3

 

سوڈان ایک بار پھر خون میں نہا رہا ہے۔ شہر الفشر میں گزشتہ ہفتے سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔ فوجی انخلا کے بعد سے ریپڈ سپورٹ فورسز نے شہر پر قبضہ کر کے ایک ایسا قتل عام شروع کیا ہے جس نے دارفور کے پرانے زخم پھر سے تازہ کر دیے ہیں۔ صرف چار دن میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور پچیس ہزار سے زیادہ شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، الفشر کے اطراف میں ایک لاکھ سترہ ہزار کے قریب لوگ پھنسے ہوئے ہیں، بغیر خوراک، پانی یا طبی سہولت کے۔ اس المناک صورتحال کی جڑیں آج کی نہیں بلکہ ایک دہائی پرانی پالیسیوں میں پیوست ہیں۔ 2013ء میں جب دارفور میں بغاوت کے شعلے بھڑکے، تو خرطوم نے روایتی فوج کی ناکامی کے بعد ایک نئی ملیشیا بنائی، ریپڈ سپورٹ فورس۔ مقصد یہ تھا کہ تیز رفتار کارروائیوں کے ذریعے شورش کو ختم کیا جائے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ گواہ ہے، ’’ایک ملک میں دو فوجیں کبھی ساتھ نہیں رہ سکتیں‘‘۔ اس ملیشیا کو وسائل، اختیار اور تحفظ دیا گیا، مگر اس کے ساتھ وہ خود مختاری بھی ملی جس نے بالآخر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کر دیا۔ ماضی میں دیکھا جائے تو جب 2019ء میں عمرالبشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تو یہی ملیشیا اقتدار کی کشمکش میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگی۔ ریپڈ فورسز نے فوجی اقتدار کے عبوری دور میں بھی اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ جاری رکھا۔ پھر 2023ء میں وہ لمحہ آیا جب جنرل برھان کی فوج اور جنرل حمیدتی کی فورس کے درمیان تصادم نے سوڈان کو مکمل خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ آج الفشر میں جو خون بہہ رہا ہے، وہ دراصل انہی غلط فیصلوں اور طاقت کے بے لگام استعمال کا نتیجہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ سوڈان کی صورت حال اب انسانی المیے کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر، معیشت تباہ، اسپتال ملبے میں تبدیل، اور عورتیں و بچے عدم تحفظ کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن عالمی طاقتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ وہی مغربی دنیا جو یوکرین یا اسرائیل کے لیے ہمدردی کے بیانات دیتی ہے، سوڈان کے جلتے ہوئے شہروں پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ سوڈان کا المیہ صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ یہاں بھی عالمی بے حسی صاف نظر آتی ہے۔ جب کسی ریاست کے اندر طاقت کے دو مراکز قائم ہو جائیں، جب اقتدار ذاتی مفاد کے تابع ہو جائے، جب بین الاقوامی طاقتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی اسیر ہوجائیں تو ایسے ہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس وقت سوڈان کو فوری طور پر جنگ بندی، غیر جانب دار انسانی رسائی، اور ایک جامع سیاسی عمل کی ضرورت ہے، جس میں فوج، ریپڈ فورس اور سول سوسائٹی سب شامل ہوں۔ بین الاقوامی برادری کو بھی اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ صرف تماشائی بنے رہنا چاہتی ہے یا واقعی انسانی حقوق کے اصولوں پر قائم ہے۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • سموگ‘ فضائی آلودگی کی روک تھام کیلئے کریک ڈاؤن‘ 27 مقدمات‘ متعدد گرفتار
  • سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل،ہزاروں افراد محصور
  • سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے بچے قتل
  • سوڈان،خونریز جنگ، والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، اجتماعی قبریں و لاشیں
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے سینکڑوں بچے قتل، ہزاروں افراد محصور
  • سوڈان کی قیامت خیز جنگ سے فرار کے دوران خاندان بچھڑ گئے، بچے والدین کے سامنے قتل
  • سوڈان: آر ایس ایف نے 300 خواتین کو ہلاک، متعدد کیساتھ جنسی زیادتی کردی، سوڈانی وزیر کا دعویٰ
  • سوڈان میں خونیں کھیل