Express News:
2025-11-08@22:48:55 GMT

ہیں کواکب کچھ

اشاعت کی تاریخ: 8th, November 2025 GMT

’’یہ جوکچھ بھی ہو رہا ہے، اس کی اصل جڑ کوئی اور ہے۔ کہیں اور سے اس کی سازش کی گئی ہے۔‘‘

’’کہاں سے کی گئی ہے؟‘‘

’’امریکا سے ۔۔۔۔ اور کہاں سے۔ بھئی! امریکا وہ ملک ہے جو دنیا میں اپنے سوائے کسی کو بڑھتا ہوا یا بڑھا ہوا، طاقتور دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔ اس کا یہ سوچنا ہے کہ دنیا بھر میں جو بھی قیمتی ذخائر ہیں اس پر صرف اور صرف اس کا ہولڈ ہونا چاہیے کیونکہ وہ سپرپاور ہے۔‘‘

’’گویا جو کچھ افغانستان، سوڈان، چین پاکستان دنیا بھر میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے امریکا ہے۔‘‘

’’بالکل۔۔۔۔ یہ ایک پراسرار ملک ہے، اس نے ذہنی، نفسیاتی، طاقت اور دوسری غیر مرئی طاقتوں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔‘‘

’’غیر مرئی طاقتوں سے کیا مراد ہے؟‘‘

’’جنات اور کون؟‘‘

’’جنات بھی امریکا سے متاثر ہیں، لیکن انھیں تو ویزے کی سہولت نہیں چاہیے، وہ تو بنا ٹکٹ کے ہی اڑ کر ادھر سے اُدھر چلے جاتے ہیں، آنکھ بند کریں تو افغانستان اور آنکھ کھولیں تو سوڈان۔ کبھی بھارت تو کبھی فلسطین۔‘‘

’’یہ مذاق نہیں ہے، سچ ہے، اس میں ان کا ساتھ قدرت دے رہی ہے۔‘‘

’’یعنی قدرت بھی امریکا کے ساتھ ہے۔‘‘ صد حیرت۔

’’بالکل ہم مسلمانوں نے اپنے رب کو ناراض کیا ہے۔۔۔۔ اتنا تو ماننا ہے ناں۔‘‘

’’ٹھیک یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔‘‘

’’جب ہم اپنے رب کو ناراض کرتے ہیں تو بدلے میں ہمیں کیا ملتا ہے۔۔۔۔ نقصان؟‘‘

’’لیکن سعودی عرب کے پاس تو ماشا اللہ بڑی دولت ہے، وہ تو ہمارے مقابلے میں پکے مسلمان ہیں، کم از کم ہم پاکستانی مسلمانوں کے مقابلے میں۔‘‘

’’ زیادہ دولت بھی تو ہلاکت ہے ناں۔۔۔۔ ہر طرف اونچی اونچی سونے کی دیواریں ہیں، تو ان دیواروں کے پار کون دیکھے، ان دیواروں کی حفاظت کون کرے، ان دیواروں کی حفاظت کے لیے گارڈ رکھے گئے ہیں۔ ان کا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘

’’یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے، وہاں پر تو ہماری بہادری کے نعرے لگتے ہیں۔‘‘

’’بالکل، نعرے لگتے ہیں کیوں کہ گارڈز کہتے ہیں کہ نعرہ اونچا لگتا ہے، تو دیکھو اتنا اونچا نعرہ لگایا کہ پاکستان تک سنا گیا۔ پھر گارڈ نے کیا کام کیا، اس نے بھارت سے دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا کیوں؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’سیدھی بات ہے کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے یوں۔ زیادہ چھان پھٹک کی نہ پہلے ضرورت تھی اور نہ اب ضرورت ہے، اور شاید ۔۔۔۔ شاید یہاں اس بات کو پہلے ہی سمجھ لیا گیا تھا کہ ماضی میں بھی امریکا نے ہمیں رلایا تھا اور ہماری جنگ میں مدد نہ کی تھی اور اب امیر لوگ ہیں وہ ظاہر ہے، امیر کا سکہ تو چلتا ہے، تو چلا اور ہم نے بھی خوشیاں منائیں۔

پر یہ کیا تم ادھر ہماری تعریفیں کرتے ہو، ادھر ان کا ٹیرف بڑھاتے ہو، تم ان کے طیارے گراتے ہو، ہمیں شاباشیاں دیتے ہو اور پھر ان سے جنھیں تم نرم دل مانتے ہو، معاہدہ کرتے ہو، یہ کیا۔۔۔۔۔ یہ کیا ہے۔‘‘

’’سیاست۔‘‘

’’نہ یہ سیاست ہے نہ یہ حکمت عملی ہے، یہ ایک بات ہے جو کل بھی تھی، صدیوں پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، پتھر پر لکیر کی طرح کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یہ منہ منہ پر ہماری باتیں کرتے، تعریفیں کرتے، مسکراتے، پر اندر اندر ان کے صرف نفرت، عداوت اور حسد چلتا ہے یہ لکھ لو۔‘‘

’’آپ کو اتنا یقین ہے؟‘‘

’’مجھ کو نہیں یقین کسی پر، لیکن قرآن پر ہے جہاں صاف لکھا ہے کہ ’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘

’’یہ تو ہے، یہ کنفرم ہے سورۃ المائدہ میں ہے۔‘‘

’’آپ ایسے لوگوں کو اوپر رکھتے ہو یا رکھنے پر مجبور ہو۔۔۔۔ اس مجبوری کو ختم کرو یار۔‘‘

’’کیسے ختم کریں اس مجبوری کو۔ وہ تو بہت طاقتور ہیں، پیسہ بھی ہے ان کے پاس۔‘‘

’’ہمارے پاس سونے کے ذخائر ہیں اور کیسی کیسی قیمتی دھاتیں ہیں۔‘‘

’’مسائل بھی تو ہیں ناں۔‘‘

’’مسائل کیوں ہیں یہ بتائیں؟‘‘

جواباً ایک گہرا سانس۔

’’بتائیں مسائل کیوں ہیں، ہماری حماقتوں، لالچ، حرص، بددیانتی کی وجہ سے ہیں ناں۔ اور یہی وہ باتیں ہیں جن سے رب ناراض ہے، ادھر ایسا نہیں ہے کہ بات صرف اپنے ملک کی ہو رہی ہے، دنیا میں دیکھ لیں مسلمان ممالک کی حالت، کیا مسائل ہیں، ابھی سوڈان میں کیا ہو رہا ہے، سونا زمین ہے، پر وہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘

’’یہ تو ہے سوڈان سونے کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔‘‘

’’پر یہ دولت کیا دے رہی ہے وہاں کی عوام کو، دکھ، تکلیف، اپنوں کا خون۔۔۔۔ تو ایک بات تو طے ہے کہ ہمیشہ دولت انسان کو سکھ نہیں دے سکتی۔ سونا نہیں کھا سکتے وہاں کے مظلوم عوام، وہ اپنی جان نہیں بچا پا رہے، یا اور کون کروا رہا ہے یہ؟‘‘

’’ آپس میں لڑ رہے ہیں دو گروپ۔‘‘

’’ اس میں کون ملوث ہیں بھئی! یہ ایک اسٹیج سجا ہے بھئی! جہاں حقیقت میں خونی ڈرامہ شوٹ ہو رہا ہے اور تماشائی بنے ہیں، یہ ساری دنیا کے امیر بڑے ملک جو کہتے ہیں کہ بھئی! لڑائی ختم کراؤ۔۔۔ ختم کراؤ پر یہ چاہتے ہیں کہ سوڈانی بھائی سب مر جائیں۔

ان کو اتنا لڑاؤ وہ جیسے مرغوں کی لڑائی ہوتی ہے ناں، سب اچھل اچھل کر اپنے بولی والے مرغے کو آوازیں لگاتے ہیں، ایسے ہو رہا ہے، پر اندر سے سب چاہتے ہیں کہ سونے کی کانیں رہ جائیں اور اس پر بسنے والے یہ غریب کم رنگت، کم شکل کے لوگ۔ یہ اس کے حق دار نہیں ہیں، یہ تو گاڈ نے ان بڑے گورے، سنہرے بالوں والے نیلی ہری آنکھوں والوں کے لیے پیدا کیا ہے، بس یہ بات ہے!‘‘

بول بول کر ان کا حلق خشک ہوا تو پانی کا گلاس اٹھایا۔

’’اس طرح تو فلسطین میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ مطلب آپ نے جو خیال پیش کیا ہے اس کے مطابق۔‘‘

’’ریزورٹ۔‘‘

’’فلسطین میں ریزورٹ۔‘‘

’’فلسطین کو ریزورٹ بنانا چاہتے ہیں بھئی! یہ تو کھلی بات ہے اور باقاعدہ اخبار و رسائل پر تحریر تھا کہ ٹرمپ کا داماد جو یہودی ہے، بلڈر ہے وہ وہاں یہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے خیال میں قیمتی زمین ہے، اب اس پر سے کچرا وچرا صاف کرنا ہے تو وہ یہ کروا رہے ہیں۔‘‘

’’لیکن اس کے لیے تو جنگ بندی کا معاہدہ۔۔۔۔!‘‘

’’کیا معاہدہ، آج کی خبریں دیکھو، کتنے فلسطینی شہید ہوئے۔ ہے کسی میں اتنی جرأت جو پوچھے کہ بھائی جنگ بندی کے بعد کون بم برسا کر مارتا ہے۔‘‘

جواباً پھر ایک گہرا سانس۔

’’کسی میں ہمت نہیں ہے کہ بددیانتی تو ان کا شیوہ ہے، جسے ہم مسلمانوں نے بھی بڑے طمطراق سے اپنا لیا ہے، اب بھگتو۔‘‘

خاموشی سی چھا گئی تھی، پھر وہ خود ہی بولے۔

’’یقین کرو ہم سب بھگت رہے ہیں اور اونچے دربار والے بھی بھگتیں گے وہ نہ سمجھیں کہ انھیں چھوڑ دیا جائے گا، ابھی تو انھیں سہلایا جا رہا ہے یہ ایک بڑے طوفان کی نشان دہی بھی ہے۔‘‘

’’قیامت قریب ہے؟‘‘بے اختیار ہنسی ابھری۔

’’ابھی قیامت نہیں آنی، ابھی تو قیامت سے پہلے کہ وہ کہتے ہیں ناں پریلیم، ابتدائی امتحانات، وہ چل رہے ہیں۔ سوچو ہم اس دور میں قیامت کے پریلیم سے گزر رہے ہیں، سوڈان کو چپکے چپکے مارا جا رہا ہے، فلسطینی ختم کیے جا رہے ہیں، بھارت سے دفاعی معاہدہ کیا، افغانستان سے ہماری لڑائی، اسے ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘

’’یہ تو ایک لمبی بحث ہو جائے گی۔‘‘

’’یہ لمبی بحث ہے، ہم سب کبوترکی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں، آنکھیں کھولنی ہوں گی، بددیانتی سے نجات حاصل کرنا ہوگی جو ہمارے لیے بہت مشکل ہے، بس بات ختم۔ ہم سب مسلم امہ بددیانتی کو نہیں چھوڑ سکتے۔ 

یہود و نصاریٰ کو اپنے ان مسائل کے حل کے لیے کھڑا کرتے ہیں ، ارے بھئی! وہ خود کھڑے ہو جاتے ہیں، ہماری ہمت نہیں کہ کہہ سکیں بھائی! ہم آپ کو ثالث نہیں بنا سکتے، ہمارے لیے آپ منع ہو، پر ہماری مجبوریاں۔‘‘ دن ڈھل رہا تھا، رات کے دھندلکے روزانہ کی مانند پھیل رہے تھے۔

پر ہم پھر بھی پُرامید ہیں کہ ناامیدی، مایوسی کفر ہے۔ یہ سوچ کر اپنی اپنی راہ لی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یہود و نصاری ہو رہا ہے رہے ہیں کیا ہے یہ ایک بھی تو کے لیے بات ہے ہیں کہ

پڑھیں:

کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟

آج دنیا میں ہر طرف ظلم و جبر انتہا پسندی اور ممالک کے درمیان تنازعات کا دور دورہ ہے، سکون اور اطمینان کیسا؟ یہ نعمتیں تو انسانوں سے کوسوں میل دور ہو گئی ہیں یا کہیں کھو گئی ہیں۔

انسان امن کی تلاش میں ہے مگر بعض طاقتیں امن کی ایسی دشمن بن گئی ہیں کہ وہ دنیا کو جہنم بنانے کی تگ و دو میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچانے کے لیے ’’ اقوام متحدہ‘‘ کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔

اس سے قبل ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے ’’ لیگ آف نیشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا مگر یہ ادارہ اقوام عالم کے درمیان باہمی تنازعات کو حل کرنے میں قطعی ناکام رہا اور بدقسمتی سے اس کی موجودگی میں ہی دوسری جنگ عظیم کا سانحہ رونما ہوا جس میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ کئی ملک برباد ہوگئے اورکئی کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا۔

یہ تباہی بربادی اتنی خوفناک اور وسیع تھی کہ دنیا ہل کر رہ گئی اور ہر ذی شعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ دنیا کو تباہی و بربادی سے بہرصورت بچایا جائے۔ تمام ممالک کو اپنے اختلافات بھلا کر یکجا ہونا ہوگا اور مستقبل کو پرامن بنانے کے لیے ایک مضبوط اور پائیدار عالمی ادارہ قائم کرنا ہوگا جو انسانیت کو آیندہ جنگوں کی ہولناکیوں سے بچا سکے، ساتھ ہی دنیا میں پائیدار امن، ترقی اور خوشحالی کا ضامن بن سکے۔

یوں 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آ گیا۔ اس کے قیام میں تمام ہی ممالک کی مرضی شامل تھی۔ اس ادارے سے یہ بھی امید وابستہ کی گئی تھی کہ آیندہ دنیا کے تمام ممالک ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور تنازعات کی صورت میں اقوام متحدہ کے آئین کے مطابق اپنے مسائل حل کریں گے۔

اس ادارے کے قیام میں غریب ممالک سے لے کر دنیا کے متمول ممالک بھی شریک تھے، طاقتور ممالک کو متفقہ طور پر یہ اختیار دیا گیا کہ ان کا ووٹ کسی بھی مسئلے کے حل کے سلسلے میں حتمی قرار دیا جائے گا۔ یہی ویٹو پاور ہے جو دنیا کے پانچ ممتاز ممالک کو تفویض کیا گیا تھا۔

ان ممالک میں امریکا، سوویت یونین، فرانس، برطانیہ اور چین کی جگہ تائیوان شامل تھا۔ اس وقت تک امریکا اور یورپی ممالک نے چین کو تسلیم نہیں کیا تھا مگر بعد میں چین کے اقوام متحدہ کا ممبر بننے کے بعد تائیوان کے بجائے چین کو ویٹو پاور سے نواز دیا گیا۔

افسوس کہ ویٹو پاورکا اکثر ممالک نے غلط استعمال کیا، امریکا نے سب سے زیادہ مرتبہ استعمال کیا مگر اکثر اس سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ دنیا میں تنازعات پہلے بھی تھے مگر اب تنازعات کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے جس کی وجہ بدقسمتی سے اقوام متحدہ کے ویٹو پاور کے حامل مستقل ممبران ہیں۔

ان ممالک نے اپنے حلیف ممالک کے حق میں بے جا طورپر ویٹو پاور کا استعمال کیا جس کی وجہ سے دنیا میں مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور عالمی سطح پر بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت دنیا کے کئی ممالک باہمی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مفاد کے لیے اپنے حریف ملک سے چھیڑ چھاڑ سے بڑھ کر جنگ تک کرنے پر تل جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے مگر ویٹو پاورکے حامل ممالک ان مسائل میں خود کو ڈال کر انھیں ایسا الجھا دیتے ہیں کہ پھر یہ برسوں حل نہیں ہو پاتے جیسے مسئلہ کشمیر اور فلسطین ہیں۔ یہ مسائل پانچ دہائیوں سے اقوام متحدہ میں حل طلب ہیں مگر ان کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

اقوام متحدہ ان جیسے کئی مسائل میں لاچار اور مجبور دکھائی دیتی ہے۔ روانڈا اور بوسنیا میں ایک عرصے تک انسانوں کا قتل عام ہوتا رہا مگر اقوام متحدہ کا ادارہ مفلوج رہا اور پھر غزہ کے قتل عام کو روکنے میں بھی قطعی ناکام رہا ہے۔

دنیا میں حق خود اختیاری کے حصول کے لیے جو اقوام مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں، اقوام متحدہ ان کی کوئی مدد نہیں کر پا رہی ہے، شاید اس لیے کہ ان مسائل میں بعض بڑے ممالک دلچسپی نہیں لے رہے کیونکہ وہ حق خود اختیاری کے غاصب ممالک کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔

یہ صورت حال انتہائی پریشان کن ہے جس سے ممبر ممالک کے درمیان اقوام متحدہ کی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کردار ہی ختم ہو گیا ہے۔

اس کے مفلوج ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے ممالک نے جو ویٹو پاور کے حامل ہیں خود اپنے اثر و نفوذ دے عالمی تنازعات کے حل کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ وہ دو ممالک کے درمیان تنازعے کے سلسلے میں اپنے فیورٹ یا پسندیدہ ملک کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں جب کہ دوسرا فریق ملک جوکہ حق پر بھی ہوتا ہے، اسے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور پھر کوئی اس کی نہیں سنتا۔

اس وقت عالمی تنازعات کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جگہ امریکا کے صدر ٹرمپ نے لے لی ہے، وہ تنازعات حل کرانے کے علاوہ ملکوں پر پابندیاں بھی لگا رہے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس بھی نہیں کر سکتا، اس لیے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے صدر ہیں۔

انھوں نے کئی ممالک کے باہمی تنازعات کو حل کرا بھی دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ تھی تو بہت مختصر مگر وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک بھی جا سکتی تھی۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اسے انھوں نے رکوا دیا، صرف دونوں ممالک کو تجارت کی آفر دے کر۔ انھوں نے اس کامیابی پر نوبل انعام دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مگر چونکہ اسے دیے جانے کا طریقہ کار مختلف ہے، اس لیے اس سال کا نوبل انعام انھیں نہیں مل سکا۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان بھی جنگ رکوا دی ہے اور صلح کرا دی ہے۔ اب اگر ممبر ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرانے کا یہی شخصی طریقہ قائم رہا تو اقوام متحدہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ لیگ آف نیشن بھی دنیا کی بڑی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ہی ناکام ہوگئی تھی اور اسی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کا سانحہ پیش آیا تھا۔ بدقسمتی سے اس وقت اقوام متحدہ کے کاموں میں بڑی طاقتیں کھل کر مداخلت کر رہی ہیں اور اسے ایک ناکام اور لاچار ادارہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں تو پھر دنیا کا خدا ہی حافظ۔ 

اقوام متحدہ کی عدم فعالیت کی وجہ سے ہی کئی طاقتور ممالک کمزور ممالک پر حملہ آور ہو رہے ہیں کیونکہ اب انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس صورت حال کا بھارت اور اسرائیل سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بھارت کا کوئی بھی پڑوسی اس کے توسیع پسندانہ رجحان سے محفوظ نہیں ہے۔ نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور بنگلہ دیش تمام ہی اس سے خوفزدہ ہیں، ادھر وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ایک طرف دہشت گردی کا سہارا لے رہا ہے۔

دوسری طرف خود بھی بلاجواز حملے کرتا رہتا ہے حال ہی میں وہ پلوامہ کے بہانے پاکستان پر پوری قوت سے حملہ کر چکا ہے مگر خوش قسمتی سے اس میں اسے تاریخی شکست اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اب وہ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کر رہا ہے۔

دراصل مودی پاکستان پر ان حملوں کے ذریعے سیاسی فائدے حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہاں ہونے والے ریاستی اور وفاقی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹتا رہتا ہے مگر اس دفعہ وہ اپنے آپریشن سندور میں ناکام ہونے کے بعد اب مشکل ہی سے بہار میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر پائے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • ستائیسویں ترمیم
  • کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • ڈپریشن ایک خاموش قاتل
  • امریکی شہریت بھی کام نہیں آ رہی
  • پاک افغان مذاکرات
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • ’لغو‘ کیا ہے؟
  • غزہ سے سوڈان تک: ایک امت، ایک ہی درد