Express News:
2025-11-08@01:19:43 GMT

امریکی شہریت بھی کام نہیں آ رہی

اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT

ویسے تو امریکی آئین کی نگاہ میں بلاامتیازِ رنگ و نسل و عقیدہ سب شہری برابر ہیں۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی امریکی پھنس جائے ، پکڑا جائے یا کسی اور ریاست کے قانون کے مطابق سزا یافتہ بھی ہو جائے تب بھی امریکی انتظامیہ اس کی واپسی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے ۔امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ جرم کسی بھی سرزمین پر ہو مگر مقدمہ امریکی قانون کے تحت امریکی سرزمین پر چلے۔اور اس معاملے کو کئی بار قومی انا کا مسئلہ بھی بنا لیا جاتا ہے۔

مگر جب فلسطینی نژاد امریکیوں کا معاملہ ہو یا کسی غیر فلسطینی ( ریچل کوری ) کی ’’ غلطی ‘‘ سے ہلاکت کا سانحہ ہو یا اسرائیل بھولے سے امریکا کے درجنوں فوجی ( یو ایس ایس لبرٹی ) مار دے یا جان بوجھ کر کسی نوعمر امریکی کو قتل یا قید کردے تو امریکا اپنے ہی شہریوں سے لاتعلق ہونے میں دیر بھی نہیں لگاتا۔

مثلاً دوسرے انتفادہ کے عین عروج کے دور میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے وارننگ جاری کی کہ امریکی شہری اسرائیل ، غزہ اور غربِ اردن کے غیر ضروری سفر اور بلامقصد قیام سے پرہیز کریں۔

اس ہدائیت پر عمل کرتے ہوئے جب چار جون دو ہزار بائیس کو چالیس فلسطینی نژاد امریکی شہری وطن واپسی کے لیے تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پہنچے تو امیگریشن حکام نے انھیں روک لیا۔ان سے کہا گیا کہ اسکریننگ کے بعد واپسی کی اجازت ملے گی کہ کہیں وہ اسرائیل یا مقبوضہ علاقوں میں اپنے قیام کے دوران کسی ہنگامہ آرائی یا دھشت گردوں سے رابطوں یا ان کی مدد میں تو ملوث نہیں تھے۔امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاویل کو اسرائیل سے ذاتی طور پر سر کھپا کے ان امریکی فلسطینیوں کی گلوخلاصی کروانا پڑی۔

سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے اسرائیل نے امریکی و مقامی کا امتیاز ختم کر دیا ہے۔ جنوری دو ہزار چوبیس میں نیو آرلینز کا رہائشی سترہ سالہ توفیق عبدالجبار کچھ عرصے کے لیے مغربی کنارے میں اپنے رشتے داروں سے ملنے آیا۔ ایک روز وہ مسلح یہودی آبادکاروں کے ہتھے چڑھ گیا اور اسے پولیس کی موجودگی میں گولی مار کے ہلاک کر دیا گیا۔اس کا قاتل تین روز بعد ضمانت پر رہا ہو گیا۔

 پام بے فلوریڈا کا رہائشی پندرہ سالہ محمد ابراہیم اپنے والد زاہر اور والدہ مونا کے ہمراہ تعطیلات گذارنے اس سال فروری میں مغربی کنارے کے شہر رملہ کے نواحی گاؤں مزرا الشرقیہ پہنچا۔اس گاؤں کو مغربی کنارے کا میامی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے اکثر باشندے ریاست فلوریڈا میں رہتے ہیں۔

ایک رات گھر کا دروازہ ٹوٹا ، مسلح اسرائیلی فوجی گھس آئے اور محمد ابراہیم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کے فوجی گاڑی میں پٹخا اور بندوق کے بٹوں سے مارتے ہوئے اوفر ملٹری کیمپ میں لے گئے۔

فوجیوں نے گھر والوں میں سے کسی کو نہیں بتایا کہ بچے کا جرم کیا ہے۔اوفر کیمپ سے محمد ابراہیم کو تھانے میں منتقل کیا گیا۔جہاں اس سے ایک نقاب پوش افسر نے تفتیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے اعتراف نامے پر دستخط نہ کیے تو تمہیں اور مارا جائے گا۔محمد نے مزید تشدد کے خوف سے اعتراف نامے پر دستخط کر دیے۔اس میں اقرار کیا گیا کہ میں نے چند دیگر بچوں کے ہمراہ سڑک پر ایک آبادکار کی گاڑی پر پتھراؤ کیا ( اسرائیلی قانون کے مطابق پتھراؤ کی سزا بیس برس قید ہے ) ۔

محمد ابراہیم کو قید میں لگ بھگ نو ماہ بیت چکے ہیں۔یروشلم میں امریکی سفارت خانہ اس کے والدین کو کئی ماہ سے یقین دلا رہا ہے کہ رہائی کی کوششیں جاری ہیں۔امریکی کانگریس کے ستائیس ارکان نے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیل میں امریکی سفیر مائک ہوکابی کو مشترکہ خط میں محمد ابراہیم کو جلد از جلد رہا کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

جیل میں قید محمد کو اب تک نہیں بتایا گیا کہ اس کے بیس سالہ سالہ کزن سعید مسلت اور دوست محمد الشلابی کو گیارہ جولائی کو اسرائیلی آبادکاروں نے المرا قصبے میں زمین پر قبضے کی مزاحمت کرنے پر مار مار کے قتل کر دیا۔

سعید مسلت بھی امریکی شہری تھا۔چنانچہ امریکی سفیر مائک ہوکابی کو بادلِ نخواستہ سعید کے گاؤں میں تعزیت کے لیے آنا پڑا۔مگر سفیرِ موصوف نے اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں اپنے شہری کی ہلاکت پر ایک احتجاجی لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔دو امریکی سینیٹروں نے بھی سعید کے گھر جا کر تعزیت کی۔

گذرے ستمبر میں بچوں کی قانونی معاونت کرنے والی ایک اسرائیلی تنظیم ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کی وکیل سحر فرانسس کو کئی انتظامی پاپڑ بیلنے کے بعد بالاخر محمد ابراہیم سے ملنے کی اجازت ملی۔سحر کا کہنا ہے کہ دورانِ قید محمد کا وزن تیس پاؤنڈ تک گر چکا ہے۔اس کی کوٹھڑی میں کل آٹھ بچے اور چار بینک بیڈ ہیں۔چوبیس گھنٹے میں دو بار کھانا ملتا ہے۔

یعنی ناشتے میں ایک بڑا چمچ دہی اور بریڈ کے چند ٹکڑے۔ دوپہر کو ایک کپ ابلے چاول ، ایک چھوٹا سوسییج اور کھیرے اور ٹماٹر کے دو تین ٹکڑے دیے جاتے ہیں۔محمد ابراہیم اور دیگر بچوں کو جلدی خارش ہو گئی ہے اور جسم اکثر کھجاتے رہنے سے خراشیں پڑ جاتی ہیں۔ان سب کو پتلے پتلے سے گدے ملے ہوئے ہیں جن کی کبھی دھلائی نہیں ہوتی۔سیل میں قرآنِ مجید کا ایک نسخہ بھی رکھا ہوا ہے۔ہفتے میں ایک بار نہانے کی اجازت ہے مگر قیدیوں کی قطار اتنی لمبی ہے کہ بہت سے بچوں کی باری نہیں آتی۔

اسرائیلی قید خانوں میں اس وقت اٹھارہ برس سے کم عمر کے لگ بھگ تین سو ساٹھ بچے قید ہیں۔ان میں سے چالیس فیصد پر کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی باضابطہ فردِ جرم عائد نہیں ہو سکی۔بیشتر بچوں کو سزا میں کمی کا لالچ دے کر اعترافی بیانات پر پیشگی دستخط کرانے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔نہ ہی انھیں گھر والوں سے رابطے کی اجازت ہے۔

محمد ابراہیم کے مقدمے کی اگلی سماعت نو نومبر کو ہے اور والدین کو قوی امید ہے کہ شاید ان کا بیٹا رہا ہو جائے۔گزشتہ سماعت کے موقع پر محمد کے والد نے میڈیا سے کہا کہ اگر کوئی اور امریکی شہری اسی طرح وینزویلا کی قید میں ہوتا تو ٹرمپ اب تک چڑھائی کر چکا ہوتا۔

 مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو محمد ابراہیم اور اس کا قتل ہونے والا عم زاد سعید مسلت فلسطینی ہیں۔ لہٰذا وہ امریکی شہری ہیں یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔وہ امریکی ہو کر بھی انصاف کی قطار میں پیچھے ہی رہیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: محمد ابراہیم امریکی شہری کی اجازت اور اس کے بعد کے لیے

پڑھیں:

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت

اگر آرٹیکل 243 میں ترمیم کا نقصان سول بالادستی اور جمہوریت کو ہوتا تو میں خود اس کی مخالفت کرتا، میں حمایت اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے،بلاول بھٹوکی میڈیا سے گفتگو
آئینی عدالتیں بھی بننی چاہئیں لیکن میثاق جمہوریت کے دوسرے نکات پربھی عمل کیا جائے،جس کورٹ سے جج کا تبادلہ ہورہا ہو تو دونوں چیف جسٹس صاحبان کو کمیٹی کا رکن بنا دیں،پیپلز پارٹی کا مشورہ

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) نے 27 ترمیم کے حوالے سے آرٹیکل 243 کی حمایت جبکہ دہری شہریت کے خاتمے، الیکشن کمشنراور ایگزیکٹومجسٹریس کے حوالے تجاویز کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بلاول ہاؤس کراچی میں سی ای سی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیٔرمین پی پی پی بلاول بھٹو زردار نے کہا کہ سی ای سی کے اجلاس میں پی پی پی نے واضح کیا ہے کہ آرٹیکل 243 کی حمایت کریں گے۔چیٔرمین پی پی پی نے کہا کہ اگر آرٹیکل 243 میں ترمیم کا نقصان سول بالادستی اور جمہوریت کو ہوتا تو میں خود اس کی مخالفت کرتا، میں حمایت اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنگ جیتنے کے بعد حکومت نے جو فیصلے کیے، اس کا پاکستان کو احترام ملا ہے اور اب وہ آئینی اور قانونی کور دیا جا رہا ہے تو پاکستان پیپلزپارٹی کھل کر حمایت کر رہی ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جہاں تک این ایف سی اور دیگر سوالات ہیں تو اس پر اتفاق رائے ہے اگر دوسری جماعتوں سے مدد لینی پڑی تو خوشی خوشی ان سے رابطہ کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ آئینی عدالتیں بھی پیپلز پارٹی کا ہی انیشیٹو ہے، میثاق جمہوریت میں بھی آئینی عدالتوں کا ذکر ہے، آئینی عدالتیں بھی بننی چاہئیں لیکن میثاق جمہوریت کے دوسرے نکات پربھی عمل کیا جائے۔چیٔرمین پی پی پی نے کہا کہ آئین کے مطابق ججوں کے تبادلے چیف جسٹس کے مشورے کے ساتھ صدر مملکت کرتا ہے تاہم ترمیم کے بعد پارلیمانی کمیٹی ججوں کے تبادلے کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا مشورہ ہے کہ جس کورٹ سے جج کا تبادلہ ہورہا ہو تو دونوں چیف جسٹس صاحبان کو کمیٹی کا رکن بنا دیں، پھر وہ کمیشن ججوں سے پوچھ بھی سکے گا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ دہری شہریت اور الیکشن کمشنر، ایگزیکٹومجسٹریس کے حوالے سے ترمیم پر ہمارا اتفاق نہیں ہوا اور اہم ان نکات پر حمایت نہیں کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت
  • کویت : شہریت سے محروم کیے گئے افراد کے بینک اکاؤنٹ بھی منجمد
  • آرٹیکل 243پر حمایت جبکہ دہری شہریت اورایگزیکٹو مجسٹریٹس سے متعلق ترمیم کی مخالفت کرینگے، بلاول بھٹو
  • ’سرکاری ملازمین کو دہری شہریت یا ملازمت میں ایک کا انتخاب‘
  • ممدانی کومیئر بننے سے ارب پتی بھی نہیں روک سکے، امریکی اخبار
  • ابراہیم معاہدوں میں نیا ملک شامل، امریکا کی جانب سے آج اعلان متوقع
  • عالمی اسنوکر چیمپئن شپ: پاکستان کے محمد سجاد ایونٹ سے باہر
  • ستائیسویں ترمیم میں دہری شہریت کے خاتمے سمیت کیا کیا تجاویز دی گئی ہیں؟ رانا ثنااللہ نے بتا دیا
  • ایشین فٹبال کنفیڈریشن کے صدر اورفیفا کے سلمان بن ابراہیم پاکستان پہنچ گئے