Islam Times:
2025-11-09@00:07:51 GMT

اقبال کے مذہب پر علامہ عبدالعلی الہروی کی علمیت کا اثر

اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT

اقبال کے مذہب پر علامہ عبدالعلی الہروی کی علمیت کا اثر

اسلام ٹائمز: علامہ ہروی (اعلیٰ اللہ مقامہ) سے فیض یاب ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ علامہ کی آخری عمر تک اقبال نے جی بھر کر اپنی تحقیقات کو جاری رکھا اور تنہاء ملاقاتوں کے علاؤہ مواعظ میں بھی علامہ موصوف سے شبہات کے ازالے کے لیے سوالات کر دیا کرتے تھے اور علامہ کے تسلی و تشفی بخش جوابات سے مطمئن ہو جاتے تھے۔ علامہ شیخ نے دسمبر 1922ء میں انتقال فرمایا اور اس کے بعد اقبال کے جوہر دن بدن زیادہ ہی کھلتے گئے۔ کھوج: سید نثار علی ترمذی

اقبال اور اقبالیات دنیا اسلام میں اپنے خلوص، ہر دلعزیزی اور اسلامی تحقیقات کا سکہ بٹھا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اسلامی ملک میں علامہ اقبال کو ذی علم طبقہ نے اپنے مقام پر اور عوام الناس نے اپنے مقام پر پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا ہے۔ پاک و ہند میں بالخصوص مسلمانوں کو بیدار کرنے میں اقبال کا کافی حصہ ہے، نہ صرف بوڑھے اور بچے بلکہ نوجوان مرد و عورتیں طلباء و طالبات اقبال کے کلام اور پیغام کے گرویدہ دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت نے بھی اقبالیات کو قبول کیا ہے، ہر سال یوم اقبال بطور ایک منظور شدہ تعطیل (Gazetted holiday) کے منایا جاتا ہے۔ اندریں حالات اس امر کی ضرورت سے انکار نہیں، اقبال کے مسلک کو صحیح طور پر سمجھا جائے، تاکہ ہمارے نوجوان اور ذی علم طبقہ کے لیے پیغام اقبال سے روشناس ہو کر مناسب راستہ اختیار کرنے میں آسانی ہو۔

بقول مفکر و محقق ڈاکٹر عسکری بن احمد "علامہ علیہ الرحمہ اپنی تمام عمر راہ مستقیم کی تلاش میں رہے۔ ان کی تلاش حق اس قدر حق پر ہے کہ اگر کچھ دن اور جیے رہتے تو ضرور ظاہر بظاہر جذبہ و جوش کی مومنیت کو پا لیتے اور اسی کو اولی الامر کہتے ہیں، جس کی شان میں "انا قران الناطق" ہوتی۔ اس  میں شک نہیں کہ اقبال کے اول سے لے کر آخر کلام تک آپ کو درجہ بدرجہ اسی تلاش حق کے نتائج نظر آئیں گے۔ اقبال کی تحقیقات کی بنا پر بعد رسول جہاں تک دین اسلام کا تعلق ہے، سوائے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کوئی اور کوئی اول الامر ثابت نہیں۔ مثنوی اسرار خودی میں نیابت الٰہیہ کے تحت "اولی الامر" کو "قائم با امراللہ" یعنی من جانب اللہ تسلیم کر کے جمہوریت اور طریقہ انتخاب یعنی الیکشن سے انکار کیا ہے اور اس کا نمونہ "در شرح اسرار علی مرتضیٰ" لکھ کر اپنے مسلک کا اظہار کیا ہے۔

یہ مسلک اقبال کو وراثت میں نہ ملا تھا بلکہ تحقیقی تھا۔ جو بھی خلوص نیت سے  جستجو کرے، قدرت اس کی دستگیری کرتی ہے اور اس کے لیے تحقیقات کی راہوں کو آسان بنانے کے لیے ذرائع پیدا کر دیتی ہے۔ اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، یعنی سرکار علامہ شیخ عبدالعلی ہروی الطہرانی (اعلیٰ اللہ مقامہ) جیسے محقق اسلام جیسی ہستی اس سلسلے میں رہنمائی کا باعث بنی۔ شیخ ایران، عراق، مصر، ترکی کے شہرہ آفاق علماء سے اپنی علمیت قرآن و علوم حاضرہ کا سکہ منوا  چکے تھے اور جامع ازہر مصر میں شیخ کی تقریروں سے خلاف اسلام ادیان باطلہ کے گھر صف ماتم بچھ چکی تھی۔ مشترکہ ہندوستان کی اور بالخصوص مسلمانوں کی یہ بڑی خوش نصیبی تھی کہ شیخ کے ورود ہند کے اسباب پیدا ہوگئے۔ 1902ء میں ظلمت کدہ ہند میں وارد ہوئے اور ایک برس کراچی میں قیام کے بعد سندھ میں آئے اور سندھ سے وارد پنجاب ہوئے۔ جس جس کسی کو بھی علامہ شیخ کا قرب نصیب ہوا، وہ آپ کے کمالات علمی، عبادات و اذکار اور تزکیہ و روحانیت کا گرویدہ ہوتا گیا۔

زیادہ تر پٹیالہ، مالیر کوٹلہ، لاہور اور جھنگ میں قیام رہا۔ اہل لاہور نے بلاشبہ ان کے علم کی زیادہ قدر کی اور وہیں سے علامہ کے علم کے جوہر کھلے۔ مواعظ کا سلسلہ 1906ء سے شروع ہوا اور سلسلہ کامل سولہ برس تک یعنی 1922ء تک جاری رہا۔ مقربین میں سر علی امام، مسیح الملک حکیم اجمل خان، نواب سر ذوالفقار علی خان، خواجہ غلام ثقلین اور حکیم مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال جیسے عالی دماغ و آزاد خیال اصحاب بصیرت شامل تھے۔ حکیم مشرق علیہ الرحمہ نے سرکار شیخ کے بیانات کو صدق دل سے اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور ان کے بھرپور قرآنی و سائنسی علوم کے سامنے سر تسلیم ختم کر دیا۔ چنانچہ شیخ ہی سے مخاطب اقبال کے یہ اشعار اس امر پر کافی روشنی ڈالتے ہیں۔
اے مالک منہاج علی راہ دکھا دے
دروازہ رحمت مجھے للہ دکھا دے
جس در کا ہوں مشتاق وہ درگاہ دکھا دے
دربار شہنشاہ فلک جاہ دکھا دے
وہاں پہنچوں جہاں عرش بھی پایا نہیں رکھتا
ہمسایہ میں اس کا ہوں، جو سایہ نہیں رکھتا
(رخت سفر ص۔ 134، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ)

دراصل علامہ (اعلیٰ اللہ مقامہ) سے اقبال کی ملاقاتیں 16-1915 سے شروع ہوئی تھیں، جیسا کہ فاضل محق محمد بشیر علی صاحب کے مضمون۔۔۔۔ ابتدائی ملاقاتیں (جو اس مضمون سے پیشتر درج ہے) ظاہر ہے۔ اقبال کے عقائد و تخیلات میں عظیم انقلاب ان ملاقاتوں ہی کا نتیجہ ہے، جو کہ اسرار خودی اور رموز بے خودی میں ظاہر ہوا۔ مجالس و محافل میں علامہ کی تقریروں کا ترجمہ کرنے کی ابتدائی خدمات بھی حکیم مشرق ہی کے سپرد تھیں۔ اقبال ہمیشہ شیخ (رح) کو سرکار علامہ کے الفاظ سے خطاب کرتے تھے۔ چنانچہ مہاراجہ سر کشن پرشاد بہادر شاد (وزیراعظم حیدرآباد دکن) سے حکیم مشرق کی خط و کتابت میں اس کا ذکر آتا ہے۔ یہ خط و کتابت شاد اقبال کے نام سے ادارہ ادبیات حیدر آباد دکن نے شائع کی، جسے ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور، ایم اے پی ایچ ڈی (لندن) پروفیسر صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ نے مرتب کیا ہے۔

اس میں ایک جگہ اقبال لکھتے ہیں: "۔۔۔۔۔ہاں یہ عرض کرنا بھول گیا کہ لاہور میں کچھ عرصہ سے ایک بہت بڑے ایرانی عالم مقیم ہیں، یعنی کہ سرکار علامہ شیخ عبدالعلی طہرانی۔ معلوم نہیں کبھی حیدرآباد میں بھی ان کا گزر ہوا یا نہیں۔ عالم متبحر ہیں۔ مذہباً شیعہ ہیں، مگر مطالب قرآن بیان فرماتے ہیں تو سمجھنے سوچنے والے حیران رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ علم جفر میں کمال رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا ہوں۔ اگر اس موسم میں سرکار لاہور کا سفر کریں، خوب ہو کہ یہ آدمی دیکھنے کے قابل ہیں۔ محمد اقبال، 13 اکتوبر 1916ء (شاد اقبال پہلا حصہ خطوط ص۔ 7)

اس کا جواب مہاراجہ صاحب نے دیا: "۔۔۔۔ ابھی مجھے سرکار علامہ شیخ عبدالعلی الطہرانی سے آپ کے خط میں ملاقات کرنا باقی ہے۔ میں ان کا غائبانہ مشتاق ملاقات ہوں۔ مجھے علم نہیں نہ یاد ہے کہ حیدرآباد میں کبھی یہ آئے ہوں۔ میری طرف سے سلام شوق ملاقات۔ مزاج پرسی کیجئے اور کہیے کہ "علم جفر" کے مبارک احکام کے اثر سے مجھے بھی کچھ تسلی بخش حصہ ملنا چاہیے۔۔۔" فقیر شاد 11نومبر، 1916ء۔ (حوالہ ایضاً ص۔9) اس کے جواب میں اقبال نے لکھا: "۔۔۔۔ سرکار علامہ ہروی طہرانی سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ نہایت مخلصانہ سلام آپ کی خدمت میں پہنچاتے ہیں۔ اس سے پیشتر امرائے دکن میں سے کسی سے سرکار کے اوصاف کا تذکرہ سن چکے ہیں۔ فرماتے تھے کہ حیدرآباد کا سفر کروں گا تو مہاراجہ بہادر سے ضرور ملاقات کروں گا۔ دوسرے ملاقات کے مواقع پر اور بھی باتیں ان سے کروں گا اور جو کچھ وہ فرمائیں گے، دوسرے خط میں عرض خدمت والا کروں گا۔ مخلص دیرینہ: محمد اقبال، 4 دسمبر 1916ء (حوالہ ایضاً ص۔10)

علامہ ہروی (اعلیٰ اللہ مقامہ) سے فیض یاب ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ علامہ کی آخری عمر تک اقبال نے جی بھر کر اپنی تحقیقات کو جاری رکھا اور تنہاء ملاقاتوں کے علاؤہ مواعظ میں بھی علامہ موصوف سے شبہات کے ازالے کے لیے سوالات کر دیا کرتے تھے اور علامہ کے تسلی و تشفی بخش جوابات سے مطمئن ہو جاتے تھے۔ علامہ شیخ نے دسمبر 1922ء میں انتقال فرمایا اور اس کے بعد اقبال کے جوہر دن بدن زیادہ ہی کھلتے گئے۔ شیخ نے اپنے بیانات میں مسئلہ امامت اس قدر واضح کیا کہ اقبال "اصول امامت" تسلیم کرنے کے سوا انکار نہ کرسکا اور بالآخر پکار اٹھا:-
ہنوز ایں چرخ نیلی کج خرام است
ہنوز ایں کارواں دور از مقام است
ز کار بے نظام و چہ گویم
تو می دانی کہ امت بے امام است (ارمغان حجاز)

علامہ ہروی (رح) نے حکیم مشرق کو اس قدر صبہائے محبت اہل بیت پلا دی تھی کہ اقبال نے آخرکار ان الفاظ میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا:-
نجف میرا مدینہ ہے مدینہ ہے میرا کعبہ
میں بندہ اور کا ہوں امت شاہ ولایت ہوں
جو سمجھوں اور کچھ خاک عرب میں سونے والے کو
مجھے معذور رکھ میں مست صہبائے محبت ہوں
محبت اقبال کے دل میں عشقِ کی حد تک پہنچ گئی۔ اس کے تمام پیغام کا مرکز یہ عشق ہی ہے اور اس کے نزدیک دین بغیر عشق کے اور کچھ نہیں۔
زندگی را شرع و آئین است عشقِ
اصل تہذیب است دیں، دین است عشقِ (جاوید نامہ)
اور اس وضاحت کے لیے محمد و آل محمد (علیہم السلام) ہی کو پیش کرتا ہے۔
عشق با نان جویں خیبر کشاد
عشق در اندام مہ چا کے نہاد

اور کبھی حسنین (علیہم الصلوۃ والسلام) کو مرکز "پر کار عشق" اور "قافلہ سالار عشق" کے الفاظ سے پکارتا ہے اور یہ یورپین نظام مادیت سے پوری طرح واقفیت رکھنے کے باوجود کہتا ہے:-
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف (بال جبریل)
وہ مسلمانوں کی ابتدائی حکومتوں سے بھی نالاں رہا، جو اسلامیت کو چھوڑ کر ملوکیت پر قائم ہوگئیں۔ جیسا کہ کہا:-
خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
خود سر تخت ملوکیت نشست
وہ نہ صرف ملوکیت سے بیزار رہا بلکہ جمہوریت کو بھی خلاف اسلام سمجھتا رہا:-
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کاری شود
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آئید
کاش اقبال کے شیدائی اقبال کے پیغام کو سمجھیں۔
(ماہنامہ معارف اسلام لاہور، اپریل 1961ء)

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سرکار علامہ اللہ مقامہ علامہ ہروی علامہ شیخ حکیم مشرق اور اس کے انکار نہ اقبال نے علامہ کے اقبال کے کروں گا دکھا دے کے لیے کیا ہے ہے اور

پڑھیں:

نیو یارک اور لندن کے مسلم میئرز کو مذہب کی بنیاد پر تنقید کا سامنا

نیو یارک کے نئے میئر ظہران ممدانی اور لندن کے میئر صادق خان دونوں کو اپنے مسلم عقیدے کی بنیاد پر تنقید اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

صادق خان جو 2016 سے لندن کے میئر ہیں، نے ممدانی کی فتح کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ نیو یارکرز نے ’ڈر کے بجائے امید، اور تقسیم کے بجائے اتحاد‘ کو منتخب کیا۔

یہ بھی پڑھیں:’شریعت‘ سے متعلق ٹرمپ کا بیان اسلاموفوبک اور نسل پرستانہ ہے، میئر لندن صادق خان

انہوں نے کہا کہ ممدانی، جو سابق نیو یارک گورنر اینڈریو کومو اور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا کو شکست دے کر منتخب ہوئے، ان کے لیے ان کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔

دونوں میئرز کو امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر انتہا پسند حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ ٹرمپ نے خان کو ’خراب میئر‘ قرار دیا اور لندن میں شریعت لانے کا الزام بھی لگایا۔

صادق خان نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ نسل پرست، مردانہ مخالف اور اسلام مخالف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا ظہران ممدانی کی جیت پر پہلا ردعمل، ریپبلکنز کی شکست کی وجوہات بھی بتا دیں

ممدانی بھی ریپبلکن مخالفین کی جانب سے جھوٹے الزامات جیسے ’جہادی‘ اور حماس کے حمایتی ہونے کے دعووں کا سامنا کر رہے ہیں۔

ممدانی نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا کہ وہ اپنی شناخت، اپنے کھانے یا اپنے ایمان میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔

صادق خان نے کہا کہ ان کا فرض ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کریں اور اپنے ایمان کے بارے میں سوالات کا جواب صبر اور احترام کے ساتھ دیں۔

34 ظہران ممدانی سالہ ڈیجیٹل کیمپین کے ذریعے نوجوان ووٹرز کو متحرک کر کے نیو یارک کی سب سے بڑی انتخابی حاضری میں کامیاب ہوئے۔ جبکہ 55 سالہ صادق خان لیبر پارٹی کے درمیانے دائیں بازو کے رہنما ہیں، جنہوں نے جنوبی لندن میں پبلک ہاؤسنگ میں پرورش پائی اور بعد میں انسانی حقوق کے وکیل اور پارلیمنٹ رکن بنے۔

یہ بھی پڑھیں:میئر صادق خان کو شاہی عشائیے میں مدعو نہ کرنے کی درخواست کی تھی، صدر ٹرمپ کا انکشاف

دونوں میئرز کی زیر قیادت شہر 8 ملین سے زائد آبادی والے بڑے اور متنوع میٹروپولیٹن علاقے ہیں۔ صادق خان نے لندن میں تعلیمی اداروں میں مفت کھانے، ٹرانزٹ کرایوں میں کمی اور آلودگی کم کرنے کے اقدامات کیے ہیں جبکہ ممدانی نے نیو یارک میں بچوں کی مفت دیکھ بھال، سستی بسیں، نئے ہاؤسنگ منصوبے اور شہری گروسری اسٹورز کے قیام کا وعدہ کیا۔

ماہرین کے مطابق دونوں میئرز کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ وعدوں کو حقیقت میں بدلیں، کیونکہ بڑے شہروں میں حکومتی اختیارات محدود اور مختلف سطحوں پر تقسیم ہوتے ہیں، اور مخالفین کی تنقید سے عوامی دباؤ بھی بڑھتا ہے۔

اس کے باوجود دونوں میئرز نے اپنے شہر کی ترقی اور عوامی خدمت کے لیے کام جاری رکھا ہوا ہے، اور اپنے مذہب اور شناخت کے باوجود عوامی خدمت میں مصروف ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی صدر ٹرمپ صادق خان ظہران ممدانی میئر لندن میئر نیویارک

متعلقہ مضامین

  • بلاول زرداری کا علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت
  • موجودہ پاکستان علامہ اقبالؒ کے خواب کے برعکس ہے، اسلم فاروقی
  • یوم اقبال اور ہم
  • علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
  • شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کا 148واں یومِ پیدائش کل عقیدت و احترام سے منایا جائیگا
  • نیو یارک اور لندن کے مسلم میئرز کو مذہب کی بنیاد پر تنقید کا سامنا
  • شاعر مشرق کا فکر و فلسفہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے بیداری،خودی اور روحانی احیا کا سر چشمہ ہے، حسن محی الدین
  • حکیم مشرق اقبال اور علامہ ہروی کی ابتدائی ملاقاتیں
  • ایرانی وفد کی ملاقات‘ علامہ اقبال کا دن ملکر منائیں گے: عظمیٰ بخاری